-
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا سفارتی مشن کامیابی کی راہ پر
- سیاسی
- گھر
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا سفارتی مشن کامیابی کی راہ پر
476
m.u.h
17/07/2023
1
0
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
ملکوں کے درمیان تعلقات کو بڑھانے اور نئے افق تلاش کرنے کے لیے ملکوں کے سربراہان دوسرے ممالک کے دورے کرتے ہیں۔ یہ دورے تاریخ کا رخ تبدیل کر دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ذولفقار علی بھٹو کے دور میں ہنری کسنجر کو چائنہ کا دورہ کرایا گیا، اس دورے نے جہاں امریکہ اور چائنہ کے درمیان تعلقات کا رخ متعین کیا، وہیں اقوام متحدہ میں چین کے موثر کردار کا باعث بھی بنا۔ اسی طرح انڈیا پاکستان پر حملے کے لیے تیار بیٹھا تھا، یہ ضیاء الحق کا انداز تھا کہ میچ دیکھنے کے بہانے انڈیا پہنچ گئے اور ساتھ بیٹھے انڈین پرائم منسٹر کے کان میں بتا آئے کہ جنگ کی صورت میں کوئی بھی نہیں بچے گا۔
ایران پر شدید امریکی پابندیاں عائد ہیں اور امریکہ چاہتا تھا کہ ایران ان پابندیوں کی وجہ سے گھٹنے ٹیک دے اور امریکی خارجہ پالیسی کے مطابق خود کو ڈھال لے۔ ان کے تجزیہ نگاروں نے چند ماہ میں ہی ایرانی معیشت کے بیٹھ جانے کی بات کی تھی۔ ایرانی قیادت نے بہترین انداز میں ان پابندیوں کا مقابلہ کیا اور انہیں ایک موقع میں تبدیل کر دیا۔ امریکہ ہر اس ملک پر اقتصادی پابندیاں عائد کرتا ہے، جو اس کی خارجہ پالیسی کے مطابق نہیں چلتا، یعنی اس کا فرمانبردار بن کر نہیں رہتا۔ آج کی دنیا رابطے کی دنیا ہے، آج کی دنیا تجارت اور معیشت کی دنیا ہے۔ آج ملکوں کے درمیان تعلقات کا تعین ان کی اقتصادی طاقت کرتی ہے۔
ایران فوجی طور پر مستحکم ہوچکا ہے اور اب اقتصادی طور پر بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ایران نے انقلاب کے بعد اپنے اقتصادی انفراسٹکچر کو بڑی تیزی سے بڑھایا ہے۔ بڑی بڑی کمپناں کھڑی کی گئی ہیں اور ہر شعبے میں خود کفالت کا سفر بڑی محنت سے مکمل کیا گیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے غالباً کیوبا کی تصاویر میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں، جن میں ایران کی دو ہزار بہترین گاڑیاں بندرگاہ پر اتاری جا رہی ہیں۔ یہ بہت اہم ہے کہ آپ کے پاس دنیا کو بیچنے کے لیے کچھ ہو۔ آج پاکستان اور ایران تیزی سے قریب آرہے ہیں، ہمارے آرمی چیف ایران کے دورے پر ہیں، اس سے پہلے وزیراعظم شہباز شریف اور ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے درمیان پاک ایران بارڈر پر بننے والی مارکیٹ کے افتتاح کے موقع پر ملاقات ہوچکی ہے۔
جب آپ معیاری چیز بناتے ہیں تو دنیا اس کے پیچھے ہوتی ہے، ایک دوست بتا رہے تھے کہ پہلے کراچی میں لوگ ایرانی تیل سستا ہونے کی وجہ سے خریدتے تھے اور اب مہنگا ہونے کے باوجود اس لیے خریدتے ہیں کہ وہ بہت ہی معیاری ہے۔ ان شاء اللہ پاک ایران تجارت اب تیزی سے بڑھے گی۔ ذکر صدر ابراہیم رئیسی کے طوفانی دوروں کا ہو رہا تھا، انہوں نے مارچ میں چائینہ کا دورہ کیا، جس میں بڑی حکمت عملی کے ساتھ سعودی عرب سے تعلقات کو بحال کر لیا گیا۔ اب ایک دہائی میں پہلے ایرانی صدر ہیں، جو افریقہ کا دورہ کر رہے ہیں۔ جون میں کیوبا، وینزویلا اور نکاراگوا کا دورہ کیا گیا اور اس کے ساتھ انڈونیشیا جیسے اہم ملک کا دورہ بھی کیا اور اب افریقہ کے تین اہم ممالک کینیا، یوگنڈا اور زمبابوے کے دورے پر ہیں۔
صدر ابراہیم رئیسی کا اکیس مہینوں میں چودواں دورہ ہے۔ یہ بنیادی طور پر امریکی پابندیوں کا شکار ممالک کو ریسکو کرنے کا مشن ہے، تاکہ ان کی عوام کو کچھ ریلیف دیا جا سکے۔ ایک وقت تھا، جب دنیا کے ممالک کی اکثریت غیر جانبدار ہوا کرتی تھی، مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اب پارٹیاں زیادہ مضبوط ہوگئی ہیں اور غریب اور خوددار ممالک کا خون چوس رہی ہیں۔ لاطینی امریکہ کے ممالک کے ساتھ ایران کے بہت اچھے تعقات ہیں۔ کیوبا کے ساتھ ملکر کوڈ کی ویکسین بنائی جا رہی تھی۔ اس دورے میں تیرہ معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں، جن کے ذریعے تجارت، صنعت اور زراعت سمیت دفاع وغیرہ میں تعقات بہت مضبوط ہوں گے۔
اسی طرح صدر رئیسی نے انڈونیشیا کا دورہ کیا، جو بہت ہی اہمیت کا حامل دورہ تھا۔ اس دورے میں صدر ابراہیم رئیسی کا بھرپور عوامی استقبال ہوا۔ ایران کے کینیا کے ساتھ پانچ معاہدے ہوئے ہیں، ایران کینیا میں گاڑیاں بنانے کا پلانٹ لگائے گا۔ اسی طرح ایران ان ممالک کی دفاعی ضروریات کے لیے بھی تعاون کرے گا۔ بہت سے ممالک نے ایرانی ڈرونز میں دلچسپی لی ہے۔ یوگنڈا ایٹمی پاور پلانٹ پلان بنا رہا ہے، جس کے لیے اسے چائینہ کا تعاون بھی حاصل ہو رہا ہے۔ یوگنڈا ایران سے بھی یہ چاہتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ تعاون کرے، تاکہ اس پر چند ممالک کی اجارہ داری کا خاتمہ ہوسکے۔
زمبابوے پابندیوں کا شکار ہے اور اپنی تیل کی ضروریات کو پورا کرنا چاہتا ہے، ایران کے پاس تیل اور گیس وافر مقدار میں موجود ہے۔ موجودہ دورے میں انرجی سیکٹر میں تعاون پر بات ہوئی ہے۔ اس دورے میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ ایران افریقہ تجارت کا حجم بہت کم ہے، جسے زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایران افریقہ سے تجارت میں دو ارب ڈالر کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔
ایران اب امریکہ اور یورپی معاہدے کو پیچھے چھوڑ چکا ہے، جس کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کو کافی عرصے سے اذیت دی جا رہی تھی۔ یورپ اور امریکہ ابھی تک پانچ سال پہلے والی بنیادوں پر مذاکرات کے خواہاں ہیں۔ اب ایران شنگھائی کارپوریشن کا مستقل رکن بن چکا ہے، یہ روس، چائنہ کی اقتصادی پالیسیوں کا عکاس ادارہ ہے۔ ایران کی شمولیت اس بات کا اشارہ ہے کہ ایران خطے کی ابھرتی ہوئی معیشت ہے، جس میں اتنی قوت ہے کہ وہ خطے کو تبدیل کرسکتا ہے۔ لگ یوں رہا ہے کہ صدر ابراہیم رئیسی کی پالیسی کامیاب رہے گی اور ایران کے لیے نئی منڈیاں اور بازار مل جائیں گے۔