-
قرآن کی حقانیت کے منکر ہو تو اس کا جواب لے آئو!
- سیاسی
- گھر
قرآن کی حقانیت کے منکر ہو تو اس کا جواب لے آئو!
858
M.U.H
18/03/2021
0
0
تحریر:عادل فراز
عصر حاضر میں مسلمانوں کے مقدسات کی توہین عام بات ہوگئی ہے ۔استعماری طاقتیں اسلام کی حقانیت اور اس کے اثرونفوذ کوہزار ہا کوششوں کے بعد بھی ختم نہیں کرسکیں توانہوں نے اسلام کو بدنام کرنے اور اس کے مقدسات کی اہانت کو اپنا شیوہ بنالیا ہے تاکہ اسلام کے دن بہ دن بڑھتے ہوئےدائرۂ اثر کو روکا جاسکے ،مگر اب تک ان کی یہ کوششیں ناکام رہی ہیں ۔مختلف یوروپین ممالک میں حجاب پر پابندی عائد کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات سے کس قدر خوف زدہ ہیں کیونکہ حجاب کا مسئلہ فقط مسلمانوں سے مخصوص ہے اور اسلام دیگر ادیان و مذاہب کو حجاب کی پابندی پر مجبور نہیں کرتاہے ۔اسی طرح قرآن کی عظمت اور اس کے تقدس پر مسلسل استعماری حملے یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ قرآن کی حقانیت سے بخوبی واقف ہیں اگر ایسانہ ہوتا تو وہ قرآن پر انگشت نمائی کے بجائے اس کا جواب لانے کی کوشش کرتے ۔جیسا کہ قرآن اپنے نزول کے بعد سےآج تک مسلسل یہ اعلان کررہاہے کہ اگر کسی کو ہماری حقانیت اور الہی کلام ہونے میں شک ہے تو وہ ہمارا جوب لیکر آئے ۔پورے قرآن کاجواب ممکن نہیں ہے تو کسی ایک سورت کا جواب لے آئو ۔اور اگر ایک سورت کا جواب بھی ممکن نہیں ہے توکسی ایک آیت کا جواب لاکر دکھائو ۔مگر آج تک قرآن کے دشمنوں کی طرف سے اس کی ایک آیت کا بھی جواب ممکن نہیں ہوسکا،جو اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کے دعویٰ کے سامنے دنیا کی تمام ترطاقتیں کس قدر بے بس اور لاچار ہیں ۔اسی بے بسی اور لاچاری نے انہیں مجبور کیاہے کہ وہ علمی مباحث سے کنارہ کشی کرتے ہوئے قرآن کی عظمت اور اس کے تقدس پرشدت کے ساتھ حملہ ور ہوں ۔استعماری طاقتوں نے قرآن میں ردوبدل کی ہر ممکن کوشش کی مگر وہ ہمیشہ ناکام رہیں اس لیے انہوں نے مسلمانوں کے درمیان سے کچھ ضمیر فروش اور بے ایمان افراد کا انتخاب کیا جنہیں زرومال اور جاہ منصب کی للک تھی تاکہ وہ ان کے ذریعہ قرآن اور اسلامی تعلیمات پر انگلی اٹھاسکیں ۔وفات رسول اسلام ؐکے بعد قرآن میں تحریف کی مسلسل کوشش کی گئی مگر طاقتور ترین حکومتیں بھی اس میں ناکام رہیں ۔آج سلمان رشدی ،تسلیمہ نسرین ،طارق فتح اور وسیم رضوی جیسے اسلام دشمن اور نام نہاد مسلمان ان کے آلۂ کار ہیں جنہیں استعماری طاقتیں ہر طرح کی سہولت اور عیش و عشرت کے سامان فراہم کرتی رہی ہیں ۔اس لیے مسلمان برانگیختہ نہ ہوں اوراپنے جذبات پر قابو رکھیں کیونکہ وسیم رضوی جیسے دریدہ دہن بار بار آتے رہیں گے مگر قرآن کے ایک لفظ میں ترمیم و تحریف ممکن نہیں ہوگی ،کیونکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری کسی انسان کی نہیں بلکہ خود اللہ نے لی ہے ۔
وسیم رضوی جن 26 آیات کو قرآن سے ہٹانے کی بات کررہاہے اورجو زعفرانی طاقتیں اس کے پیچھے کار فرماہیں ،ان آیات کے شان نزول سے بھی واقف نہیں ہیں ۔جس وقت سوامی لکشمی شنکر آچاریہ جی نے قرآنی آیات سے غلط استنباط کرکے ’اسلامی دہشت گردی کی تاریخ ‘ نامی کتاب تحریر کی تھی جس پر ہندوستان میں موجود مسلمان دشمن طاقتیں پھولی نہیں سمائی تھیں ،اس وقت سوامی لکشمی شنکر اچاریہ جی نے قرآن کورسول اسلامؐ کی سیرت اور آیات کے شان نزول کے مطابق نہیں سمجھا تھا ۔جب انہیں اس کی طرف توجہ دلائی گئی تو وہ اپنے خیالات پر نادم ہوئے اور انہوں نے مجمع عام میں اپنی کتاب ’اسلامی آتنک واد کا اتیہاس ‘ پر اظہار شرمندگی کرتے ہوئے مسلمانوں سے معذرت کی تھی اور کہا تھا کہ قرآن کو بغیر سیرت رسولؐ کا مطالعہ کیے ہوئے اور آیات کے شان نزول کو سمجھے بغیر ان کے صحیح مفاہیم کو درک کرنا ممکن نہیں ہے ۔اس کے بعد سوامی جی نے ’اسلام جینے کی کلا‘ نامی کتاب لکھ کر اپنی غلطی کا ازالہ کیا ۔زعفرانی اور استعماری طاقتیں سیرت رسولؐ اور آیات کے شان نزول سے اچھی طرح واقفیت نہ بھی رکھتی ہوں مگر وہ قرآن کی حقانیت سے بے خبر نہیں ہیں ،اس لیے انہوں نے قرآن کے خلاف ایسا راستہ اختیار کیاہے جو فقط اور فقط نفرت انگیزی ،انتشار و اختلاف پر مبنی ہے ۔وہ مسلمانوں کے خلاف قرآن اور سیرت رسول ؐ سے بے خبر نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہےہیں جس کے لیے مسلمان علماء اور قائدین کو فکر مند ہونے کی ضرورت ہے ۔انہیں چاہیے کہ مسلم نوجوانوں اور غیر مسلم بھائیوں کے لیے قرآن اور سیرت رسولؐ کے مطالعہ کو آسان بنائیں اور ان تک الہی پیغام کو پہونچانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
جس وقت وسیم رضوی نے زوجۂ رسول ؓ کا نیم عریاں پوسٹر اور ٹریلر ریلیز کیا تھا اگر اسی وقت تمام مسلمان اس کی گرفتاری کے لیے متحد ہوکر احتجاج کرتے تو آج نوبت یہاں تک نہیں پہونچتی ۔مگر عالم اسلام کی بے حسی،نا اتفاقی اور عدم اتحاد کی روایت نے اس میں ’حرمت قرآن ‘ پامال کرنے کی جرأت پیدا کی۔اہانت قرآن کی ذمہ داری تنہا وسیم رضوی پر عائد نہیں ہوتی بلکہ مسلمانوں کے مسلکی انتشار اور عدم اتحاد پر بھی عائد ہوتی ہے ۔کاش یہ امت قرآن اور پیغمبرؐ کے نام پر متحد ہوجائے تو وسیم رضوی اور اس کے آقائوں کی کبھی یہ جرأت نہیں ہوگی کہ وہ اس طرح کے اقدامات کرسکیں۔کیونکہ یہ سبھی جانتے ہیں کہ عدالت میں دائر عرضی کا مضمون وسیم رضوی کا تیار کردہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ’احساس کمتری کا شکار‘ اور مذہبی منافرت میں جلا بھنا زعفرانی ٹولا ہے جس کی نفرت آمیز سیاست نے ہندوستان کو تقسیم کے دوراہے پر لاکر کھڑاکردیاہے۔
حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ بعض مولوی حضرات اب تک خاموش ہیں یا برائے نام اس کی مذمت کرکے اپنی ساکھ بچانے کی فکر میں ہیں ۔اہانت قرآن کے خلاف اب تک کوئی ایسا جلسہ منعقدنہیں ہوا جس میں نظریاتی اور ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں اور بے نظیر اجتماع سامنے آئے ۔بعض وہ افراد جنہیں تازہ تازہ قیادت کا بھوت سوار ہواہے وہ تو کئی دنوں کے بعد خواب غفلت سے بیدارہوئے اور مذمتی بیان جاری کیا ۔قیادت خلاء میں تیار نہیں ہوتی ۔اس کے لیے میدان عمل میں آنا پڑتاہے ۔سرکار اور انتظامیہ سے لوہا لینے کی ہمت ہونی چاہیے ۔جیل اور مقدموں سے گھبرانے والے لوگ قیادت کی فکر میں ہیں ،ایسے سہل انگار افراد بھلا امت کی رہنمائی کیسے کریں گے؟۔رہی پاکستان کے ان مولویوں کی بات جو پاکستانی فوج کے اشارے پر ہندوستان کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں مداخلت کرتے تھے ،وہ بھی وسیم رضوی کی’ اہانت قرآن‘ کے خلاف گونگے نظر آئے ۔کیا ’توہین قرآن ‘ کا مسئلہ اتنا معمولی تھا کہ انہوں نے وسیم رضوی کے خلاف لب کشائی کی جرأت نہیں کی یا پاکستان آرمی نے انہیں بولنے کی اجازت نہیں دی،جبکہ بعض حق گوعلماء نے مذمتی بیانات جاری کیے اور وسیم رضوی کو مرتد قرار دیا ۔ہندوستان میں موجودان کےچیلے ‘ جنہیں قائد بننے کی دُھن سوار ہے کئی دنوں کے بعد نیند سے جاگے اور مذمتی بیان جاری کیا ۔اگر مولانا کلب جواد نقوی نے وسیم رضوی کی دریدہ دہنی کے خلاف شیعہ و سنی علماء کا مشترکہ اجلاس منعقد نہ کیا ہوتا تو ایسے ’برساتی مینڈھک‘ اپنے بلوں سے باہر نہیں نکلتے ۔یہی وہ لوگ ہیں جو یہ کہتے تھے کہ وسیم رضوی سے مولانا کلب جواد کی ’تحفظ اوقاف ‘ کے مسئلے پرذاتی لڑائی ہے اس لیے اس معاملے سے دور رہناچاہیے ۔مگر کیا ’حرمت قرآن ‘ کی پامالی پر احتجاج کرنا بھی فقط مولانا کلب جواد کا ذاتی مسئلہ ہے؟ ۔کیا یہ بھی ان کی ذاتی لڑائی ہے ؟۔ اپنی ذمہ داریوں سے فرار کرنا اور اپنی بزدلی کو کسی کی ذاتی لڑائی کا نام دیکر چھپانے کی کوشش کرنا ،افسوس ناک عمل ہے جس کی مذمت ہونی چاہیے۔’اجتماعی قیادت‘ کا نعرہ دینے والی ٹولیاں بھی احتجاج سے دورہیں ۔کیا فقط مذمتی بیانات کافی ہیں ؟ اور اس شخص کی دریدہ دہنی کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی ؟ کیا سرکار پراس کی گرفتاری کے لیے دبائو بنانا ضروری نہیں ہے ؟ خودساختہ قائدین کو ان مسائل پر بھی غورکرنا چاہیے اگر انہیں ملت کی ذرا سی بھی فکر ہے ۔
بہرحال! وسیم رضوی کی اس مذموم حرکت نے شیعوں اور سنیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیاہے ۔کہتے ہیں کہ شر میں بھی ایک خیر کا پہلو ہوتاہے اس لیے’ اتحاد امت‘ کا یہ بہترین موقع ہے ۔مولانا سلمان ندوی اس راہ میں پیش رفت کرچکے ہیں ۔انہوں نے’جلسہ تحفظ قرآن‘ میں تقریر کرتے ہوئے امت مسلمہ سےتوحید، قرآن اورپیغمبر حضرت ختمی مرتبتؐ کے نام پر متحد ہونے کی جو اپیل کی ہے وہ قرآن اور سنت کی رو سے اہمیت کی حامل ہے اور اس پر تمام قائدین ملت کو غور کرنا چاہیے ۔رہا دشمنان قرآن اور اسلام کا معاملہ تو انہیں آج بھی قرآن کھلا ہوا چیلینج دے رہاہے کہ اگر تم ہماری حقانیت کے قائل نہیں ہو تو قرآن کا جواب لے آئو!وسیم رضوی سے تواس تناظر میں بات کرنا ہی خلاف عقل ہے لیکن اسکے پس پشت کارفرما طاقتوں کے لیے آج بھی قرآن کا چیلینج موجود ہے ۔لکھنؤ کی چکبست کوٹھی سے لیکر ناگپور کے زعفرانی اڈّے تک ،جسے بھی اپنی علمی لیاقت پر اعتماد ہے وہ قرآن کی ایک آیت کا جواب لے آئے تاکہ تنازع ختم ہوسکے ۔مگردشمن بھی جانتاہے کہ یہ محال ہے !