ڈاکٹر سلیم خان
گجرات کے انتخاب میں راہل گاندھی کو یقینا ً شکست سے دوچار ہونا پڑا لیکن اگر مودی جی کے آبائی گاوں واڈ نگر اور حلقۂ انتخاب اونجھاکے نتائج پر نظر ڈالیں تو مناّ بھائی (ایم بی بی ایس) کی زبان میں کہنا پڑے گا ’’ گھر میں گھس کے مارا‘‘۔ یہی وجہ ہے مودی جی ایوان پارلیمان سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں ۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ اور سابق صدر جمہوریہ حامد انصاری کے خلاف نریندر مودی کے بیان پر کانگریس نے سرمائی اجلاس میں ہنگامہ برپا کر رکھا۔ کانگریس وزیر اعظم سے معافی پر اصرار کررہی ہے۔ اس بابت حزب اختلاف کو سمجھانے اور منانے کے لیے وزیر مالیات ارون جیٹلی نے کوشش کی ناکام رہے ۔ وقفۂ صفر میں اس مسئلہ پرا جازت نہ ملنے کے سبب کانگریسی اراکین ’وزیر اعظم ایوان میں آؤ، وزیر اعظم معافی مانگو‘ کے نعرے لگا نے لگے۔ ایسی صورتحال سے سینہ سپر ہونے کا حوصلہ ۵۶ انچ والی چھاتی میں نہ پہلےتھا اورنہ آگے ہوگاکیونکہ مودی جی اور عرفان صدیقی میں بڑا ہے جو اپنے بارے میں فرماتے ہیں ؎
میں اپنے سینے سے شرمندہ ہونے والا تھا
کہ آ لگا کوئی تیر جفا نشانے پر
اس معاملے میں لوک سبھا کے اندرکانگریس کے رہنما ملکارجن کھڑگے نے جب سوال اٹھایا کہ وزیر اعظم کے گمراہ کن بہتان سےسابق وزیر اعظم، سابق نائب صدر جمہوریہ، سابق فوجی سربراہ اورسابق خارجہ سکریٹری کی بے عزتی ہوئی ہے تو اسپیکر سمترا مہاجن نے جواب دیا انتخابات ہو چکے ہیں ،نتیجہ آ گیا ہے اس لیےوقفہ سوالات خلل نہ ڈالاجائے۔ لیکن کھڑگے اس جواب سے مطمئن نہیں ہوئے ان کی دلیل تھی کہ اس معاملے کو انتخاب سے جوڑ کر نہ دیکھا جائے۔ پارلیمانی امور کے وزیر اننت کمار کے اعتراض پر کانگریس کے سنیل جاکھڑ نےحکومت کو چیلنج کیا کہ ’’وہ منموہن سنگھ اور حامد انصاری کے خلاف کیس درج کرے‘‘۔ اس بحث و مباحثہ سے قطع نظر اگر یہ دیکھا جائے کہ مودی جی نے پاکستان کے حوالے سے انتخابی مہم کے دوران جو حماقت کی تھی آیا اس کا کوئی فائدہ بھی ہوا یا نہیں تو پتہ چلتا ہے ’’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنا‘‘۔
یہ متنازع تقریر مودی جی نے پالن پور ضلع بناس کانٹھا میں کی تھی۔ اس میں انہوں نے کئی باتیں کہیں اول تو یہ کہ کانگریسی رہنما منی شنکر نے انہیں نیچ کہہ کر گجراتی عوام کی توہین کی حالانکہ منی شنکر نے مودی جی کو ان کے اوچھے ہتھکنڈوں کے سبب گھٹیا آدمی کہا تھا۔ اس تبصرے کا تعلق ان کے عہدے یا ذات پات سے نہیں تھا۔ گجرات کے لوگوں سے تو اس بیان کا کوئی سروکار ہی نہیں تھا لیکن مودی جی قصداً اس کو وہاں موڑ دیا۔ مودی جی نے منی شنکر ائیر پر الزام لگایا کہ انہوں نے پاکستان کا دورہ کرکےحکومت پاکستان سے استدعا کی ہندپاک تعلقات سدھارنے کی خاطر مودی جی کوہٹوا دیا جائے۔ کیاہندوستانی وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ پاکستان کی دسترس میں ہے یا ہندوستان کی حکومت پاکستان کے وزیراعظم کو ہٹا سکتی ہے ؟
پالن پور کے انتخابی جلسے میں مودی جی نے منی شنکر ائیر کے گھر پر پاکستانی سفیر کے ساتھ گجرات کے انتخاب کو متاثر کرنے کی خاطر رچی جانے والی سازش کا انکشاف کیا جس میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ، سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری، سابق فوجی سربراہ اورسابق خارجہ سکریٹری موجود تھے۔ اس پر بھی ان کا دل نہیں مانا تو پاکستان کے آرمی ڈائرکٹر جنرل ارشد رفیق کا ذکر کیا گیا کہ وہ احمد پٹیل کو گجرات کا وزیراعلیٰ بنانا چاہتے ہیں جب کہ پاکستانی فوج میں ایسا کوئی عہدہ ہی پایا نہیں جاتا۔ مودی جی کو غالباً پہلے مرحلے کی رائے دہندگی کے بعد ہوا کے رخ کا اندازہ ہوچکا تھا اس لیے وہ اس نچلے درجہ پر اتر گئے لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ پالن پور میں کانگریس کےمہیش کمار پٹیل نے بی جے پی کے لال جی بھائی پٹیل کو تقریباً ۱۸ ہزار ووٹ سے شکست دے دی۔ اس کے علاوہ بناس کانٹھا ضلع کی ۹ نشستوں میں ۶ پر کانگریس نے کامیابی درج کرائی اور ۳ بی جے پی کے حصے میں آئی۔ اس لیے مودی جی کو یاد رکھنا چاہیے کہ ؎
طرب کی رو میں جو اپنا مقام بھول آئے
نہ زندگی کے انھیں عمر بھر اصول آئے
انتخابی مہم کے دوران مودی جی یہ بھول گئے کہ فی الحال وہ قومی رہنما ہیں ۔ انہوں نے کانگریس کو گھیرنے کے لیےعلاقائی عصبیت کا سہارا لیااور کہا نہرو خاندان ہمیشہ سے گجراتیوں کی دشمن رہا ہے۔ اس نے ماضی میں مرارجی دیسائی اور ولبھ بھائی پٹیل کے ساتھ برا سلوک کیا اور اب ایک گجراتی وزیراعظم کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ مودی جی یہ بھول گئے کہ گاندھی جی کے قاتل گوڈسے کا تعلق آرایس ایس سے تھا اور یہی وجہ ہے کہ ولبھ بھائی پٹیل نے آرایس ایس پر پابندی لگائی تھی۔ مرارجی دیسائی کے اقتدار سے محروم ہونے کی بنیادی وجہ سابقہ جن سنگھ یعنی موجودہ بی جے پی کے رہنماوں کا جنتاپارٹی سے الگ ہوجانا تھا۔ مرارجی دیسائی نے سنگھ والوں کی دوہری رکنیت پر مصالحت کرنے کے بجائے کرسی چھوڑ نا گوارہ کرلیا تھا۔ گجرات کے لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے مودی جی نے ناندوڈ میں ولبھ بھائی پٹیل کا ۱۸۲ فٹ اونچا مجسمہ تعمیر کرنے کا شوشہ چھوڑا۔ اس کے علاوہ کانگریس کے زمانے سے جاری نربدہ بند کا کریڈٹ لینے کی مذموم کوشش کی۔ کانگریس نے اس طرح کی ڈرامہ بازی کے بجائے ایک مقامی جماعت بھارتیہ ٹرایبل پارٹی سے الحاق کرکے اس قبائلی علاقے سے بی جے پی کو اکھاڑ پھینکا۔ ناندوڈ کے حلقہ انتخاب سے جہاں سردار ولبھ بھائی پٹیل کا مجسمہ نصب ہونے والاہے کانگریس کے پریم سنگھ واسوا نے بی جے پی کے وزیر جنگلات سبدرشن تڑوی کو شکست دے دی۔ نربدا کی وادی سے بی جے پی کا مکمل صفایہ ہو گیا۔
مودی جی کا تعلق واڈ نگر سے ہے۔ وزیراعظم بننے کے بعد پہلی مرتبہ انہیں اس انتخاب سے قبل اپنے گاوں کی یاد آئی۔ واڈ نگر کے بارے میں یہ شرمناک حقیقت ذرائع ابلاغ کی زینت بن چکی ہے کہ مودی جی کا سوچھتاّ ابھیان ابھی تک یہاں نہیں پہنچا اور آج بھی یہاں کے لوگ کھلے میں رفع حاجت کے لیے مجبور ہیں ۔ مودی جی نے واڈ نگر نے کمال جذباتی تقریر کی۔ اس سے قبل کشمیر کے کسی سلمان نظامی کا ایک سوال ٹوئٹر پر آیا کہ راہل کا باپ اور دادی تو ملک کے لیے شہید ہوئے لیکن مودی بتائے کہ اس کے ماں باپ کون ہیں ؟ سلمان نے اس سوال سے انکار کیا مگر مودی جی نے اس کا جواب دیا۔ وہ بولے کانگریس پوچھتی ہے میرے ماں باپ کون ہیں ؟ کیا دشمن سے بھی اس طرح سوال کیا جاتا ہے؟ کیا یہی ہندوستانی تہذیب ہے۔ میرے ماں باپ آپ لوگ ہیں ، میں ہندوستان کا بیٹا ہوں ۔ مودی جی کا طرزِ تکلم اس شعر کی مصداق تھا ؎
غزل میں اس کو ستم گر کہا تو روٹھ گیا
چلو یہ حرف ملامت لگا نشانے پر
اس مہم پر مودی جی پہلے تو مندر میں جاکر پوجا پاٹ کی اور پھر اس اسکول میں گئے جہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے بعد جلسۂ عام میں کہا کہ مجھے بچپن کی یاد آرہی ہے۔ حاضرین میں کئی جانے پہچانے چہرےدیکھ رہا ہوں ، کچھ دانت گنوا چکے ہیں اور کچھ لاٹھی کے سہارے آئے ہیں ۔ میں آپ میں سے ایک ہوں ۔ میں نے اپنا سفر یہیں سے شروع کیا تھا اور اب کاشی (وارانسی) پہنچ گیا ہوں ۔ واڈ نگر کی طرح کاشی بھی بھولے بابا کے لیے معروف ہے۔ شیوا نے مجھے زہر پینے اور اس کو ہضم کرنے کی قوت دی۔ اسی وجہ سے میں ۲۰۰۱ سے اپنے خلاف ہونے والی زہر افشانی کا مقابلہ کرپارہا ہوں ۔ یہ جذباتی خطاب کا بھی بیکار گیا۔ مودی جی کے زہر کا اثر زائل ہوگیا ورنہ یہ کیونکر ممکن تھا کہ واڈ نگر کے اونجھا اسمبلی حلقہ میں ۱۹۹۵ سے کامیاب ہونے والے ۷۴ سالہ نارائن بھائی للو داس پٹیل کو ۴۰ سالہ کانگریسی امیدوار آشا پٹیل ۱۹۰۰۰ووٹ سے شکست دے دیتیں ۔ اپنے ہی گھر میں ہونے والی مودی جی کی اس رسوائی پر عرفان صدیقی کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ؎
الٹ گیا ہے ہر اک سلسلہ نشانے پر
چراغ گھات میں ہیں اور ہوا نشانے پر
مودی جی نے انتخاب کے بعدبی جے پی ارکان پارلیمان کے سامنے اپنے دل کی بات رکھی۔ انہوں صاف طور پر اعتراف کیا کہ یہ کوئی آسان کامیابی نہیں تھی۔ گجرات کی یہ فتح بہت سخت محنت و مشقت اور قربانی کے بعد ملی ہے۔ وہ بولے کوئی اس خام خیالی میں مبتلا نہ رہے یہ سہل ہدف تھا۔ اس دوران انہوں نے اٹل جی کو یاد کرکے ٹسوے بھی بہائے۔ امیت شاہ کو پارٹی میں آگے بڑھانے کی داستان بیان کی اور کہا انتخابی مہم سے لوٹنے کے فوراً انہوں نے دفتر میں میں کام کیا پانچ جنوبی ریاستوں کے دورے پر گئے۔ اس کے بعد ایک مضحکہ خیز جملہ کہہ دیا۔ وہ بولے میں تم لوگوں کے لیے میں دن رات سخت محنت کررہا ہوں ۔ اب میں اور کیا کرسکتا ہوں ؟ اس جملے میں جہاں مایوسی اور تھکن ہے وہیں احسان بھی ہے۔ پہلے تو مودی جی ایسی کوئی خاص محنت نہیں کررہے جس پر اس قدر پیٹھ ٹھونکی جائے لیکن اگر کر بھی رہے ہیں تو اپنی کرسی بچانے کے لیے کررہے ہیں ۔ اپنی پارٹی یا قوم پر کوئی احسان نہیں کررہے۔ مودی جی تو خیر اس قدرپریشان تھے لیکن اس کے برعکس سنا ہے راہل گاندھی اپنے دوستوں کے ساتھ ’اسٹار وار‘ نامی فلم کا مزہ لے رہے تھے۔ ان دونوں سرگرمیوں سے ایک رہنما کے یاس اور دوسرے کے جوش کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
امیت شاہ کو ہندوستانی سیاست کا چانکیہ کہا جاتا ہے اور مودی جی نے بھی ان کو خاص طور پر مبارکباد دی ہے۔ اس احمق نے ہماچل پردیش ایک ایسے فرد کو صوبائی اکائی کی کمان سونپی کہ وہ ہار گیا اور وزیراعلیٰ کا امیدوار بھی شکست سے دوچار ہوگیا حالانکہ بی جے پی نے زبردست کامیابی درج کرائی۔ گجرات کے اندرکانگریس نےجہاں اپنے پرانے حلقوں میں سے ۱۶ نشستیں بی جے پی کو دیں وہیں بی جے پی نے ۳۳ نشستوں کو کانگریس کے حوالے کیا۔ بی جےپی والے کہتے ہیں کہ گجرات کے لوگوں نے وکاس کے مقابلے ذات پات کی سیاست کو مسترد کردیا لیکن زمینی حقائق کچھ اور کہتے ہیں ۔ مودی جی خود پسماندہ سماج سے تعلق رکھتے ہیں اور اس مرتبہ انہوں نے ’نیچ ‘ کا معاملہ اچھال کر پسماندہ رائے دہندگان کو رجھانے کی خوب کوشش کی اس کے باوجود بی جے پی کے ۲ پسماندہ ارکان کم ہوگئے جبکہ کانگریس کے پسماندہ ارکان میں ۴ کا اضافہ ہوا یعنی مجموعی اعتبار سے ۶ کا فرق واقع ہوگیا۔ اس کے برعکس شاہ جی کے بنیا اراکین کی تعداد ۸ سے گھٹ کر ۴ ہوگئی یعنی ۵۰ فیصد کی کمی واقع ہوئی۔
یہ درست ہے کہ ہاردک پٹیل کی مہم جوئی کے باوجود پٹیل ارکان اسمبلی کی تعداد ۵۱ سے گھٹ کر ۴۳ پر آگئی لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کے ۳۷ پٹیل اب گھٹ کر ۲۷ ہوگئے اور دیگر پارٹیوں کے ۳ پٹیل غائب ہوگئے لیکن کانگریس کے پٹیل ارکان اسمبلی کی تعداد ۱۱ سے بڑھ کر ۱۶ ہوئی ہے۔ ہاردک کے اپنے شہر ویرمگام میں واڈ نگر جیسی حالت نہیں ہوئی بلکہ کانگریس کا پٹیل امیدوار کامیاب ہوا۔ الپیش ٹھاکور نے بھی کانگریس کا بھلا کیا۔ بی جے پی کے ٹھاکور ارکان ۸ سے ۳ پر پہنچے تو کانگریس کے ۵ سے ۸ پر اس طرح پٹیلوں کی طرح ٹھاکور سماج کی نمائندگی میں بھی ۲عدد کی کمی آئی۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جگنیش میوانی کے دلت ارکان کی تعدادمیں بھی ۲ عدد کی کمی ہوئی ہے لیکن وہ دونوں بی جے پی کے ہیں ۔ اس طرح پٹیل، ٹھاکو ر، دلت، بنیااور پسماندہ ان چاروں کی نمائندگی کم ہوئی ہےلیکن مسلمانوں ، مراٹھوں اور براہمنوں کی تعداد دوگنی ہوگئی یعنی براہمن ۵ سے ۱۰ تو مسلمان ۲ سے ۴ پر پہنچ گئے اور مراٹھے سے ۱ سے ۲ ہوگئے۔ واگھیلا کے شتریوں کا بھی بڑا فائدہ ہوا ان کی تعداد ۱۰ سے ۱۶ ہوگئی اور کولی سماج بھی ۱۶ سے ۲۰ تک جاپہنچا۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ ذات پات کی بنیاد پر ہاتھ پیر نہیں مارنے والے اس بارزیادہ فائدے میں رہے۔
ایک ایسی انتخابی مہم کے باوجود جس کو وزارتِ عظمیٰ کے دو امیدواروں نے اپنے وقار کا مسئلہ بنارکھا تھا ’ نوٹا‘ (سارے امیدوار نااہل) پر مہر لگانے والوں کی ۸ء۱ فیصد تعداد چونکانے والی ہے۔ یہ تعداد بہوجن سماج پارٹی کے ۷ء۰، این سی پی کے ۶ء۰ اور واگھیلا کی ہندوستان کانگریس پارٹی ۳ء۰ سے کہیں زیادہ ہے۔ کانگریس نے بھارتیہ ٹرائبل پارٹی سے الحاق کیا تھا اسے صرف ۷ء۰ فیصد کے ساتھ دونشستوں پر کامیابی بھی ملی۔ یہ نوٹا ووٹ ۱۱ حلقۂ انتخاب میں ۳ تا ۵ فیصد تھے۔ اس کے اثرات ۳۰ نشستوں پر ہوئے اور ایک اندازے کے مطابق ان سے ۱۵ مقامات پر بی جے پی کا اور ۱۵ پر کانگریس کا نقصان ہوا۔ یہ ۳۰ حلقہ ہائے انتخاب ایسے ہیں جن میں کامیاب ہونے والا امیدوار نوٹا سے کم کے ووٹ کے فرق سے جیتا۔ مثلاً ڈھولکا میں کابینی وزیربھوپندر چڈسامہ ۲۳۷ ووٹ سے جیتے جبکہ نوٹا کی تعداد ۲۳۴۷ تھی۔ چھوٹا اودے پور میں کانگریس کے موہن سنگھ راٹھوا نے ۱۰۹۳ ووٹ سے کامیابی حاصل کی جبکہ نوٹا کی تعداد ۵۸۷۰ تھی۔ اسی طرح کانگریس کے صوبائی صدر ارجن مودھواڈیا کو بی جے پی کے بابو بوکھریا نے ۱۸۵۵ ووٹ سے شکست دی جبکہ نوٹا ووٹ ۳۴۳۳ تھے۔ سچ تو یہ ہے جملہ رائے دہندگی کا فیصد اس بار ۶۸ تھا یعنی ۳۲ فیصدلوگ جو ووٹ دینے کے لیے نہیں آئے وہ کسی کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ حکومت کرے اگر اس میں نوٹا کے دو فیصد ملادیئے جائیں جنہوں نے ببانگ دہل اس نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے تو یہ تعداد ۳۴ فیصد یعنی ایک تہائی سے زیادہ ہوجاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے غیر مطمئن شہری لوگ اپنے دیوان خانے میں بیٹھ انتخابی نتائج سے تفریح حاصل کرتے ہیں اور قبائلی لوگ پولنگ بوتھ پر جاکر اپنی ناراضگی درج کرواتے ہیں ۔ وقت کے ساتھ اس باطل نظام کا سحر ٹوٹ رہا ہے لیکن وہ دن کب آئے گا جب لوگ اس دیواستبداد کے چہرے پر پڑی نیلم پری کی قبا چاک چاک کردیں گے کوئی نہیں جانتا بقول عرفان صدیقی ؎
میں انتظار میں ہوں کون اسے شکار کرے
بہت دنوں سے ہے میری نوا نشانے پر
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)