-
قرآن، مدارس اور دہشت گردی، نیک نہیں ہیں وسیم رضوی کے ارادے
- سیاسی
- گھر
قرآن، مدارس اور دہشت گردی، نیک نہیں ہیں وسیم رضوی کے ارادے
803
M.U.H
27/03/2021
0
0
تحریر: رام پنیانی
اتر پردیش شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی نے سپریم کورٹ میں ایک مفاد عامہ عرضی (پی آئی ایل) داخل کر یہ مطالبہ کیا ہے کہ قرآن کی 26 آیتوں کو اس پاکیزہ کتاب سے ہٹا دیا جانا چاہیے، کیونکہ وہ دہشت گردی کو فروغ دیتی ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ مدارس میں دہشت گردوں کی تربیتی ہوتی ہے اور اگر اسے نہ روکا گیا تو ہندوستان میں دہشت گردانہ حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ اسی وسیم رضوی نے کچھ وقت پہلے سنی مسلمانوں کے اعتقاد کو بے عزت کرنے والی ایک فلم بنائی تھی۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مسلمان جانوروں کی طرح بچے پیدا کرتے ہیں۔
یہ محض اتفاق نہیں ہے کے چیئرمین کے طور پر ان کی مدت کار کے دوران، وقف بورڈ کی ملکیت کی فروخت کی جانچ چل رہی ہے۔ ان کے تازہ بیان کی مسلمانوں کے ایک طبقے میں انتہائی تیز رد عمل دیکھنے کو ملا ہے۔ یہ مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ انھیں سزا دی جائے اور انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی مل رہی ہیں۔ ان کی حمایت میں کنگنا رانوت اور گجیندر چوہان جیسے لوگ سامنے آئے ہیں۔ یہ لوگ انھیں سچا نیشنلسٹ بتا رہے ہیں۔ آفیشیل طور پر بی جے پی نے رضوی کے اس بیان سے اپنے آپ کو دور کر لیا ہے۔
رضوی کی ’قرآن‘ کی سمجھ یا سمجھ کا فقدان تو ایک طرف، لیکن یہ بات بہت صاف ہے کہ وہ موجودہ برسراقتدار پارٹی کا محبوب بننے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ حال میں پوری دنیا میں ویسے ہی اسلاموفوبیا (اسلام کے تئیں ڈر کا جذبہ) پھیلا ہوا ہے اور رضوی جیسے لوگ اسے اور فروغ دے رہے ہیں۔ وہ طوطے کی طرح وہی دہرا رہے ہیں جو فرقہ پرست عناصر برسوں سے کہتے آئے ہیں۔ اور وہ یہ کہ مسلمان دہشت گرد ہیں اور وہ ڈھیر سارے بچے پیدا کرتے ہیں۔ اس تشہیر نے مسلمانوں کے خلاف پورے سماج میں نفرت کے جذبہ کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یہی نفرت کا جذبہ فرقہ وارانہ تشدد کا سبب بن رہا ہے۔
جہاں تک مسلمانوں کے بہت سارے بچے پیدا کرنے کا سوال ہے، تو مفکرین ہمیں بتاتے آئے ہیں کہ غریبی، ناخواندگی اور ان کے محلوں تک انھیں محدود کر دیا جانا مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کے لیے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مسلم آبادی کی دس سالوں میں شرح اضافہ لگاتار کم ہو رہا ہے۔ 1991 میں یہ 32.9 فیصد تھا، 2001 میں 29.5 فیصد اور 2011 میں 24.6 فیصد۔ ایسا بتایا جاتا ہے کہ سنہ 2070 تک مسلمانوں کی آبادی کا شرح اضافہ 18 فیصد کے آس پاس پہنچ جائے گا۔
اب یہ الزام کہ قرآن دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے، دراصل اسی غلط تشہیر کا حصہ ہے جو 11/9 کے واقعہ کے بعد سے عالمی سطح پر کی جا رہی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اسلام کے جانکار کی شکل میں رضوی کی کتنی عزت ہے، لیکن یہ واضح ہے کہ جو باتیں وہ کہہ رہے ہیں، وہ وہی ہیں جو ٹوئن ٹاورس پر حملے کے بعد سے امریکی میڈیا کہتا آ رہا ہے۔ وہ اپنے مفاد کے حصول کے لیے انہی باتوں کو دہرا رہے ہیں۔
اسلام کے ہندوستانی محققین و ماہرین، جن میں میرے خاص دوست مرحوم ڈاکٹر اصغر علی انجینئر اور مولانا وحید الدین خان جیسے معروف نام شامل ہیں، کہتے آئے ہیں کہ قرآن کی آیتوں کی تشریح ان کے موضوعات کی بنیاد پر کی جانی چاہیے۔ قرآن میں کہا گیا ہے کہ ایک بے قصور شخص کا قتل مکمل انسانیت کے قتل کے برابر ہے۔ قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ ’’تمھارا دین تمھارے لیے اور میرا دین میرے لیے‘‘۔
رضوی کو شاید قرآن کی ٹھیک سمجھ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ بیسویں صدی کے اواخر میں کافر اور جہاد جیسے لفظوں کے مطلب کو توڑ مروڑ کر القاعدہ اور اس کے جیسے دیگر گروہوں نے پاکستان کے مدارس میں نوجوانوں کے دماغ میں زہر بھرا تھا۔ اس تعلیمی پروگرام کا ماڈیول امریکہ میں تیار کیا گیا تھا اور امریکہ نے ہی اسے نافذ کرنے والے مدرسوں کو فنڈ مہیا کروایا تھا۔
پرمنینٹ بلیک کے ذریعہ شائع محمود ممدانی کی کتاب ’گڈ مسلم، بیڈ مسلم‘ میں دلائل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ القاعدہ کو کھڑا کرنے کے لیے سی آئی اے نے 800 کروڑ ڈالر خرچ کیے تھے۔ امریکہ، القاعدہ کے ذریعہ افغانستان میں موجود سوویت فوج سے مقابلہ کرنا چاہتا تھا۔ وہ اپنی فوج کا استعمال کرنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ ویتنام جنگ میں شرمناک شکست کے بعد سے امریکی فوج کی ہمت جواب دے چکی تھی۔ امریکہ نے انتہائی چالاکی سے اسلام کے ایک پیچیدہ باب کا استعمال مسلم نوجوانوں کا ’برین واش‘ کرنے کے لیے کیا۔
اس کی مثال ہے ’کافر‘ لفظ، جس کا مطلب ہوتا ہے ’سچ کو چھپانے والا’۔ لیکن پاکستان میں قائم مدرسوں میں نوجوانوں کو یہ سمجھایا گیا کہ کافر وہ ہے جو اسلام میں یقین نہیں رکھتا، اور یہاں تک کہ وہ جو آپ سے متفق نہیں ہے۔ انھیں یہ بھی بتایا گیا کہ کافروں کو مارنا جہاد ہے اور اس جہاد میں جن کی جان جاتی ہے ان کے لیے جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ جب یہ جہادی جنت میں پہنچتے ہیں تو 72 حوریں ان کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں۔ وہیں قرآن میں جہاد کا مطلب ’مکمل کوشش‘ ہے۔ یہ کوشش خود کی برائیوں پر فتح حاصل کرنے کے لیے (جہاد اکبر) ہو سکتی ہے یا سماجی برائیوں کو مٹانے کے لیے (جہاد اصغر)۔
انہی غلط تشریحوں سے متاثر اور امریکہ کے ذریعہ دستیاب کروائے گئے اسلحوں سے لیس القاعدہ نے افغانستان میں سوویت افواج کے خلاف لڑائی شروع کر دی۔ امریکہ یہی چاہتا تھا۔ لیکن اس پالیسی نے ایک ’بھسما سُر‘ کو جنم دیا۔ افغانستان سے سوویت افواج کی واپسی کے بعد بھی القاعدہ کے جنگجو خاموش بیٹھنے کو تیار نہ تھے۔ ان کے منھ خون لگ چکا تھا۔ امریکہ میں 11/9 حملے کے بعد انہی جنگجوؤں کو اسلامی دہشت گرد بتایا جانے لگا۔ ہر مسلمان دہشت گرد ہو سکتا ہے یہ ’ایک سوچنے لائق‘ نظریہ بن گیا۔ اس نظریہ کو امریکی میڈیا نے جنم دیا اور پوری دنیا کی میڈیا نے اسے پکڑ لیا۔ اس کے بعد مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ کہا جانے لگا۔
لیکن ہندوستان نے 2006 سے 2008 کے درمیان مالیگاؤں، مکہ مسجد، اجمیر درگاہ اور سمجھوتہ ایکسپریس سمیت متعدد دہشت گردانہ حملوں کے شکار ہونے والوں میں سے بیشتر مسلمان تھے اور ان حملوں کے لیے مسلمانوں کو ہی قصوروار ٹھہرایا گیا۔ یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہتا، لیکن مہاراشٹر انسداد دہشت گردی دستہ کے اس وقت کے سربراہ ہیمنت کرکرے نے وہ موٹرسائیکل ڈھونڈ نکالی، جس کا استعمال مالیگاؤں حملے میں کیا گیا تھا۔ جانچ سے یہ پتہ چلا کہ موٹر سائیکل اے بی وی پی لیڈر سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر کی تھی۔ پرگیا ان دنوں بھوپال سے لوک سبھا رکن ہیں۔
دراصل سماج کی ذہنیت کو کئی طریقوں سے گڑھا یعنی تیار کیا جاتا ہے۔ وسیم رضوی جو کہہ رہے ہیں وہ فرقہ پرست طاقتوں کو مسحور کر دینے والی موسیقی معلوم پڑ رہی ہوگی۔ ان کے لیے اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے کہ جو وہ کہتے ہیں، وہی ایک مسلم لیڈر خود کہہ رہا ہے۔ اس طرح کی تشہیر سے مسلم طبقہ کے بارے میں سماج میں پہلے ہی موجود غلط سوچ اور تعصب کو طاقت ملتی ہے اور مسلمانوں کے خلاف تشدد بڑھتا ہے۔
لیکن یاد رکھا جانا چاہیے کہ وقف ملکیت کی غیر قانونی فروخت میں رضوی کے کردار کی جانچ چل رہی ہے۔ ایسے میں صاف ہے کہ جو باتیں وہ کہہ رہے ہیں اس کے پیچھے اسلام یا قرآن کی ان کی غلط سمجھ نہیں ہے، بلکہ ان کا اصلی مقصد کچھ اور ہی ہے۔