وصیل خان
یہ تو کوئی کہہ ہی نہیں سکتا کہ علم کوئی بے فائدہ چیز ہے۔ علم ایسی شئے ہے جو انسان کو انسا ن بنادیتا ہے یہ ہمارے اندر سے جہالت ،گمرہی اور حیوانیت کو دور کرکے اندھیروں سے اجالوں تک لے آتا ہے،جہاں سب کچھ واضح اور روشن ہوجاتا ہے۔یہ ہمیں ہی نہیں پورے معاشرے کو متوازن اور ایک دوسرے کا خیرخواہ بنادیتا ہے۔ موجودہ صورتحال بتارہی ہے کہ آج ہمارے ملک اور معاشرے میں حصول علم کا غلغلہ بےحد بلندہے ،ہر طرف اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا ایک سیلاب سا آیا ہوا ہے۔ عوامی اور سرکاری سطح پر جس سے جتنا ہوسکتا ہے،علم کے پھیلاؤ، اس کی اہمیت اور ضرورتوں کو لوگوں کے دلوں میں بٹھانےمیں مصروف ہے، ان علاقوں اور وادیوں میں بھی مدارس اور پاٹھ شالائیں کھولی جارہی ہیں جہاں وسائل و ذرائع بالکل محدود ہیں۔
سرکاری طور پر بھی ان افراد کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ مالی تعاون بھی دیا جاتا ہے تاکہ علم کی روشنی سے کوئی محروم نہ رہ سکے اور ملک کا ہر فرد پڑھالکھا اور مہذب بن جائے، لیکن یہ ساری کوششیں اس وقت ازکار رفتہ اور رائیگاں ہوتی دکھائی دیتی ہیں جب اس کے نتائج مثبت صورتحال میں آنے کے بجائے منفی انداز میں ابھر کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ آخر اس تلخ حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ملک میں جس تیزی اور قوت سے علم کے دریا بہائے جارہےہیں اس سے کہیں زیادہ تیزرفتاری سے سماج اور معاشرے میں جہالت ، حیوانیت ، خودغرضی ، لوٹ کھسوٹ اور سب سے بڑھ کر فرقہ پرستی کے ہولناک طوفا ن اٹھتے جارہے ہیں اور اس طوفان بلاخیز کی تباہ کاری اتنی طاقت ور ہے کہ باوجود ہزارکوششوں کے وہ نہ پیچھے کی طرف ہٹتا ہے نہ ہی کمزور دکھائی دیتا ہے۔
ایسا کیوں ہورہا ہے ، آخر مثبت نتیجے کے برعکس منفی صورتحال کیوں پیدا ہوتی جارہی ہے۔ ملک میں انسانیت ،یکجہتی اور بھائی چارے کے بجائے فرقہ پرستی اور حیوانیت کی فصلیں کیوں اگ رہی ہیں۔ اس صورتحال میں یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم خود اپنا جائزہ لیں اورتعلیمی غلغلے کے شور میں ان ناکامیوں کی وجوہات تلاش کریں۔ سردست ہمیں علم کی افادیت اور نقصانات کا بھی تجزیہ کرنا چاہیئے کہ ہم جس علم اور طرز تعلیم کو فروغ دے رہے ہیں ،اسی میں تو کوئی نقص نہیں۔ اس موقع پرمولائے روم کا ایک شعر بے ساختہ یاد آگیا آپ بھی سن لیں جس میں بڑی اہم اور نکتے کی بات کہی گئی ہے جس پر غور و فکر کے ذریعے ممکن ہے کہ ہم اس سرے کو پالیں جو ان مثبت نتائج کی کچھ نشاندہی کرسکے۔
علم را بر تن زنی مارے شود ۔۔۔۔۔۔علم را بر دل زنی یارے شود
اس کا مطلب یہ ہے کہ علم کا استعمال درست نہج پر نہیں ہورہا ہے اگر ہم علم کو اپنی آسائش اور تن آسانی کے حصول کا ذریعہ بنائیں گے تو یہ علم ہرگز بابرکت نہیں ہوسکتا بلکہ اس سانپ کی طرح بن جائے گا جس کاکام صرف زہر اگلنا اور انسانی زندگیوں کو زہرناک بنانا ہے۔اس کے برعکس اگر اس کے استعما ل کا مقصد دل کی اصلاح ہو تو یہی علم ہمارا دوست اور راہنما بن جائے گا ،کیونکہ دل کی صحت مندی ہی سارے دکھوں اور مسائل کا مداوا بن سکتی ہے۔ دل بگڑاتو سب کچھ بگڑجائے گا او ر کچھ بھی باقی نہ رہے گا اور اگر کچھ رہے گا بھی تو صرف یہی تباہی و بربادی جو آج پوری شدت کے ساتھ ہمارے درمیان موجود ہے۔جس کے تدارک میں ہم صد فیصد ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ دوسری سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہم جس علم کے حصول کی دوڑمیں مصروف ہیں اس کے اندر انسان سازی کا کوئی جوہر ہی موجود نہیں ،یہ ہمیں صرف اور صرف حیوان کاسب ( کمانے والا انسان) بنارہا ہے نہ کہ ایک ہمدرد انسان۔ میڈیکل کے شعبے میں جاتے ہیں تومعالج بنتے ہیں لیکن ذاتی سامان تعیش کے حصول میں اندھے ہوجاتے ہیں اور انسانی زندگیوں سے کھلواڑ کرتے ہیں جس کا نظارہ کسی بھی میڈیکل فیلڈ میں بہ آسانی کیا جاسکتا ہے۔ انجینئرنگ کے میدان میں جاتے ہیں تو وہاں بھی تعمیراتی سطح پر انہی بدعنوانیوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔
پبلک سیکٹر ہویا پرایئویٹ سیکٹر ہر جگہ وہی شیطانی کارفرمائیاں جاری ہیں۔ انسانی زندگی تباہ ہو، ہلاکتیں بڑھیں ہمیں کیا ہم تو بس حیوان بنائے گئے ہیں ،اپنا پیٹ بھرنا جانتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ سامان تعیش کا حصول کہ سات پشتیں کھاتی رہیں۔ لوگ روتے سسکتے رہیں اور اسپتالوں میں ایڑیاں رگڑیں مگر ہمارے عیش میں کمی نہ آنے پائے۔ آئین کی رو سے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کا قیام اس لئے کیا جاتا ہےکہ ایک ایسا نظام حیات ترتیب دیا جائے جس سے عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم ہو ں اور لوگ پرسکون زندگی گزارسکیں ، امن وانصاف کا بول بالاہو، ظلم و زیادتی کو اکھاڑ پھینکا جائے اور ملک میں کوئی رونے والی آنکھ نہ رہ جائے۔ فرقہ پرستی، تنگ نظری، بربریت اور نا انصافی کا خاتمہ ہو تاکہ شہر جنگل نہ بننے پائے۔ لیکن آج پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے کون واقف نہیں۔ گذشتہ دنوں سابق صدر مملکت پرنب مکھرجی نے اپنے الوداعی خطاب میں کہا کہ ہمارا آئین ملک کا وقار ہے اس سے سماجی اور اقتصادی تبدیلیوں کا خاکہ تیا ر کیا جاسکتا ہے۔ یہ آئین ملک کے ایک ارب لوگوں کی روح ہے۔ پارلیمنٹ بحث ، مشاور ت اور اختلاف رائے کے اظہار کی جگہ ہے اس میں تعطل یا رخنہ اندازی نقصان دہ ہے جس سے قانون سازی متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے آرڈی نینس کے رجحان پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے حتی الامکان گریز کیا جانا چاہیئے یعنی پارلیمانی اصول و ضوابط کے بغیر کسی بل کی منظوری عوامی سطح پر بداعتمادی کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کا فیصلہ ناگزیر حالات میں ہی کیا جانا چاہیئے۔
یہ ساری باتیں انتہائی طور پر درست اور صحت مندجمہوریت کیلئے ضروری ہیں۔ اس کے باوجود ملک میں وہ سب ہوتا رہا جو نہیں ہونا چاہیئے ، لگ بھگ تین سالوں سے مسلسل جمہوری اقدار کو پاؤں تلے روندا جارہا ہے لیکن اس کے تدارکی اقدامات کی کوئی جھلک بھی نہیں دکھادیتی۔ عجیب بات ہے جب ہمارے پاس آئینی و دستوری طاقت ہوتی ہے اس وقت نشہ ٔ اقتدر ہمیں مفلوج بنائے رکھتا ہے ، لیکن جب طاقت ختم ہوجاتی ہےتو ہم میں شیروں جیسی قوت آجاتی ہے۔ یہ سب وہی کھیل ہیں جو برسوں سے اس ملک میں جاری ہیں۔ اب ہمیں تسلیم کرلینا چاہیئے کہ ہم فالج زدہ ہیں ، مجبور و بے بس ہیں اور تعیش پسندی ہمیں محبوب ہے چاہے وہ کسی بھی قیمت پر ملے۔