اس کائنات کی تخلیقی فسوں سازی کے اس طلسماتی حیرت کدے میں اتنے اسرار پوشیدہ ہیں،جن کی گرہوں کو کھولنا ،اور اس کے بست و کشاد کا مرحلہ انسانی عقل سے ماورا ہے۔ہزاروں لاکھوں کروروں سال سے یہ دنیا ایک خاص نکتہ مستقر پر اپنی تمام تر جولانیوں کے ساتھ اپنے ارتقائی مسافتوں کی طرف پیش رفت کررہی ہے۔، اور اس کائنات نے اپنی ان بوڑھی آنکھوں سے انسانوں کی لاکھوں سالہ تہذیب کے عروج و زوال کو دیکھا ہے ۔اس کے حافظے میںانسان کے خیر و شراور نیکی بدی کی تمام حکایات ابھی موجود ہیں۔اس دنیا میں پیدا ہونے والے بڑے سے بڑے صاحب جاہ و حشم ،مال و منال ، تخت و تاج ،مختار و محتاج ،فقیر و غنیم اور ظالم و مظلوم کی داستانیں بھی اسے حفظ ہیں۔ اپنی طاقت کے زعم میں اس دنیا پر تسلط حاصل کرنے والوں کو اسی دنیا نے بڑی بے رحمی کے ساتھ انھیں خر کار اپنے منطقی انجام تک پہونچا دیا۔ آج وہ صاحبان جلال و جبروت ہمیشہ کے لئے اپنی نخوت وغرور کے ساتھ پیوندے خاک ہو کر رہ گئے اور ان کی تہذیب و تمدن کے آثار کو وقت کی اِن سفاک انگلیوں نے اپنے ناخنوں سے اس زمین کے دامن سے کھرچ کر پھینک دیئے۔نا اب وہ بادشاہ و سلاطین رہے نہ وہ ظل الہی اور نہ اُن کے وہ باج گزار مصاحبین جن پر انھیں بڑا غرور تھا۔اس بے رحم وقت نے ان کی بساط مملکت سمیٹ دی اور ان کے تخت و تاج کو اپنی ٹھوکروں سے روند ڈالا،پھر انھیں اس دنیا میں آنے والی نسلوں کے لئے محض ایک نشان عبرت بنا کر چھوڑ دیا،اور ابھی یہ دنیا کچھ بربریت اور تشدد آمیز ممالک کے عبرت ناک انجام کی منتظر ہے۔جو عنقریب وقت کے اس بدلتے ہوئے منظر نامہ پروہ ابھر کر سامنے آنے والے ہیں۔لہذا ہر صاحب اقتدار کو اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔مجھے اس ضمن میں افتخار عارف کا ایک شعرمیرےذہن میں بڑی برق رفتاری کے ساتھ گردش کررہا ہے میں چاہتا ہوں اسے آپ کی خدمت میں عرض کروں۔
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں
لیکن اس کے برعکس کچھ ایسے لوگ ضرور ہیں ،جن کے نام آج بھی تاریخ کی پیشانی پر سورج کی طرح دمک رہے ہیں۔اس دنیا کی یہی سب سے بڑی سچائی ہے۔ ہمارے سماج میں ایک کہاوت بہت مشہور ہے کہ ’’تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے’’ یہ با ت حقیقت ہے کہ ہر شئے اپنی اصل کی طرف پلٹتی ہے۔‘‘ کوئی بھی صاحب عقل اس بات سے انکار نہیں کرسسکتااگر آج ہم اپنے اس موجودہ انسانی معاشرے کا منطقی تجزیہ کریں تو اس نظریئے کے رد عمل کوبہت واضح طریقے سے دیکھ سکتے ہیں۔
میں موجودہ ہندوستان کی سیاسی منظر نامہ پر گفتگو کرنے سےشعوری طور پر گریز کررہا ہوں چونکہ میری اپنی کچھ ذاتی مجبوریاں ہیں جس کی وجہ سے میں زیادہ کھل کر اس موضوع پر گفتگو نہیں کرسکتا۔لیکن اتنا ضرور کہنے کا حق رکھتا ہوں کہ ہندوستان کی جمہوریت کو سب سے بڑا خطرہ آمریت پسند فکر رکھنے والی سرکش خواہشوں کا ہے،جو ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی بنیادوں کو کھوکھلا کررہی ہے۔اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ شاید ابھی ہندوستان کی زمام حکومت سنبھالنے والے کی نظر مشرقی اوسطیٰ میں برپا ہونے والی سبق آموز جنگ پر نہیں ہے۔اس لئے یہ صہیونیت اور سامراجیت کی استوار کی ہوئی سیاسی پالیسوں کو اپنے ملک کے لئے سود مند تصور کررہے ہیں۔ اگر ابھی سے ان سامراجی طاقتوں کی فتنہ انگیز سیاسی پالیسیوں کا سدباب نہ کیا گیا تو بعد میں اس کے تدارک کے حتمی امکان کا کو ئی معقول جواز ہمارے پاس موجود نہیں ہوگا۔سوائے اظہار تاسف کے اس لئے کہ صاحبان فہم و فراست اس بات کو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں اور انھیں اس بات کا علم ہے کہ اس کا نتیجہ سوائے تباہی اور بربادی کے اور کچھ نہیں ہونے والا۔
آیئے ہم مشرق اوسطیٰ میں سامراجیت اور یہودیت کی سیاسی حکمت علمی کی ذلت آمیز شکست پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔سامراجیت نواز طاقتوں نے اپنے سیاسی مفاد کے حصول کے لئے جو دہشت گر دی کی چنگاری بھڑکائی تھی آج وہ ایک ایسی آگ میں تبدیل ہوچکی ہے ۔جس کی آگ کے شعلے بڑی تیزی کے ساتھ ان کے دامن کو لپک ر ہے ہیںاور وہ خود اس آگ کی زد میں آچکے ہیںجو کسی وقت بھی انھیں خاکستر کرسکتی ہے۔ان کی بے چینی اور بے اطمینانی سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔جن یہودیت نوازوں نے اپنے آقا کے آپسی مشورت سے داعش ،اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی ہر ممکن تعاون سے عراق اور سیریا کے عوام پر جو جنگ مسلط کی تھی، اُس آگ پرعوامی مفاہمت کی مزاحمتی طاقتوں نے قابو پالیا ہے۔جس کی وجہ سے استعماری طاقتوں میں ایک بے چینی کی کیفیت محسوس کی جارہی ۔ہے جسے ساری دنیا اب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔کہ وہ اپنے اقتدار کے تحفظ اور اپنی مملکت کی توسیع کے لئے ہر وہ جائز و ناجائز اقدام کو اپنے حق میں جائز سمجھ رہے ہیں۔ جس میں انھیں کچھ گنجائش نظر آرہی ہے۔ان دجالی اور جبروتی طاقتوں کے بنائے ہوےمنصوبے کی شکست فاش کا کھلا ہوا علامیہ یمن اور بحرین پر ظلم و تشدد کا یہ ایک یہ آخری حربہ ہے۔جس کے ذریعہ سے وہ اپنے باقی ماندہ طاقت کا استعمال یمن اور بحرین کے مظلوم اور مستضعفین عوام پر کر رہے ہیں۔
شاید ابھی آپ کو یاد ہو کہ دسمبر 2010 میں تیونس سے عرب اسپرنگ کے انقلاب نے عرب کے مختلف ممالک کے ڈکٹیروں کی حکومت کا تختہ اقتدار الٹ دیا، جن میں مصر، تیونس، لیبیا،یمن وغیرہ شامل تھے۔ عرب اسپرنگ نے یمن کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ، علی عبداللہ صالح 1990 میں یمن کے مطلق العنان حکمراں کی حیثیت سے وہاں کی مسند صدارت پر متمکن ہوئے ۔اس کا نجام کیا ہوا یہ بھی آپ سے پوشیدہ نہیں لیکن میں بڑے اجمالی طور پر یمن کے جغرافیا ئی حدود پر ایک نظر ڈالنا چاہتا ہوںتاکہ میری بات کی ترسیل میں آسانی ہوسکے ۔یمن دنیا کے قدیم ترین ممالک میں ایک ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ملک ایشیا کے مغرب میں واقع ہے۔ یمن اقتصادی اعتبار سے بہت کمزورملک ہے، اس کے پڑوس میں سعودی عرب اور سلطنت عمان ہیں۔ اس کے دوجانب بحیرہ احمر اور خلیجِ عدن واقع ہیں۔ 1839میں جب سلطنتِ عثمانیہ کا زوال کا آغاز ہوا تو عدن پر حکومت برطانیہ کاتسلط ہوگیا۔ 1918 میں سلطنتِ عثمانیہ کے ٹوٹنے کے بعد شمالی یمن نے آزادی حاصل کی اور امام یحییٰ اس کے پہلے بادشاہ بنے، 1967 میں جنوبی یمن کی تشکیل ہوئی اور یمن دو ٹکڑوں تقسیم ہوگیا ۔شمالی یمن اور جنوبی یمن کے نام سے 1978 میں علی عبداللہ شمالی یمن کے صدر منتخب ہوئے اور جنوبی یمن کی صدارت صدر علی ناصر محمد کے حصے میں آئی۔صدر علی ناصرنے عہدہ صدارت سنبھالنے کے ساتھ ہی اپنے سیاسی حریفوں کو چن چن کرانھیں تختہ دار تک پہنچا دیا۔لیکن علی ناصر محمد اپنے اس غیر اخلاقی اور انسانیت سوز عمل کے ردعمل سے باخبر تھے۔جب یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو یمن کے عوام کے درمیان ایک انقلاب کی لہر پیدا ہوئی جس کی وجہ سے پورے یمن میں خانہ جنگی کی سی حالت پیدا ہوگئی ۔ بعد میں وہی ہوا جو ایک ڈکٹیٹر کے ساتھ قدرت میں مقدر کردیا ہے۔یعنی صدر علی ناصر کو یمن کے عوامی دست انقلاب نے اس کے گریبان کو پکڑ کر مسند صدارت سے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور بعد میں اسے سزائے موت دے دی گئی۔بعد میں شمالی اور جنوبی یمن کے نضمام کے ساتھ اسے متحدہ یمن کا نام دیدیا گیا۔ یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح نے جب یمن کا اقتدار ہادی منصور کے سپرد کردیا تو ہادی منصور نے یہودیت سعودیت نوازی کو عوام کے مفاد پر ترجیح دی ،جس کی وجہ سے یمن میں ایک بار پھر حالت خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔یہ سلسلہ متواتر برقرار رہا یہاں تک کہ 26 مارچ 2015 میں سعودی عرب نے اپنی جنگی قیادت میں یمن کے حوثی اہداف پرفضائی حملہ کردیا۔ یمن کی بحری ناکہ بندی بھی کردی گئی تاکہ وہاں کےشہریوں کو کوئی رسد نہ مل سکے ۔ اس فضائی اور زمینی حملے میں سعودی عرب کے 100 جنگی جہاز اور ڈیڑھ لاکھ زمینی فوجیوں نے حصہ لیا جبکہ اتحادی فوج اس کے علاوہ تھی۔ اس سعودی اتحاد ی بمباری سے اسپتال، اسکول ،مساجد اس کے علاوہ عوام کے روزمرہ کے دیگر وسائل کو بھی تباہ و برباد کردیا ۔ اقتصادی تباہ کاری کی وجہ سے ملک میں رہا سہا ا نفرااسٹرکچر تہس نہس ہوگیا۔لیکن اس کے باوجود یمن کے عوام نے اپنی بھر پور استقامت کا مظاہرہ کیا جذبہ حب الوطنی سے لبریز یہا ں کی بھوکی اور افلاس زدہ عوام نے ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انھیں ان کی ہی زبان میںبات کرنا شروع کردی ۔یہاں تک اب سعودی عرب یمن پر مسلط کی جانے والی جنگ کے ایسے دلدل میں پھنس چکا ہے۔ جس سے اسے اب باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں دکھائی دے رہا ہے۔بالکل اسی طرح جیسے بحرین میں آج سعودی حکومت کے زیر کفالت آل خلیفہ نے بحرین کے عوام پر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑ رکھا ہے،یہاں پر آے دن عوام پرکو ظلم و بربریت کا نشانہ بنا یا جارہا ہے اور خاص کر مسلمانوں کے ایک طبقہ کے ساتھ آل خلیفہ کی بربریت اور سفاکیت کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے۔،لیکن ان دنوں بحرین ایک ایسی خانہ جنگی میں مبتلا ہوچکا ہے کہ عنقریب یمن کی طرح وہاں بھی آل خلیفہ کو ذلت آمیز شکست کا منھ دیکھنا پڑے گا۔موجودہ ذائع ابلاغ سے نکل کر سامنے آنے والی خبروں کے مطابق آل خلیفہ کی آمرانہ قیادت صہیونیت اورسعودیت نوازی کے لئے اپنے سیاسی حریفوں بڑی جاریحانہ انتقامی کاروائیاں جارکر رکھی ہیں،گزشتہ کچھ ماہ سے بحرین کی حکومت کی اپنے ہی شہریوں پر انتقامی کارروایاں دینا کی بدترین مثال ہے۔ یہاں تک کی اس خانہ جنگی کی آگ کو سرد کرنے کے لئے بحرینی روایات اور اسلامی تعلیمات کے خلاف وہاں کی خواتین کو بھی بے بنیاد الزامات کے تحت گرفتار کرکے ان کے ساتھ اخلاق سوز حرکتوں کا ارتکاب کیا جارہا ہے ، اور انھیں ذہین اور جسمانی اذیتیں بھی دی جارہی ہے ہیں۔
منامہ (مانیٹرنگ ڈیسک) کی اطلاع کے مطابق پبلک پراسیکیوشن نے 27جولائی 2017 کو سیاسی انتقام کی بنا پر بحرینی خاتون نجاح احمدالشیخ کی 30دن نظر بندی میں مذید توسیع کر دی ہے۔ مذکورہ خاتون کو 27اپریل کو بحرینی سیکورٹی حکام نے’’ نویدرات‘‘ کے علا قہ سے انہیں ’’محرق تھانہ‘‘ میں تفتیش کے بہانے طلب کیا اور سیاسی بنیادوں پرحکومتی الزامات کے اعترافی بیان پر دستخط نہ کرنے کے غیر قانونی الزام کی بنا پرانھیں حراست میں لے کر نظر بند کردیا گیا۔ان کے خاندان کے مطابق ’’نجاح احمد الشیخ‘‘ کو جنسی تشددکا نشانہ بنایا گیا اور ان کے پورے خاندان کو ہراساں کرنے کی دھمکی دے جبراً حکومت کی کے نام نہاد امن پسند حکومتی دستاویز پر دستخط کرنے کے لئے مجبور کیا جارہا ہے۔آل خلیفہ کے اس اقدام کے خلاف بحرین عوام سراپا احتجاج ہے ،اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے سڑکوں پر بھی پُر امن احتجاج کا سلسلہ ابھی جاری ہے ،افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آل خلیفہ کے فوجی گماشتے ان پُرامن احتجاج میں شامل شہریوں پر لاٹھی اور ڈنڈوں کے ساتھ گولی باریاں بھی کرتی ہیں ،جس کی وجہ سے وہاں کے بے قصور شہری نہ صرف زخمی ہوتے ہیں بلکہ بہت سے لوگوں کی جان کا زیاں بھی ہوتا رہتا ہے۔اس کے باوجود ان سفاک اور ظالم حکمرانوں کی خوں آشام طبیعت کو تسکین نہیں ہوتی۔
تعجب تو اس بات پر ہے کہ خود کو مسلمان کہنے والے یہ بدنہاد حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز اپنے اس اعمال پر شرمندہ ہونے کے بجائے اپنے اس عمل پر فخر کرتے ہیں۔ یہ اسرائیل و امریکہ اور سعودیہ حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کے دریدہ زخموں پر مزید نمک چھڑکنے کا کام کرتے ہیں۔ابھی کچھ دن قبل اسرائیل میں یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کے ساتھ وہاں پر نماز پڑھنے والے مسلمانوں پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کی وجہ سے بہت سے فلسطینی شہید ہوگئے اور سیکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوگئے ۔اور ادھر بحرین کے وزیر خارجہ نے بجائے فلسطین کی ہمدردی کے بحرین اور اسرائیل کے درمیان اچھے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے خواہاں نظر آرہے ہیں۔بحرین کے وزیر خارجہ خالد بن احمد ال خلیفہ نے اپنے ایک بیان میں اس بات پر زور دیا کہ کے اسرائیل اور بحرین کے تعلقات انتہائی محترم ہیں ۔حکومتی سطح پر کی جانے والی کوششوں کے باوجود ابھی ہمیں وہ مطلوبہ نتائج نہیں حاصل ہوئے جس کے لئے ہم کوشاں ہیں۔اب اس سے زیادہ شرمناک بیان اور کیا ہوسکتا ہے ۔
اب ان بیانات سے کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ مشرق اوسطی میں یہودیت و سامراجیت اور سعودیت کےبنائے ہوئے ایجنڈے میں صرف سیریا اور عراق ہی نہیں تھا بلکہ اس میں یمن اور بحرین کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ سیریا اور عراق میں داعش جیسی نام نہاد خلافت اگر اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتی تو ،وہ سیدھے یمن اور بحرین کا رخ کرتے ،اس لئے کہ یہودیت کا گریٹرر اسرائیل کا دیرنیہ خواب کی تکمیل میں سیرایا اور عراق کے ساتھ یمن و بحرین بھی مزاحمت کا ایک حصہ تھا۔لیکن داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کی سیریا اور عراق میں شرمناک شکست نے کچھ نام نہاد عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل اور امریکہ کو بھی ساری دنیا میں ذلیل و رسوا کرکے رکھ دیا۔سیریا اور عراق سے کچھ بچی ہوئی تخریبی قوتوں کو یمن اور بحرین میں اپنے آخری کوشش کے لئے تعینات کردیا گیا ہے۔تاکہ ریاض حکومت سیریا اور عراق کی شکست کا بدلایمن اور بحرین کے عوام سے لے سکے ۔لیکن اب یمن اور بحرین کا منظر نامہ بہت تیزی سے بدل رہا ہے ، ایسی صورت میں سعودیہ اور اس کے اتحادی ممالک کو اپنی شکست بہت واضح طور سے نظر آرہی ہے۔جس کی وجہ سے وہ خفیہ طریقہ سے مصالحت کا راستہ اختیار کرنے کی کومسلسل کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔لیکن ایک بات تو طے ہے کہ سیریا اور عراق کے بعد یہودیت نواز طاقتوں کا آخری مقتل یمن و بحرین ہی ثابت ہوگا ،جہاں پر انھیں ایک بڑی شکست فاش کا منھ دیکھنا ہوگا۔چونکہ ظالم کتنی ہی قوت کے ساتھ مظلوموں پر حملہ آوار ہو لیکن اس کا انجام عبرتناک ہی ہوتا ہے۔ مجھے عرفان صدیقی مرحوم کا ایک شعریاد آرہا ہے جو اپنے مقتضائے حال کی بہترین عکاسی کرتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔
سخت جاں ہم سا نہ تم نے کہیں دیکھا ہوگا
ہم قاتل کئے دیکھے ہیں تمہارے جیسے