-
سپریم کورٹ کا قابل ستائش فیصلہ
- سیاسی
- گھر
سپریم کورٹ کا قابل ستائش فیصلہ
362
m.u.h
08/08/2023
0
0
تحریر: سہیل انجم
بہت سے مشکوک فیصلوں کے باوجود ہندوستانی عدلیہ پر اب بھی عوام کا اعتماد قائم ہے۔ وقتاً فوقتاً ایسے فیصلے سامنے آجاتے ہیں جو اس پر متزلزل ہوتے عوامی بھروسے کو پھر سے بحال کر دیتے ہیں۔ حالانکہ حالیہ دنو ں میں ایسے کئی فیصلے سنائے گئے ہیں جن سے بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے۔ ایسے فیصلے زیادہ تر نچلی عدالتوں سے سنائے جا رہے ہیں۔ تاہم ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ سے بھی اس قسم کے فیصلے سامنے آئے ہیں۔ لیکن جب بھی شکوک و شبہات کے بادل گہرے ہونے لگتے ہیں تو کوئی نہ کوئی ایسا فیصلہ سامنے آجاتا ہے جس سے بادل چھٹ جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کے خلاف ہتک عزت کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔
حالانکہ اسی سپریم کورٹ نے پہلے بابری مسجد مقدمہ میں اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بابری مسجد کی اراضی کو رام مندر کی تعمیر کے لیے دے دی۔ اس کے بعد گیان واپی مسجد سے متعلق مختلف معاملات میں اس کے فیصلوں نے مایوس کیا۔ جب بنارس کی ضلعی عدالت نے گیان واپی مسجد کے سروے کا حکم دیا اور انجمن انتظامیہ مساجد کمیٹی نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تو سپریم کورٹ نے اس پر روک لگانے سے انکار کر دیا اور مسلم فریق کو ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کو کہا۔ جب ہائی کورٹ نے بھی سروے پر روک نہیں لگائی تو پھر مسلم فریق نے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ لیکن اس بار بھی اس نے سروے پر روک لگانے سے انکار کر دیا۔
یہاں ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب 1991 کا عبادت گاہ قانون موجود ہے جس میں صریح طور پر کہا گیا ہے کہ بابری مسجد کو چھوڑ کر جو بھی عبادت گاہ پندرہ اگست 1947 کو جس حیثیت میں تھی وہ اب اسی حیثیت میں رہے گی اسے چھیڑا نہیں جائے گا تو پھر گیان واپی مسجد سمیت متعدد تاریخی مساجد کے خلاف اپیلیں کیوں منظور کی جا رہی ہیں۔ عدالت نے تو گیان واپی مسجد میں پہلے عام سروے اور پھر سائنٹفک سروے کی اجازت دے دی۔ اب اس کی وضاحت تو جج حضرات ہی کر سکیں گے کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے۔ لیکن ہم جیسے قانونی معاملات میں جاہل افراد کے ذہنوں میں سوالات تو اٹھتے ہی ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ اب اس قانون کو بھی متنازعہ بنا دیا گیا ہے اور اس کو ختم کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں دو عرضداشتیں داخل ہیں۔ لیکن انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ جب تک ان دونوں مقدمات کا فیصلہ نہیں ہو جاتا اور عبادت گاہ قانون منسوخ نہیں ہو جاتا، ایسی کسی بھی عبادت گاہ کے خلاف کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا جانا چاہیے جو کہ پندرہ اگست 1947 کے پہلے سے موجود ہے۔ مذکورہ قانون میں تو یہ تک لکھا ہے کہ اس سلسلے میں اب کوئی مقدمہ قائم نہیں ہو سکتا اور پہلے سے جو بھی مقدمات چل رہے ہیں وہ سب کالعدم ہو گئے ہیں۔ اس کے باوجود نہ صرف یہ کہ گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ سے متعلق سابق مقدمات زیر سماعت ہیں بلکہ نئے نئے مقدمات بھی قائم کیے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں تو ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ کہ عدلیہ شاید اکثریتی فرقے کے مذہبی معاملات میں زیادہ آگے جانا نہیں چاہتی۔ ممکن ہے کہ اس کی وجہ وہ ماحول ہو جو اس وقت پورے ملک میں پایا جا رہا ہے۔
لیکن بہرحال سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ نے ہتک عزت مقدمہ میں راہل گاندھی کی سزا پر روک لگا دی ہے۔ یاد رہے کہ راہل گاندھی کی ایک تقریر کے خلاف گجرات کے ایک سابق وزیر نے سورت کی مقامی عدالت میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا جس پر عدالت نے راہل گاندھی کو زیادہ سے زیادہ دو سال کی سزا سنا دی۔ حالانکہ ہتک عزت کاقانون انگریزوں کے زمانے میں یعنی 1860 میں وضع کیا گیا تھا اور اس وقت سے لے کر اب تک اس قانون کے تحت کسی کو بھی دو سال کی سزا نہیں سنائی گئی تھی۔ واضح رہے کہ اگر کسی شخص کو ایسے معاملے میں دو سال کی سزا سنائی جاتی ہے اور اگر وہ کسی ایوان کا رکن ہے تو اس کی رکنیت منسوخ ہو جاتی ہے اور دو سال کی جیل کاٹنے کے بعد مزید چھ سال تک وہ الیکشن نہیں لڑ سکتا۔البتہ اگر دو سال میں ایک دن کی بھی کم سزا دی جاتی ہے تو اس کی رکنیت یا الیکشن لڑنے کے حق پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
راہل گاندھی کو پورے دو سال کی جو سزا سنائی گئی اس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ کہیں انھیں سیاسی طور پر ختم کرنے کا منصوبہ تو نہیں تھا۔ اس شبہ کو احمد آباد کی سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلوں سے بھی تقویت ملتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو دونوں عدالتیں ان کی سزا کو برقرار نہیں رکھتیں بلکہ کوئی نہ کوئی عدالت اس پر اسٹے دے دیتی جیسا کہ سپریم کورٹ نے دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ سپریم کورٹ بھی شبہے میں مبتلا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ یہ نہیں کہتا کہ اگر ایک دن کم سزا دی گئی ہوتی تو راہل گاندھی کی رکنیت ختم نہیں ہوتی۔ اس نے گجرات کی عدالتوں کے بارے میں یہ سخت تبصرہ بھی کیا کہ انھوں نے ضخیم ضخیم فیصلے سنائے لیکن کسی نے بھی ان کو قصوروار قرار دینے کی وجہ نہیں بتائی۔ یہ تو کہا کہ وہ ہتک عزت کے قصوروار پائے جاتے ہیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ کیوں پائے جاتے ہیں، اس کی کیا وجوہات ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ اس سزا سے صرف ایک شخص نہیں بلکہ پورا پارلیمانی حلقہ متاثر ہوا ہے۔اس نے کہا کہ سزا پر روک لگانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ایک پارلیمانی حلقہ اپنے نمائندے سے محروم ہو جائے گا۔ اس پر نچلی عدالت نے کوئی غور نہیں کیا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ راہل گاندھی نے جو بیان دیا تھا وہ مناسب نہیں تھا۔ عوامی زندگی میں رہنے والے کسی بھی شخص کو تقریر کرتے وقت الفاظ کے استعمال میں محتاط رہنا چاہیے۔ مبصرین کے مطابق عدالت کی یہ بات درست ہے کہ الفاظ کے استعمال میں محتاط رہنا چاہیے لیکن کیا یہ بات صرف راہل گاندھی پر ہی لاگو ہوتی ہے، دوسرے سیاست دانوں پر نہیں۔
مبصرین نے وزیر اعظم نریندر مودی اور دیگر بی جے پی رہنماؤں کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کو بھی بولتے وقت محتاط رہنا چاہیے۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم مودی نے کانگریس، سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور دوسرے لیڈروں کے تعلق سے متعدد بار متنازع بیانات دیے ہیں۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی اس معاملے میں بدنام ہیں۔ کیا ان لوگوں کو احتیاط کا دامن نہیں تھامنا چاہیے۔ لیکن ظاہر ہے عدالت ایک عمومی بات کہہ سکتی ہے کسی کا نام نہیں لے سکتی۔ یہ تو سیاست دانوں کے اوپر ہے کہ وہ عدالتی تبصرے کا کتنا اثر لیتے ہیں۔ ویسے اگر راہل گاندھی کے بیانات کا بی جے پی رہنماؤں کے بیانات سے موازنہ کیا جائے تو راہل کے بیانات انتہائی شائستہ اور مہذب ملیں گے۔ جبکہ بی جے پی رہنماؤں کے بیانات اتنے ہی غیر مہذب ثابت ہوں گے۔
دراصل راہل گاندھی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ جتنے چور ہیں ان سب کے نام میں مودی کیوں لگا ہوا ہے۔ انھوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ جتنے مودی ہیں سب چور ہیں۔ دونوں جملوں میں فرق ہے۔ اس بیان کو بی جے پی کے بعض لیڈروں کے ان بیانات کی روشنی میں دیکھنا چاہیے کہ جتنے دہشت گرد ہیں سب مسلمان ہیں۔ یہ فقرہ بی جے پی لیڈروں نے بار بار دوہرایا ہے۔ راہل گاندھی کے بیان پر بی جے پی کے اعتراض کے تناظر میں اگر اس فقرے کو دیکھا جائے تو اس سے پورے مسلم فرقہ کی توہین ہوتی ہے۔ لیکن کسی نے ہتک عزت کا مقدمہ نہیں کیا۔ اگر کوئی اس بارے میں مقدمہ کرتا ہے تو کیا اس وقت بھی بی جے پی لیڈروں کا موقف یہی ہوگا۔ بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ نے ایک قابل ستائش اور مبنی بر انصاف فیصلہ دیا ہے۔ گجرات کی عدالتوں کو اپنے فیصلے پر غور کرنا چاہیے۔