-
قومی املاک پر سرکاری نگاہیں اور مذہبی قیادت
- سیاسی
- گھر
قومی املاک پر سرکاری نگاہیں اور مذہبی قیادت
178
m.u.h
19/12/2023
0
0
تحریر: عادل فراز
مدارس میں روایتی تعلیم اور موروثی نظام پر ہم نے مسلسل لکھاہے ۔ان تمام تحریروں میں ایک مشترک نکتہ یہ تھاکہ مدرسوں کو نئے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے نیز قومی وراثت کو ذاتی میراث نہ سمجھا جائے ۔مدارس میں مروجہ نظام تعلیم اور غیر تربیت یافتہ مدرسین کا تدریس کے فرائض انجام دینا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے ،جس پر کبھی توجہ مرکوز نہیں کی گئی ۔انگریزوں نے ۱۸۵۷ کے انقلاب کو ناکام بنانے کے بعد سب سے پہلے مدرسوں کے نصاب تعلیم کو تبدیل کیا تھا،تاکہ مدارس سے نکلنے والے افراد فقط مسجدوں اور مکتبوں تک محدود ہوکر رہ جائیں ۔انہوں نے اس عہد میں مروجہ نصاب کو بدل کر قصے ،کہانیوں کو شامل کردیا،جس نے مدرسوں کی روح کو یکسر ختم کردیا۔فقہ اور معقولات کی تدریس میں عصری تقاضوں کو پیش نظر نہیں رکھا گیا اور انقلاب زمانہ کے ساتھ مدارس کو بدلنے کی کوشش نہیں کی گئی ،جس کا خمیازہ آج پوری قوم کو بھگتنا پڑرہاہے ۔اگر مدرسوں کے ذمہ دار اور ہمارے اکابر علمائے کرام آزادی کے بعد نئے نصاب تعلیم کی تدوین میں مروجہ عصری علوم کو بھی شامل کرتے تو آج اس قدر بدتر صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔نصاب میں عصری علوم کی شمولیت تو دور کبھی نصاب تعلیم کی از سرنو تدوین اور تشکیل پر بھی باقاعدہ بحث نہیں ہوسکی ۔جبکہ ہر چھوٹے بڑے قصبے اور دیہات میں مدارس قائم ہوتے رہے جن سے ملت میں دینی بیداری کے ساتھ سماجی اور سیاسی بیداری بھی پیداکی جاسکتی تھی ،لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا۔اب جبکہ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں مدرسوں کو بدنام اور مشکوک کرنے کی مہم جاری ہے ،ہمارے علماء اور اکابرین ملت اپنی غلطی تسلیم کرنے اور اس کی تلافی کے بجائے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ریاست آسام میں تو تقریباً چارسو مدرسوں کو سرکار نے انگلش مڈل اسکولوں میں بدل کر ان کی املاک کو اپنے تصرف میں لے لیاہے ۔اس فیصلے کو غلط یا صحیح ٹھہرانا تو بعد کا مسئلہ ہے ،پہلے تو یہ بتلایاجائے کہ نوبت یہاں تک کیسے پہونچی کہ مدرسوں کی اتنی بڑی تعداد کو سرکار نے اپنے تصرف میں لے کر انہیں عصری تعلیم کا مرکز بنادیا؟یہ کام تو مدرسوں کے ذمہ داروں کو بہت پہلے کرنا چاہے تھا،سرکار کو نہیں !
ریاست اترپردیش اور ریاست آسام میں مدرسوں کو مشکوک اور بدنام کرنے کا عمل بہت پہلے شروع ہوچکا تھا ۔بی جے پی کے اراکین تو مدت دراز سے یہ کہتے رہے ہیں کہ مدارس ’دہشت گردی کا مرکز‘ ہیں ،جبکہ آج تک وہ اس بارے میں کوئی پختہ شواہد پیش نہیں کرسکے ۔اترپردیش سرکار نے گذشتہ سال مدارس کا سروے کروایا تھا جس کی رپورٹ کو ابھی تک عوامی نہیں کیا گیا،اس پر امسال بھی دوبارہ سروے کا حکم دیدیاگیا ۔سرکار کے مطابق مدرسوں کو ہندوستان کے باہر سے فنڈملتاہے ،جس کو روکنے کے لئے یہ کاروائی کی جارہی ہے ۔جبکہ ہم نے اس سے پہلے بھی لکھاتھاکہ بیرونی فنڈنگ کا مسئلہ فقط مدارس تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں ہر مذہب و مسالک کے قومی اور سماجی ادارے شامل ہیں ،لہذا جانچ کے دائرے میں بھی تنہا مدارس کو نہ لایاجائے ۔حتیٰ کہ ہندوستان کی تمام چھوٹی بڑی سیاستی جماعتوں کو بھی بیرون ملک سے فنڈنگ ہوتی ہے ،اس کی بھی جانچ ہونی چاہیے ۔لیکن بی جے پی سرکار کا یہ کہناہے کہ عوام کو اس بارے میں جاننے کا کوئی حق نہیں پہونچتاہے کہ سیاسی جماعتوں کو کہاں کہاں سے فنڈ ملتاہے،توپھر تنہا مدارس کی جانچ کا حکم کیوں دیاجارہاہے ؟ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ سرکار کی نگاہ میں مدرسے مشکوک ہیں ،جیساکہ اس کے اراکین بے سر پیر کی ہانکتے رہتے ہیں ۔اترپردیش سرکار نے تو یہاں تک کہاہے کہ نیپال کی سرحدوں پر چلنے والے مدرسوں نے اپنی فنڈنگ کے سلسلے میں واضح جواب نہیں دیاہے ،اس لئے دوبارہ مدرسوں کی فنڈنگ کے بارے میں جانچ کروائی جارہی ہے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ مدرسوں میں مالی شفافیت ہمیشہ زیر سوال رہی ہے ،کیونکہ فنڈنگ کا صحیح حساب و کتاب بہت کم جگہوں پر ملتاہے ،اس لئے مدرسے اپنی فنڈنگ کے بارے میں بتلاتے ہوئے کتراتے ہیں ۔اگر مدرسوں میں آزاد کمیٹیاں قائم ہوتیں اور مورثی نظام موجود نہ ہوتا تو مالی شفافیت پر اس طرح سوال نہ اٹھائےجاتے ۔اس لئے اب بھی موقع ہے ملت کے ذمہ دار افراد مدرسوں میں آزاد اور خودمختار کمیٹیاں قائم کرنے کامطالبہ کریں تاکہ بہتر نظام کے ساتھ مالی امور میں شفافیت آسکے ۔البتہ یہ بہت مشکل اور تقریباً ناممکن عمل ہے ،لیکن مایوسی کفر ہے ۔
ریاست آسام میں سرکار نے زیادہ تر مدرسوں کو اپنے تصرف میں لے لیاہے جبکہ ان مدرسوں کی املاک کی خریداری قومی چندے سے ہوئی تھی ،سرکار مدارس کے عملے کو صرفتنخواہیں دیتی ہے ،جس کے متعلق سرکار کو سوال کرنے کا حق ہے ،لیکن مدرسوں کی املاک کو اپنے زیر تصرف لانے کا کوئی حق نہیں پہونچتا۔ آسام میں مدارس پر سرکاری قبضے کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی زیر التواہے جس میں کہاگیاہے کہ آسام سرکار نے سرکاری امداد یافتہ چارسو سے زائد مدرسوں کو اسکولوں میں بدل کر ان کی جائدادوں پر قبضہ کرلیاہے ۔سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں آسام حکومت سے جواب بھی طلب کیاہے ،لیکن آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کومسلم دشمنی نے اندھاکردیاہے ،اس لئے وہ ہمیشہ ایسے اقدامات کرتےرہتے ہیں جس سے مسلمانوں کو ڈرایاجاسکے۔افسوس یہ ہے کہ اب تک آسام سرکار کے اس اقدام پر مذہبی قیادت کا کوئی واضح ردعمل سامنے نہیں آیا۔مذہبی قیادت کو اس بارے میں واضح موقف اختیار کرنا چاہیے ۔کیونکہ ریاستی حکومتیں قومی املاک پر مسلسل قبضے کررہی ہیں خواہ وہ مدرسے ہوں یا اوقاف کی زمینیں ۔اگر ہماری قومی املاک بھی محفوظ نہیں ہیں تو قوم کا مستقبل کیسے محفوظ رہ پائے گا؟
معلوم ہونا چاہیے کہ سرکاری امداد یافتہ مدرسوں میں تدریس بھی متاثر ہوئی اور نظم و نسق بھی ۔اس بنیاد پر عوام بھی مدرسوں سے بدظن ہوتی گئی اور آج صورت حال یہ ہے کہ قوم کے اکثر افراد نے مدرسوں پر اعتبار کرنا چھوڑ دیا۔اس لئے عوامی امداد بھی متاثر ہوئی ہے اور مدرسوں میں طلبا کی تعداد میں بھی کمی آئی ہے ۔اسکے برعکس فرسودہ نظام تعلیم نے بھی ملت کو مدرسوں سے برگشتہ کردیا کیونکہ انہوں نےانگریزوں کے مقرر کردہ نصاب تعلیم کو بدلنے کی زحمت نہیں کی اور نصاب کو نئے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کیا ۔اس بناپر مدارس کے فارغین اچھے پیش نماز ،موذن اور مفتی تو بن گئے لیکن انہیں عصری تقاضوں کی بالکل سمجھ نہیں رہی ۔یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام معاصر سماجی اور سیاسی تبدیلیوں کی صحیح افہام و تفہیم نہیں کرپاتے ہیں ،اس کے باوجود انہیں ملت کی رہبری کا شوق ہے ،جس نے ملت کو سماجی اور سیاسی سطح پر پسماندہ بنادیاہے ۔اس پر عوام آج بھی دانشورانہ قیادت کے بجائے مذہبی قیادت کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی ہے کیونکہ وہ اب بھی دانشورانہ قیادت سے زیادہ مذہبی قیادت پر اعتماد کرتی ہے ،مگر اس طبقےمیں صرف جمود نظر آتاہے ،تحریک نہیں ۔اسی بناپر عوام کے خواندہ طبقے کی طرف سے قیادت کے یک قطبی نظام کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں اور وہ دانشورانہ قیادت کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں ،جیساکہ ہم نے شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کے خلاف ہورہے احتجاجوں کے موقع پر بھی دیکھا ۔
اس وقت سرکار مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی ہر ممکنہ پالیسی اختیار کررہی ہے لیکن مسلمانوں میںبزدلانہ خاموشی ہے ۔اس موقع پر ہم یہ بھی واضح کردینا چاہتے ہیں کہ مزاحمت اور تحریک سے ہمارا مقصد فساد نہیں ہوتا ،بلکہ ہم فکری اور نظریاتی سطح پر مزاحمت کی بات کرتے ہیں ،تاکہ ملت کے مستقبل کو تاریکی میں بھٹکنے سے بچایا جاسکے ۔افسوس یہ ہے کہ ملت کا وہ خواندہ طبقہ جو دانشورانہ قیادت کا مطالبہ کرتاہے ،اس کے پاس بھی ملت کے لئے کوئی مناسب لایحۂ عمل موجود نہیں ہے اور نہ کسی دانشور کی طرف سے کوئی منثور پیش کیاگیا ۔اس لئے ملت کے تئیں دونوں قیادتیں وفادار نظر نہیں آتیں ۔مذہبی قیادت ،جس پر آج بھی عوام کو اعتماد ہے ،خواہ وہ کسی بھی قدر باقی ہو،اس کو چاہیے کہ وہ زعفرانی تنظیموں کے آلۂ کار کی حیثیت کے بجائے،خالص ملت کی فلاح اور بہبودی کے لئے کام کرے ۔مگر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اکثر افراد زعفرانی ایجنڈے کے نفاذ میں معاون ثابت ہورہے ہیں ،جس کا اندازہ ’انٹر فیتھ کانفرنسوں ‘ کے منصوبہ بند انعقاد سے بھی ہوتاہے ۔بہتر یہی ہے کہ زرخرید غلام بننے کے بجائے آزادی اور خود مختاری کی راہ پر لوٹاجائےتاکہ نوجوان نسل مزاحمتی قوت سے محروم نہ رہے۔آج بھی ملت اپنے بنیادی مسائل کے حل اور سیاسی قوت کی مرکزیت کے لئے علما کی طرف دیکھ رہی ہے ،اس لئے علما کو عوام کے خواندہ طبقے کے ساتھ مل کر خوش آیند مستقبل کے لئے مناسب لایحۂ عمل ترتیب دینا چاہیے ،جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے ۔جب تک ہم اپنی طاقت کا احساس نہیں کروائیں گے ،حکومتیں اسی طرح ہمارا استحصال کرتی رہیں گی اور کچلنے کی حکمت عملی اپنائی جاتی رہے گی ۔