-
عدالتیں اور منصف بھی فاشزم کے شکنجے میں
- سیاسی
- گھر
عدالتیں اور منصف بھی فاشزم کے شکنجے میں
122
M.U.H
17/12/2024
0
0
تحریر:عادل فراز
بابری مسجد کے فیصلے کے بعد ہم نے یہ باورکرلیاتھاکہ اب مسلمانوں پر ہندوستان کی زمین تنگ کردی جائے گی ۔یہ معاملہ مندر مسجد کا نہیں تھابلکہ دوقوموں کے وقار کا مسئلہ تھا۔ہندوستانی حکومت اور سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے وہی طریق کار اپنایاجو ۱۸۵۷ء کے بعدانگریزوں نے مسلمانوں کے خلاف اپنایاتھا۔بقول رسل:کئی عہدیدار اس خیال کی پرزور حمایت کرنے لگے تھے کہ دہلی کی جامع مسجد کو منہدم کردیاجائے تاکہ اہل ایمان پر یہ بات واضح ہوجائے کہ ہندوستان میں ان کا وقار کس قدر مجروح ہوچکاہے ۔ایک گورنر جنرل نے تو تجویز بھی پیش کردی تھی کہ تاج محل کو منہدم کرکے اس کی سلوں کو فروخت کردیاجائے ۔موجودہ حکومت کا طر ز عمل بھی یہی ہے کہ مسلمانوں پر یہ واضح کردیاجائے کہ ان کا سیاسی اورسماجی وقار ختم ہوچکاہے ،مگر مسلمان یہ نوشتۂ دیوار پڑھنے پر تیار نہیں ہیں ۔ان کی قیادت بے حسی کے تحت الثریٰ میں ہے اور فرقہ پرست طاقتوں سے مکالمے اور مفاہمت پر زور دے رہی ہے ۔جب کہ مخالف نہ مکالمے پر آمادہ ہے اور نہ مفاہمت پر ۔اب تو نوبت یہاں تک پہونچ چکی ہے کہ ہمارا پرسنل لاء بھی ان کے نشانے پر ہے ۔یہ جرأت تو کبھی انگریزوں نے بھی نہیں کی تھی جس راہ میں موجودہ حکومت پیش رفت کررہی ہے ۔اس پر یہ کہ عدالتیں جن پرانصاف کا دارومدار ہوتاہے ،اس کے جج فرقہ پرستوں کے پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں اور علیٰ الاعلان کہتے ہیں کہ ’یکساں سول کوڈ‘ بل ہر حال میں پاس ہوکر رہے گا۔
آلہ آباد ہائی کورٹ کے برسرکار جج جسٹس شیکھر کمار نےجس طرح ویشوو ہندوپریشد کے پروگرام میں تقریرکرتےہوئے آئین ہند کا تمسخر کیا،اس پر ہمیں حیرت نہیں ہوئی۔انہوں عوامی پلیٹ فارم پر یہ بیان دیاجب کہ عدالتیں مسلسل یک طرفہ فیصلے سنارہی ہیں ۔ایسانہیں ہے کہ تمام جج جسٹس شیکھر کمار کی طرح ہوتے ہیں اگر ایساہوتاتو کب کا انصاف کا جنازہ اٹھ چکاہوتا۔لیکن شیکھر کمار جیسے منصف کم نہیں ہیں جو فرقہ پرست طاقتوں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں ۔ان کا یہ فرماناکہ ’’اکثریتی طبقے کی مرضی کے مطابق قانون بنناچاہیے‘‘فاشسٹ طاقتوں کے زیر اثر ہونے کی دلیل ہے ۔وہ اسی پر نہیں رُکے اور کہاکہ اگر ا س دیش کو کوئی ’ویشو گرو‘بناسکتاہے تو وہ صرف ہندو ہیں ۔انہوں نے بی جے پی کے انتخابی نعرے ’ایک رہیں گے تو سیف رہیں گے‘ کی بھی تائید کی ۔انہوں نے ذبیحہ خانوں اور گوشت خوری پر بھی پابندی کا مطالبہ کیا ۔ان کا یہ کہنا کہ ہم تو اپنے بچوں کو جانوروں سے پیارکرنا سکھلاتے ہیں مگر وہ(مسلمان) بچوں کے سامنے جانوروں کو ذبح کردیتے ہیں،اس بات کا غماز ہے کہ وہ خالص ہندوتواطبقےکو خوش کرنے کے لئے تقریر کررہے تھے ۔انہوں نے مسلمانوں کے پرسنل لاء میں مداخلت کو جائز ٹھہراتے ہوئے اعتماد کے ساتھ کہاکہ یکساںسول کوڈ پاس ہوکر رہے گا۔شیکھر کمارکوتو شاید اس بات بھی کا علم نہیں ہوگاکہ ہندوستان میں ہندو اکثریت میں ضرور ہیں مگر دوسری بڑی اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔ان کے بعد دیگر قومیں اور ذاتیں ہیں جو الگ الگ مذہب اور رسومات کی پیروی کرتی ہیں۔لہذامسلمانوںاور دیگر قوموں اور ذاتوں پر ہندوئوں کے پرسنل لاء کو ’یکساں سول کوڈ‘ کے نام پر تھوپانہیں جاسکتا ۔وہ تو یہاں تک کہہ گئے کہ یہ بل بہت جلد منظور ہوگا ۔ان کے بیان سے یہ بھی ظاہرہوتاہے کہ ’یکساں سول کوڈ ‘ آرایس ایس کاتیارکیاہوا بل ہے جس کی وکالت کے لئے اب عدلیہ کے برسرکارججوں کو کھڑاکرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ممکن ہے کل یہ بل پاس ہوجائے مگر کیا ہندوستان کے متنوع سماج میں اس کا نفاذ ہوسکے گا،یہ دیکھنا اہم ہوگا۔جسٹس شیکھر کمار کا یہ فرماناملک کا قانون نہ صرف اکثریت کے مطابق کام کرتاہے بلکہ اکثریت کو جس سے مسرت حاصل ہوتی ہے ،اسی کو قبول کیاجائے گا۔گویاکہ انہوں نے آئین ہند کے بجائے آرایس ایس کے زیر غور آئین کے جواز پر مہر لگادی ہے ،جس کے کئی مسودے دھرم سنسدوں میں پیش ہوچکے ہیں ۔
شیکھر کمار نے رام مندر کی تعمیر کو آباواجدادکے خواب کی تعبیر قراردیدیا۔رام مندر کی تعمیر ضرور ہورہی ہے مگر اس کی بنیادوں کے نیچے ہمیشہ مسجد کے نشان ملیں گے ،جس کو تاریخ کبھی بھلانہیں پائے گی۔بابری مسجد کا فیصلہ یقیناًمسلمانوں کے سیاسی اور سماجی وقار کے خاتمے کا اعلان تھامگر حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے ۔بہرکیف!شیکھر کمار کی پوری تقریر آئین ہند کے منافی تھی ۔اس پر ایسے پروگراموں میں ان کا شریک ہونا بھی زیر سوال ہے ،مگر اس کا آغاز تو سابق چیف جسٹس چندر چوڈ کرچکے تھے ۔ان کے گھر پر وزیر اعظم مودی کا پوجا میں شامل ہونا اس بات کی دلیل تھی کہ وہ وزیر اعظم کے ’اندھ بھکت ‘ ہیں اور اندھ بھکت کبھی منصفانہ فیصلے نہیں سناسکتا۔او ل تو جب سے ریٹائرمنٹ کے بعد ججوں کو سرکار کی طرف سے مختلف عہدوں اور مراعات کی توقع رہنے لگی ہے ،عدلیہ کی آزادی زیر سوال آگئی ہے ۔رنجن گوگوئی نے بابری مسجد کافیصلہ حکومت اور آرایس ایس کی مرضی کے مطابق سنایاتو اس کا صلہ انہیں ’راجیہ سبھا‘ کی رکنیت کے طورپر دیاگیا۔جب تک ججوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد عہدے اور منصب کی لالچ رہے گی تب تک عدلیہ آزاد نہیں ہوگی ۔آزادی تو خیر دور کی بات ہے اس کے فیصلے غیر جانب دار نہیں ہوں گے ۔
اہم یہ ہے کہ آرایس ایس نے حکومت کے ہر شعبے میں اپنے افراد مقررکررکھے ہیں یہی اس کی کامیابی کا بڑاراز ہے ۔آزادی کے بعد آرایس ایس نے ہندوئوں کی ذہن سازی پر محنت کی اور انہیں ’ہندتووا‘ کے ایجنڈے پر متحد کرنے کی کوشش کی ۔اس نے ہر شہر اور قصبے میں اسکول اور کالج قائم کئے ،جہاں تعلیمی ادارے کھولنے میں کامیابی نہیں ملی وہاں شاخیں قائم کیں ۔اپناالگ نصاب تعلیم رائج کیااور ایسے افراد تیارکئے جو اس کے ایجنڈے کو مختلف طریقوں سے نوجوان نسل کے ذہنوں تک منتقل کرسکیں ۔اس کے لئے اساتذہ ،مقررین ،مصنف اور اپنے تربیت کردہ لوگوں کا بڑا گروہ تیارکیا۔خاص طورپر بچوں اور نوجوان نسل کو موردہدف قراردیاکیونکہ نرم شاخ کو اپنی مرضی کے مطابق موڑاجاسکتاہے ۔ان کے تعلیمی اداروں سے صرف ہندوئوں نے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ دیگر اقوام ومذاہب کے بچے بھی فیض یاب ہوئے ۔اس طرح انہوں نے اپنی ٹیم تیارکرکے ہندوستان کے مختلف شعبوں اور اداروں میں افرادکو مقررکرنا شروع کردیا ۔امتداد وقت کے ساتھ کوئی ایساحکومتی ادارہ نہیں رہاجہاں اس کے تربیت یافتہ افراد موجود نہ ہوں ۔اس کے بعد اس کی کامیابی کا دوسرا دور شروع ہوااور آج آرایس ایس اقتدار پر مسلط ہے ۔کہنے کو تو آرایس ایس سیاسی سرگرمیوں سے انکار کرتی ہے مگر اس کا بنیادی ہدف ہندوستان کے اقتدار پر قبضہ اور آئین ہند میں ترمیم ہے ۔پہلا ہدف اس نے حاصل کرلیاہے اور دوسرے ہدف کے حصول کے لئے کوشاں ہے ۔
آئین ہند کوبدلنا اتنا آسان تو نہیں ہے مگر اب ناممکن بھی نہیں ۔جس ملک میں عدلیہ ،انتخابی کمیشن،خفیہ ایجنسیاں ،سکیورٹی فورسیز اور ایوان پر اس کا براہ راست قبضہ ہے ،اس ملک میں اس کے لئے کسی بھی ہدف تک پہونچنا ناگزیر نہیں ۔گزشتہ دس سالوں میں اس نے اپنے اکثر اہداف کوکامیابی کےساتھ حاصل کیاہے۔خاص طورپر بابری مسجد کے فیصلے کے تناظر میں اس حقیقت کو بخوبی سمجھاجاسکتاہے ۔ایک وقت وہ تھاکہ جب مسلم دانشور بھی یہ کہتے ہوئے نظر آتے تھے کہ ہندومسلم اتحاد کے لئے مسلمانوں کو بابری مسجد سے دستبردار ہوجانا چاہیے ۔بابری مسجد کے فیصلے سے پہلے بھی اکثر مسلم دانشوروں اور علماء کو اعتماد میں لیاگیابلکہ یوں کہاجائے کہ ان کی تالیف قلب کی گئی ۔اس کااثریہ ہواکہ بابری مسجد کے غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف کسی نے زبان کھولنے کی جرأت نہیں کی اور سب نے اس کو بسروچشم قبول کرلیا۔جس وقت مسلم دانشور یہ راگ الاپ رہے تھے کہ ہندومسلم اتحاد کے لئے مسلمانوں کو مسجد سے دستبردار ہوجاناچاہیے ،اس وقت بعض دوراندیش افراد نے اس رائے کو مسترد کرتےہوئے کہاتھاکہ ہرگز بابری مسجد کا مطالبہ آخری ثابت نہیں ہوگا۔اگر ہم مسجد سے دستبردار ہوجاتے ہیں تو وہ دوسرے مطالبے کےساتھ سامنے آجائیں گے ۔بالآخر یہی ہوا۔بابری مسجد کے فیصلے کے بعدفرقہ پرست طاقتوںکے حوصلے بلند ہوگئے ۔اور پھر کبھی نہ ختم ہونے والا مطالبات کا سلسلہ شروع ہواجو تاج محل ،جامع مسجد دہلی ،ٹیلے والی مسجد لکھنؤ اور اب اجمیر کی درگاہ تک جاپہونچاہے ۔ان مطالبات کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا جب تک ’ پلیس آف ورشپ ایکٹ۱۹۹۱ء‘کانفاذ نہیں کیاجائے گا،جس کو غیر اعلانیہ طورپر ختم کردیاگیاہے۔ایک سیکولر ملک میں عدلیہ کی بالادستی اورمنصفوں کا غیر جانب دار ہونا ضروری ہے ۔مگر افسوس یہی روایت ہندوستان سے ختم ہونے لگی ہے ۔