-
جوہری معاہدے سے خروج ، چالاکی یا حماقت
- سیاسی
- گھر
جوہری معاہدے سے خروج ، چالاکی یا حماقت
1159
M.U.H
10/05/2018
0
0
سید نجیب الحسن زیدی
کہتے ہیں ایک شریف النفس سیدھے سادھے انسان کا پالا ایک چالاک گدھے سے پڑ گیا ،شریف انسان کا کاروبار نمک کا تھا وہ گدھے پر نمک لادتا اور اسے شہر میں جا کر بیچ آتا اسی سے اس کی روزی روٹی چلتی ،گدھے سے چونکہ کام لیتا تھااور آدمی شریف تھا اس لئے گدھے کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھتا اسے چرانےلے کر جاتا اسے زمین میں لوٹ پوٹ ہونے کے لئے بھی وقت دیتا ، لیکن گدھا گاہے بگاہے اپنے شریف مالک کا استحصال کرتا رہتا ایک دن گدھے کے مالک نے اس پر نمک کی بوری لادی اور شہر کی طرف چل پڑا راستہ میں ایک تالاب پڑا گدھے کو گرمی لگ رہی تھی بوجھ بھی زیادہ تھا اس نے آو دیکھا نہ تاو دیکھا فور بھاگتا ہوا تالاب میں گھس گیا اور کافی دیر نمک کی بوری کے ساتھ پانی کی خنکی کا مزہ لیتا رہا ، اور جب اٹھا تو اسکا بوجھ کافی ہلکا ہو چکا تھا یہی ماجر اجب کئی بار تکرار ہوا تو گدھے کے مالک نے کہا کہ اب اس نمک حرام کا کچھ علاج کرنا ہوگا ، اس بار اس نے نمک کی جگہ بوری میں ٹھساٹھس روئی بھری اور گدھے کو لیکر چل دیا ، جب تالاب نزدیک آیا تو گدھے کی ذہانت جاگی اور فورا پانی کی طرف دوڑ پڑا لیکن اس بار جو اٹھا تو وزن دوگنا ہو چکا تھا اسے اپنی حماقت پر افسوس ہو رہا تھا اور یہ بات اسکی سمجھ میں آ چکی تھی کہ شریف آدمی کے ساتھ شرافت ہی کے ساتھ گزرا ہو سکتا ہے اگر اسنے بھی اپنی ذہانت دکھا دی تو ہم کہیں کے نہیں رہیں گے ۔
یوں تو یہ داستان تمثیلی ہے لیکن اپنے آپ میں ایک بہترین نتیجہ کی حامل ہے کہ ہر وقت اور ہر دور میں ایک ہی پالیسی نہیں چلتی اور ہر قوم کے ساتھ ایک ہی جیسا سلوک نہیں کیا جا سکتا ، کچھ قومیں ایسی بھی ہیں جنکے ساتھ شاطرانہ معاملہ بھاری پڑ سکتا ہے ۔
بظاہر ٹرانپ کو لگتا ہے کہ جوہری معاہدے سےخارج ہونے کی صورت بڑا صحیح فیصلہ لیا گیا ہے لیکن ٹرنپ انتظامیہ کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ جس قوم سے انکا پالا پڑا ہے وہ قوم شریف و بردبار ہونے کے ساتھ ظرافت کی حامل بھی ہے جو داءو امریکہ نے چلا ہے وہ الٹا بھی پڑ سکتا ہے ،بظاہر ممکن ہے وہ خود کو ہلکا محسوس کرے لیکن بعد میں جس بوجھ کو اتارنے کی کوشش کی ہے وہ دہرا تہرا بھی ہو سکتا ہے اور ا س بوجھ کو لاد کر چلتے چلتے امریکہ کی کمر بھی سیدھی ہو سکتی ہے اور یہ بات ہم نہیں کہہ رہے امریکہ کے ہی سیاسی ماہرین و تجربہ کار افراد کہہ رہے ہیں کہ اس معاہدے سے امریکہ کا یکطرفہ طور پر نکلنا خود انکے لئے کتنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے
امریکہ کی دنیا میں رہی سہی ظاہری ساکھ تو گئی ہی ہے دنیا بھر کے صاحبان فہم و فراست اسے ٹرانپ کا ایک خبط قرا ردے رہے ہیں چنانچہ امریکی سابق صدر اوبامہ نے بھی ٹرانپ کے اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ایران کے ساتھ معاہدہ ختم کرنے کا فیصلہ سنگین غلطی ہے۔انھوں نے کہا ماہرین اور موجودہ امریکی وزیر خارجہ بھی اس معاہدہ کے حق میں ہیں۔ اوباما نے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلہ کو گمراہ کن قرار دیا ہے ۔
امریکی سابق صدر نے ڈونالڈ ٹرمپ کے ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے فیصلے کوبڑی غلطی قرار دیتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ کافی طویل مذاکرات اور سفارتکاری کے بعد جامع ایٹمی معاہدہ طے پایا تھا اور اب معاہدے سے نکلنے کا مطلب اپنے قریبی ترین اتحادیوں سے منہ موڑنا ہے۔سابق صدر کے مطابق ایک ایسے معاہدے کو کہ جس پر امریکہ نے بھی دستخط کئے تھے پاؤں تلے روندنا واشنگٹن کی ساکھ کو خراب کرنے کے مترادف ہے۔
سابق امریکی صدر نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ : ایٹمی معاہدہ صرف ایران اور امریکہ کے مابین طے نہیں پایا تھا اس لئے اس قسم کے معاہدوں سے چشم پوشی دنیا کی دوسری بڑی طاقتوں کے سامنے امریکہ کی ساکھ اور وقار کو متاثر کرنے کا سبب ہوگی ۔یہ صر ف امریکی صدر ہی نہیں بلکہ دیگر اور بھی ماہرین نے اسی طرح کے ملتے جلتے الفاظ میں ڈونالڈ ٹرانپ کے اس فیصلہ کو نا قابل قبول قرار دیا ہے چنانچہ ڈیموکریٹس سینیٹر پیٹریک لیہی نے کہا ہے کہ ٹرمپ نے یہ اعلان کر کے ایک غلطی کا ارتکاب کیا ہے ۔
ریاست میری لینڈ سے ڈیموکریٹ سینیٹر فان ہولین نے بھی کہا ہے کہ ٹرمپ نے امریکی ساکھ تباہ کر دی اور واشنگٹن کو اپنے اتحادیوں کے درمیان الگ تھلگ کر دیا - ایک اور امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے بھی کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے سے نکل کر ٹرمپ نے ایک اور غیرذمہ دارانہ رویّے کا ثبوت دیا ہے- سینیٹر باب کیسی نے بھی کہا کہ امریکا کے فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ایران ایٹمی معاہدے کا پابند ہے اور اس معاہدے میں امریکا کی موجودگی اس کے لئے کافی سود مند ہو سکتی تھی- سینیٹر ٹام کارپر نے کہا کہ ٹرمپ نے بحرالکاہل کے ملکوں کے ساتھ تجارتی معاہدے، ماحولیات کے عالمی معاہدے اور اب ایٹمی معاہدے سے نکل کر صرف اپنی من مانی کا ثبوت دیا ہے-
امریکا کے بیشتر ڈیموکریٹ سینیٹروں نے ٹرمپ کے اقدام کی مخالفت کی ہے جبکہ متعدد ریپبلکن سینیٹروں نے بھی ایٹمی معاہدے سے ٹرمپ کے نکلنے کے اعلان کی براہ راست حمایت نہیں کی ہے- ریپبلکن سینیٹر جف فلیگ نے اپنے ٹویٹر پیج پر لکھا ہے کہ ایٹمی معاہدے میں ہرچند کچھ خامیاں ہیں لیکن اس معاہدے سے نکلنا امریکا کے قومی مفاد میں نہیں ہے
ٹرنپ کے اس اقدام پر دنیا واضح طور پر دو حصوں میں بٹتی نظر آ رہی ہے امریکہ سے لیکر یورپ تک میں فکری دراڑیں صاف نظر آ رہی ہیں جو تھوڑا بہت اسکی حمایت میں آوازیں ہیں صاف واضح ہے کہ انکا تعلق فکر و نظر سے نہیں ہے وہ امریکہ ہی کے وہ غبارے ہیں جن میں چند سانسیں پھونک کر آسمان سیاست پر رہا کر دیا گیا ہے ایک چھوٹی سی سوئی کی نوک ان غباروں سے ہوا نکال دینے کے لئے کافی ہوگی
جبکہ امریکہ کے تجربہ کار سفارت کاروں اور سیاسی مشیروں کے علاوہ میدان سیاست کے سردو گرم چکھے وہ صحافی بھی اس قدم کو خطرناک ٹہرا رہے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام ہی کی پیداوار ہیں اور انکی فکر اسی نظام کی ترویج میں صرف ہوتی ہے، بی بی سی کے جوناتھن مارکس جو کہ دفاعی و سفارتی امور کے ماہر و تجزیہ کار ہیں اس ٹرنپ کے اس فیصلہ کے بارے میں کہتے ہیں :
ٹرنپ نے امریکہ کی سفارت کاری کو اس کے بعض قریبی اتحادیوں سے تصادم کے موڑ پر لا کر کھڑا کر دیا ہے
، ناتھن مارکس نے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ : اگر یہ معاہدہ ٹوٹ جاتا ہے تو ایران پھر سے جوہری سرگرمیاں شروع کر دے گا ، پھر کیا ہوگا ؟
اس اقدام کی تہہ کو بیان کرتے ہوئے کھلے الفاظ میں ناتھن مارکس نے واضح کردیا کہ اسکا تعلق کسی عملی حقیقت سے نہیں ہے وہ لکھتے ہیں :
ہم اس وقت غیر معمولی دور میں ہیں اور یہ فیصلہ ۱۸ ماہ سے عہد ے پر فائز ڈونلڈ ٹرنپ کی خارجہ پالیسی کا حقیقی آغاز ہے اور ناقدین کے بقول یہ فیصلہ ان کے جذبات اور چھٹی حس پر مبنی ہے ناکہ عملی حقائق کے تحت لیا گیا ہے ۔
جوبھی ہو چاہے بعض یہودی لابیوں کے دباو میں لوگ اسے عاقلانہ فیصلہ کہیں یا امریکہ ہی کے ماہرین سیاست اسے حماقت کا نام دیں اب گیند ایران کے پالے میں ہے امریکہ نے ساری دنیا پر واضح کر دیا کہ وہ کسی معاہدہ و عہد و پیمان کو نہیں تسلیم کرتا ہے ،اب ایران پر ہے کہ اسکا رد عمل کیا ہوگا ؟ ایران کا رد عمل جو بھی ہواتنا واضح ہے کہ جس طرح گدھے نے چالاکی دکھائی تھی اور اسے دوہرا بوجھ اٹھانا پڑے گااسی طرح امریکہ کو ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار رکھنا ہوگا اور عین ممکن ہے کہ اس بار بوجھ اتنا زیادہ ہو جائے کہ وہ اٹھ ہی نہ سکے اور دوسروں کو اسکی مدد کے لئے آنا پڑے ۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)