-
کیا دنیا کو سناتنی اور آریائی بنایاجاسکتاہے؟
- سیاسی
- گھر
کیا دنیا کو سناتنی اور آریائی بنایاجاسکتاہے؟
735
m.u.h
08/12/2023
1
0
تحریر: عادل فراز
آرایس ایس کی بنیادی شناخت متنازع نظریات اور غیر واضح سماجی خطوط ہیں ،جن کو ہندوستان کی تمام قوموں پر تھوپنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔یہ ایک سیاسی حکمت عملی بھی ہے اور ہندوستان میں موجود دیگر اقوام و ملل کو خوف زدہ کرنے کا منصوبہ بھی ۔ان کے یہاں اکثریت اور اقلیت کی اصطلاح کا وجود نہیں ہے ،کیونکہ ان کے مطابق تمام انسانوں کا خاندان ایک ہے ،یعنی سب ہندو ہیں اور سب کا ڈی این اے ایک ہے ۔ان کا نظریہ ہے کہ تبدیلیٔ مذہب کی بنیاد پر عبادت کے طریقوں میں اختلاف ہوگیاہے ،اس لئے وہ ہندو رسوم و روایات کی بالادستی کے قائل ہیں ۔موہن بھاگوت نے متعدد بار کہاہے کہ دنیا کی فلاح اور نجات کا واحد راستہ ’سناتن دھرم ‘ کی پیروی ہے۔جبکہ وہ اس نکتہ کی وضاحت نہیں کرتے کہ ’سناتن دھر م‘ کتنا قدیم ہے اور اس کے ماننے والوں کے بنیادی نظریات میں امتداد زمانہ کے ساتھ کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ۔اگر ’سناتن دھرم ‘ دنیا کا قدیم مذہب ہے تواس کی تضعیف کے اسباب کیاتھے ؟ اور کیوں ہندوستان کے باہر اس کے متعلق زیادہ گفتگو نہیں ہوتی؟جب کہ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہے ’سناتن ‘ ایک قدیم مذہب ہے جس کااشارہ قرآن مجید میں ’دین القیم ‘کے ذیعہ کیاگیاہے ۔اس کا اعتراف بعض مورخین اور مفسرین نے بھی کیاہے ،جس پر الگ سے بحث کی جاسکتی ہے ۔یہ ایک اختلافی اور طولانی بحث ہے جس کو اس مختصر مضمون میں پیش نہیں کیاجاسکتا۔البتہ اتنا ضرور کہاجاسکتاہے کہ داراشکوہ اس حقیقت کو باور کرچکاتھا ،اس لئے اس نے اُپنشدوں کا ترجمہ کیا اور مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اُپنشد آسمانی صحائف ہیں ،جن کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہواہے ۔افسوس اس کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا جبکہ آج سنگھ ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت داراشکوہ کے آثار اور نظریات کا احیا کررہاہے ،جس کے لئے اس کے نام پر متعدد ادارے اور تنظیمیں قائم کی جارہی ہیں ۔
موہن بھاگوت نے حال ہی میں ایک کانفرنس میں کہاتھاکہ ہم دنیا کو آریائی بنانا چاہتے ہیں ،جبکہ انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ اس کے لئے وہ کونسی حکمت عملی اختیار کررہے ہیں اور اب تک کیا پیش رفت ہوچکی ہے ۔تھائی لینڈ کے دارالخلافہ بنکاک میں ’وشو ہندو کانگریس کانفرنس ۲۰۲۳‘ سے خطاب کرتے ہوئے موہن بھاگوت نے ان خیالات کا اظہار کیاتھا ۔انہوں نے کہاکہ ’’ لوگ مادی خوشی کے تمام ذرائع پر قبضہ کرنے کے لئے ایک دوسرے سے لڑنے اور غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ہم نے اس کا تجربہ کیاہے ‘‘۔بھاگوت کی اس رائے سے اختلاف نہیں کیاجاسکتا کہ ہر طاقت مادی ذرائع پر قبضہ کرنے اور اپنے جغرافیائی حدود کی توسیع کے لئے سرگرم عمل ہے ۔اس کی تازہ مثال اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ ہے ،جس کا ایک بڑا مقصد ’گریٹر اسرائیل ‘ کی تشکیل ہے ۔اس سے پہلے عراق پر امریکی حملے کو بطور مثال پیش کیاجاسکتاہے ۔امریکہ نے صدام حسین پر یہ الزام عائد کیاتھا ،کہ اس کے پاس جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے ۔اس بہانے امریکہ نے عراق پر حملہ کردیا ،جس کے نتیجے میں عراق کا اقتصادی اور معاشی ڈھانچہ بری طرح متاثرا ہوا،اس پر بے گناہ عوام مارے گئے وہ الگ ۔اس جنگ کے بعد عالمی ایجنسیوں کی رپورٹ میں امریکی الزمات کو بے بنیاد اور جھوٹ پایا گیا،لیکن عراق پر حملے کے مجرموں پر کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی ۔حقیقت یہ تھی کہ امریکہ عراق پر حملے کے بہانے ’تیل کے قدرتی ذخائر ‘پر قبضہ کرنا چاہتا تھا،جس میں وہ کامیاب بھی رہا ۔شام پر ’داعش کی دہشت گردی ‘ کے بہانے جنگ تھوپی گئی ،اس جنگ کا مقصد بھی ’تیل ‘ کے ذخائر کو حاصل کرنا تھا،ورنہ دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ ’داعش ‘ کو کس نے اور کس لئے جنم دیا تھا ۔لیکن دنیا کا منافقانہ کردار اور استعماری طاقتوں کے سامنے اس کی بے بسی نے کبھی حقائق کو سامنے نہیں آنے دیا۔موہن بھاگوت کا یہ کہنا کہ’ ہم نے متعدد بار اس کا تجربہ کیاہے‘ ،ایک تلخ حقیقت ہے ۔دراصل وہ مسلمانوں کے ہندوستان پر حملوں کی طرف اشارہ کررہے تھے ،جس میں محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے سے لیکر مغلوں کی فوج کشی اور ہندوستان کے اقتدار پر غلبے کی طرف اشارہ کیاگیاہے ۔اس تلخ تجربے میں برطانوی سامراج کے اقتدار کو بھی فراموش نہیں کیاجاسکتا۔
موہن بھاگوت یہ کہتے ہیں کہ ’دنیا ایک خاندان ہے اور ہم سب کو آریائی بنانے کی کوشش کریں گے ‘، ناقابل عمل اور خود فریبی پر مبنی بیان ہے۔کیا بھاگوت تاریخی تناظر میں عالمی سطح پر یہ بات منواسکتے ہیں کہ پوری دنیا ایک خاندان ہے ؟جبکہ آریوں سے پہلے بھی الگ الگ قوم و قبیلے موجود تھے اور جہاں جہاں آریوں نے ہجرت کی ،ان علاقوں میں پہلے سے مختلف قومیں آباد تھیں ۔اگر آریوں نے ان علاقوں میں فلاح و بہبود اور پسماندہ قوموں کی نجات کے لئے ہجرت کی تھی ،توپھر آریوں کے زیر اقتدار علاقوں میں طبقاتی نظام کیسے وجود میں آیا؟کیونکہ ہندوستان میں آریائی لوگ حملہ ور کی حیثیت سے داخل ہوئے تھے ،یہ الگ بات کہ یہ جنگ جغرافیائی حدود کی توسیع کے لئے نہیں تھی بلکہ زندہ رہنے کی تگ و دو کا حصہ تھی ۔روس کی وسیع چراگاہوں میں جب آریوں کے مختلف قبائل کے درمیان چراگاہوں کی تقسیم پر جھگڑے شروع ہوئے ،تو انہوں نے مختلف علاقوں کی طرف ہجرت کی ۔ایران اور اس کے اطراف و جوانب میں ہجرت کے وجوہات ’چراگاہوں ‘ کے جھگڑے نہیں تھے ،بلکہ زُرتشت کے افکار ونظریات کی بناپر اس کے حامیوں کو ہجرت پر مجبور ہونا پڑاتھا۔
آریائی نظریات اور ان کے بنیادی عقائد سے متعلق مورخین نے بہت کچھ تحریر کیاہے ،جنہیں اس مختصر مضمون میں بیان نہیں کیاجاسکتا ۔مورخین کی آراء اور بیانات سے اختلاف کیاجاسکتاہے ،لیکن جو مذہبی اور تہذیبی وراثت آریوں نے چھوڑی ہے ،جس کی پیروی آج تک کی جارہی ہے ،یا یوں کہاں جائے کہ ہندوستان پر اس تہذیب اور عقیدے کو تھوپنے کی مسلسل کوشش کی جاری ہے ،اس پر مباحثے اور مذاکرے کا انعقاد کیاجاسکتاہے ۔لیکن سنگھ مکالمے اور مذاکرے میں یقین نہیں رکھتا کیونکہ ان کی ایک مستقل ذہنیت اور طے شدہ حکمت عملی ہے ،جس کے خلاف وہ خود بھی نہیں جاسکتے ۔جبکہ ان کے آلۂ کار جو مسلمانوں کے درمیان موجود ہیں ،وہ مسلسل مکالمے کی دعوت دیتے رہتے ہیں ۔اس کے لئے متعدد تنظیمیں بن چکی ہیں جن کے ذریعہ’ انٹر فیتھ کانفرنسوں‘ کا انعقاد ہوتا رہتاہے ۔ان کانفرنسوں میں بھی سنگھ سناتن دھر م کی برتری اور اپنے طے شدہ ایجنڈے کو فروغ دیتاہے ،جس میں وہ علما اور دانشوروں کا سہارا لے کر عام مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔ظاہر ہے مسلمانوں کو گمراہ کرنے یا انہیں اپنے ایجنڈےکی طرف راغب کرنے کے لئے براہ راست وہ ان کے درمیان جانے سے گریز کرتاہے ،اس کے لئے مسلمانوں کے درمیان سے افراد کا انتخاب کیاجاتاہے ،جیساکہ ہم دیکھ رہے ہیں ۔اگر سنگھ ’سناتن دھرم ‘ اور ’آریائی روایات ‘ کو دنیا کی نجات کا ذریعہ مانتاہے ،تو اس کے لئے اسے مسلسل اور علیٰ الاعلان جدوجہد کرنا چاہیے ۔ساتھ ہی یہ بھی واضح کرنا چاہیے کہ ’سناتن دھرم ‘ کے عقائد اور ’آریائی روایات‘ کے درمیان کیا مطابقت اور مماثلت پائی جاتی ہے ،کیونکہ آریوں کا تعلق ’سناتن دھرم‘ سے تھا،اس پر کافی تاریخی شواہد موجود نہیں ہیں ۔ممکن ہے کہ یہ دعویٰ برہمنوں کی بالادستی قائم رکھنے کی ایک سعی ہو،جو آریائی روایات کی بنیاد ہے ۔
اس موقع پر یہ سوال پیداہوتاہے کہ ’سناتن دھر م‘ کے نظریات کو نجات کا ذریعہ تسلیم کیاجائے یا ’آریائی روایات ‘ پر عمل کیاجائے ۔کیونکہ سناتن دھرم اور آریائی روایات کے درمیان موجود فرق کو واضح کرنا سنگھ کی ذمہ داری ہے ،ہماری نہیں ۔دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ آریوں کے عقائد کو ویدوں کے ذریعہ سمجھاجاسکتاہے اور سناتن دھر م کو منو سمرتی کے ذریعہ ۔آریوں نے ہندوستان میں طبقاتی نظام کو جنم دیا تھا جو آج تک ہندوستان کی ترقی میں رکاوٹ بنا ہواہے ۔کیا سنگھ اس طبقاتی نظام کو ختم کرکے ہندوستان کی ترقی میں اہم پیش رفت کرسکتاہے ؟ ظاہر ہے یہ ممکن نہیں ہے ۔کیونکہ پوری دنیا کو آریائی بنانے کا خواب دکھانے والے لوگ کبھی طبقاتی نظام کو ختم نہیں کرسکتے ۔اگر طبقاتی نظام کو ختم نہیں کیاجاسکتا تو پھر یہ کیسے کہاجاسکتاہے کہ تمام انسان ایک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ؟ایک خاندان سے تعلق کا مطلب یہ ہواکہ تمام انسان برابر ہیں ۔برابری کا یہ تصور نہ ویدوں میں موجود ہے اور نہ منوسمرتی میں ۔توپھر موہن بھاگوت دنیاکو کن بنیادوں پر آریائی بناناچاہتے ہیں ،یہ ایک بڑا سوال ہے ۔