-
ظفر بھائی ،کچھ یادیں ،کُچھ باتیں
- سیاسی
- گھر
ظفر بھائی ،کچھ یادیں ،کُچھ باتیں
269
M.U.H
24/03/2024
1
0
تحریر:سید حسین افسر
ملک کے مایہ ناز صحافی ظفر آغا صاحب کے انتقال کی خبر نے(جمعہ ۲۲؍ مارچ) صحافتی برادری کو جھنجھوڑ دیا۔مسکراتا چہرہ،گفتگو میں نرمی، طور طریقوں میں شائستگی اور دنیاوی معلومات سے لیس اس عظیم قلمکار سے ہماری ملاقات اس زمانے میں ہوئی جب ایودھیا کی بابری مسجد کا قضیہ اور پارلیمانی و ریاستی اسمبلی کے الیکشن کا جائزہ اخبارات کی سرخیاں بنا ہوا تھا۔ظفر بھائی دہلی سے لکھنؤ آتے اور جنرل پوسٹ آفس کے پریس روم سے اپنی خبریں اخبار کو ٹیلیکس اور بعد میں فیکس کرتے تھے۔لکھنؤ کے جنرل پوسٹ آفس میں شہر کے باہر کام کرنے والے صحافیوں کا مرکز بن چکا تھا۔کچھ ہی دنوں میں ظفر بھائی کے صحافتی تجربات سے ہم سب استعفادہ کرنے لگے۔ گہری معلومات، بے باک فقرے اور نا قابل دفاع جملے ہم سب کو اپنی طرف کھینچنے لگے۔
ظفر آغا صاحب بھائی سے دوست بن گئے۔شہر کی چہل پہل کا بھی وہ حصہ بن جاتے۔ دوست صحافی پردیپ کپور صاحب اور عبید اللہ ناصر صاحب کے ساتھ ہم لوگ گھنٹوں تبادلہ خیال کرتے۔
ظفر بھائی نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز لینک میگزین سے کیا تھا ،اسکے بعد انہوں نے کبھی پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا، انگریز ی کے مشہور اخبارات پیٹریاٹ،خلیج ٹائمس، عرب نیوز،انڈیا ٹوڈے،تہلکہ اور آخر میں قومی آواز و نیشنل ہیرلڈ کی ویب سائٹ کے ایڈیٹر بنے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ بنیادی طور سے وہ انگریزی کے صحافی تھے مگر انہوں نے جلد ہی اردو اور ہندی زبان پر بھی دسترس حاصل کر لی تھی۔ملک اور بیرون ملک کے اخبارات و جرائد میں انکے بے باک مضامین اور تبصرے شائع ہوکر مقبول عام ہوتے۔ وہ اپنی زبان اور جرائت مندانہ تحریروں سے لوگوں کے دل جیتے۔ان کی تحریروں میں خوف کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا تھا۔ یہی بے باکی ایک بار انکی پریشانی کا سبب بھی بنی جب حکومت اتر پریش نے چند صحافیوں کو گھیرنے کی کوشش کی مگر بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے صحافیوں کی مدد کی۔
ظفر آغا۱۹۵۴ء میںالٰہ آباد میں پیدا ہوئے اور یادگار حسینی انٹر کالج سے تعلیم حاصل کی ۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے الٰہ یونیورآباد یونیورسٹی سے رجوع کیا اور یہاں سے انہوں نے انگریزی میں ایم اے کی سند حاصل کی ۔ مرحوم کی تحریروں کا محور و مرکز معاشرے کی خوشحالی بالخصوص مسلم معاشرے کو جدید تعلیم اور ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرانا تھا۔
ظفربھائی دہلی سے اکثر فرمائش کرتے کہ یو پی کی سیاست کے اس موضوع پر کچھ لکھ کر بھیج دیجئے،کبھی یہ حکم ہوتا کہ شہر لکھنؤ کے بارے میں کچھ دلچسپ فیچربھیجئے۔ ہم حتی المقدور انکے حکم کو بجا لاتے۔اس طرح سے قومی آواز سے بھی ایک رشتہ بن گیا۔
ادھر بیچ میں کئی کئی بار ظفر بھائی بیمار ہوئے لیکن اپنے گھر سے وہ ادارتی کاموں کو انجام دیتے رہے۔ہفتہ دس دن قبل میں نے خیریت کے لئے فون کیا تو انہوں نے کہا کہ جلد ہی لکھنؤ آوں گا اور سب کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کی جائے گی۔ کچھ غم دوراں پر آنسو بہائے جائیں گے۔لیکن یہ آخری ملاقات نہیں ہو سکی۔
ظفر بھائی کے ساتھ جن جن صحافیوں نے کام کیا ہے انکا کہنا ہے وہ اپنے ساتھیوں سے بھی انتہائی نرمی، شائستگی اور شفقت سے پیش آتے تھے،خوبصورت انگریزی، دلکش اردو میں وہ خوب بات کرتے تھے۔تاریخ اور عالمی جغرافیہ پر بھی انکو عبور حاصل تھا ۔انکو سیاسی قصے،سیاستدانوں کی عیاریاں اور مکاریوں سے بھری پڑی داستانیں بھی خوب معلوم تھیں ۔خبروں پر انکے دلچسپ تجزیے اور پیشین گوئیاں بھی انکی صحافتی استعداد کا نمونہ تھیں۔
بہر حال ظفر بھائی جیسے شریف النفس انسان اور صحافی اب اس میدان میں کم رہ گئے ہیں،جن پر فخر کیا جا سکے۔
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھی مرنے والے میں ۔