رویش کمار
نہ تو رام کا نام لینے پر روک ہے نہ رام نومی کا جلوس نکالنے پر. اس سے پہلے کہ کئی ضلعے جل اٹھیں، یہاں رک کر سوال کرنا ضروری ہے کہ کہیں رام نومی کے نام پر گاؤں، شہروں اور قصبوں میں فساد پھیلانے کی کوشش تو نہیں کی جا رہی ہے. ان جلوسوں میں رام جی کے نعرے کم لگتے ہیں، سیاسی ہو چکے نعرے زیادہ لگنے لگے ہیں. لیڈروں کو لگتا ہے کہ اس سے پہلے کہ لوگ روزگار، ہسپتال کے سوال پوچھیں، ان کو رام کے نام پر راستہ دکھا دو. ہم سب نے رام نومی دیکھی ہے، مگر اب ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ نوعمر لڑکوں کے ہاتھ میں موٹی موٹی تلواریں ہیں، ان کی زبان پر بھکتی کے نام پر سیاسی نعرے ہیں. جس طرح رام نومی کے نام پر کوشش ہو رہی ہے، ا سے صاف نہیں کیا گیا تو پچھتانے کا بھی موقع نہیں ملے گا. غنیمت ہے کہ زیادہ تر جگہوں پر ہندو اور مسلمانوں نے جلوس کی آڑ میں کھیلی جا رہی سیاست کو سمجھ لیا اور بھائی چارے کی مثال قائم کی پھر بھی اس ملک میں کسی کی جلوس پر کچھ بھی پھینک دینے سے شہر کے شہر جلانے کی مثالیں رہی ہیں. بہار اور بنگال جس آگ سے گزرے ہیں وہ میڈیا میں نہیں آرہا ہے، اس احتیاط کے ساتھ کہ بھکتی کی آڑ میں فساد پھر نہ پھیلے. مگر وهاٹس اپ یونیورسٹی کی دنیا میں خوب چل رہا ہے. آپ ہی بتائیے کہ اس وقت رام نومی کا جلوس کی پاکیزگی کیا رہ جاتی ہے جب شوبھا یاترا میں ایک قاتل کی جھانکی بنائی جاتی ہے. کیا ہم رام کی عبادت کو اس سطح پر لے آئیں گے.
راجستھان کے جودھپور میں رام نومی کے موقع پر جلوس نکلا، اس جلوس میں 325 دیوی دیوتاؤں کی جھاكياں تھیں، مگر اس میں اس کی جھانکی کیا کر رہی ہے. کیا یہ شخص خدا ہو گیا ہے. جس کا بھارت کی عدالت میں قتل کا مقدمہ چل رہا ہے کیا وہ دیوتاؤں کی جھانکی کے درمیان جگہ پائے گا. آپ کو یاد آہی گیا ہوگا. یہ جھانکی اس قاتل ملزم کی ہے جس نے گزشتہ دسمبر میں ایک مسلمان مزدور کو ظالمانہ طریقے سے قتل کیا تھا، پھر اس کی لاش کو جلایا اور اس سب کا ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈالا اور اپنے آپ کو لَو جہاد روکنے کا چیمپین گھوشت کر ڈالا۔ اس کے بعد الگ الگ نام کی ویب سائٹس پر خود کو ہندوؤں کا بادشاہ بتانے کی کوشش کی. شمبھولال ریگر نام کا یہ آدمی اب جیل میں ہے لیکن باہر اس طرح اس کی جھانکی نکلی. ایک آدمی اس جیسی شکل بنا کر ایک تخت پر بیٹھا اور ہاتھ میں کلہاڑی پکڑی. سامنے زمین پر ایک دوسرے آدمی کو پٹتے ہوئے دکھایا گیا. جلوس وشو ہندو پریشد کا تھا اور جھانکی شیوسینا کے ایک کارکن نے بنوائی.
کیا یہ ضروری تھا؟ کیا رام جی کی بغل میں ایسے لوگ بیٹھیں گے؟ سوچئے ایک بار، ہم کس سطح پر پہنچ رہے ہیں. جو شخص اس جھانکی میں شمبھولال بنا اس کا نام سریش ہے اور وہ تیس سال کا ہے. بے روزگار ہے، بجلی کا کام کرتا ہے اور 500 روپے کے لیے وہ شمبھولال ریگر بن گیا کیونکہ اس کی شکل اس سے ملتی ہے. لیکن ہماری ساتھی هرشا کماری سنگھ سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ وہ شیوسینا کا حصہ نہیں ہے، اس نے پیسے کے لئے یہ کام کیا. سوچئے پیسے لے کر یہ تو کام کر گیا. مگر اس کے ایسا کرنے سے یا اس سے ایسا کروانے سے کسے چیلنج دیا جا رہا تھا؟ جب اس سوال پر سوچیں گے تو پتہ چلے گا کہ نیت کچھ اور ہے.
هرشا نے بتایا کہ جب اس جھانکی کو لے کر تنازعہ ہونے لگا، تو یہ نوجوان کچھ اور ہی کر رہا تھا. شاید وہ بھی اپنے لئے اس فساد میں جگہ بنا رہا تھا. جلوس منعقد کرنے والی تنظیم وشو ہندو پریشد کے رہنماؤں کے بھی تیور ایسے ہی نظر آئے. وہ کہہ رہے ہیں کہ شمبھو اب مجرم نہیں ہے مگر جیل میں تو ہے. تو کیا اسے وہ کرشن مان لیں گے. کیا انہیں اس کے چھوٹنے کا انتظار نہیں کرنا چاہئے، کیا انہوں نے شمبھو کا ویڈیو نہیں دیکھا ہوگا جس میں وہ قتل کر رہا ہے.
رام نومی کے جلوس میں بھگوان رام اور سیتا اور ساتھ میں دیگر دیوی دیوتاؤں کی جھاكياں نکالی جاتی ہیں لیکن جودھپور کی یہ جھانکی اس روایت کو منہ چڑھاتي نظر آئی، لوگوں کو مذہب کے نام پر اکساتی نظر آئی. شمبھو لال ریگر نے خود کو لو جہاد کے خلاف ایک دیوتا بتانے کی کوشش کی تھی اور اس جھانکی میں بھی وہی کوشش پھر نظر آئی. گزشتہ دنوں اسی شمبھو لال ریگر کی ایک اور ویڈیو سامنے آئی تھی، جس میں وہ جیل میں بیٹھا ہندو مذہب کے نام پر لوگوں کو اکسانے کی کوشش کر رہا تھا. اکسانے بھڑکانے والے ہر جگہ فعال ہو رہے ہیں. وہ بس موقع ڈھونڈ رہے ہیں. مغربی بنگال میں بھی مذہب کے نام پر لوگوں کو بانٹنے کی سیاست اپنے عروج پر ہے. رام نومي جیسے مقدس تہوار، لوگوں کو بھڑکانے والوں کے لئے ایک موقع بن رہے ہیں.
بنگال کے رانی گنج کی ہِل بستی میں یہی ہوا. یہاں سالوں سے مندر – مسجد آس پاس رہے ہیں اور مذہب کے نام پر یہاں کبھی ایسا تعصب نہیں دیکھا گیا۔ لیکن اس بار رام نومی کا ایک جلوس مسلم اکثریتی علاقے سے کیا گزرا، دو دھڑوں کے درمیان تشدد شروع ہو گیا. دیکھتے ہی دیکھتے کچھ دکانوں کو آگ لگا دی گئی. تشدد میں ایک گاؤں والے کی موت ہو گئی، تین پولیس اہلکار زخمی ہو گئے. تشدد کرنے والوں نے کئی موٹر سائیکلوں کو آگ لگا دی اور مقامی بازار میں پولیس والوں پر حملہ کیا. پرتشدد واقعہ میں آسن سول، درگاپور کے ڈپٹی کمشنر ارندم دتہ چودھری زخمی ہو گئے. فسادیوں کے پھینکے ایک بم سے ان کا ایک ہاتھ چلا گیا. ہسپتال میں ان کی حالت تشویش ناک ہے. واقعہ کے بعد ڈرے ہوئے کئی لوگ علاقہ چھوڑ کر جا رہے ہیں. سارا معاملہ ایک فارمولے کی طرح ہوتا ہے. مقامی سطح پر کشیدگی کو بھڑکانا اور پھر اس بحث اور بیان بازی کے ذریعہ بڑی سطح پر لے جانا تاکہ بحث کے نام پر لوگوں کا خرچہ چلتا رہے.
اس کھیل کے کھلاڑیوں کو معلوم ہے، رام کا نام لے کر کچھ بھی کیا جا سکتا ہے. بحث جیتی جا سکتی ہے یا ہارنے پر اس شرط پر جیتی جا سکتی ہے کہ کیا اس ملک میں رام کا نام لینا گناہ ہے. مگر جو طریقہ ہے اس کے پیچھے کی نیت ہے اس کو احتیاط سے دیکھئے. بنگال کے پرولیا میں بھی رام نومي کے موقع پر نکلے جلوس کے بعد جھڑپ شروع ہو گئی. اس جھڑپ میں ایک شخص کی موت ہو گئی اور پانچ پولیس اہلکار زخمی ہو گئے. پولیس کے مطابق حکومت کی پابندی کے باوجود بی جے پی حامیوں نے کئی جگہ تلوار ہاتھ میں لے کر جلوس نکالے.
مرشدآباد کے كانڈي میں بھی رام نومي کے موقع پر ایک مسلح ہجوم پولیس تھانے میں گھس گیا. پولیس کو جوابی کارروائی میں لاٹھی چارج کرکے مشتعل ہجوم کو وہاں سے بھگانا پڑا. بردھمان میں رام نومي کے موقع پر ایک پوجا پنڈال پر حملہ ہوا. رام نومي ویسے مغربی بنگال میں کبھی بڑا تہوار نہیں رہا لیکن گزشتہ دو سال سے بی جے پی اور اس سے جڑی تنظیمیں اس موقع پر اپنی موجودگی درج کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہیں. ادھر بہار کے اورنگ آباد میں رام نومي کے جلوس کے بعد پیر کی دوپہر فرقہ وارانہ جھڑپیں ہوئیں.
بتایا گیا کہ رام نومي کے جلوس پر شہر کے نواڈي علاقے میں پتھر بازی کی گئی جس کے بعد تشدد شروع ہوا. تشدد کے دوران پرانے جی ٹی روڈ پر قریب پچاس دکانوں کو فسادیوں نے آگ لگا دی. ان پرتشدد جھڑپوں میں ساٹھ سے زیادہ افراد زخمی ہو گئے جن میں بیس پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جو پتھر بازی میں زخمی ہوئے. تشدد روکنے کے لئے پولیس کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دیا گیا اور علاقے میں کرفیو لگا دیا گیا. منگل کو بھی یہاں کشیدگی بنی ہوئی تھی اگرچہ کرفیو ہٹھا لیا گیا. پھر بھی کافی کم ہی لوگ سڑکوں پر اترے. سیکورٹی فورسز کی بھاری تعیناتی کی وجہ سے کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا. اورنگ آباد کے تشدد میں بی جے پی کے مقامی رہنما سشیل سنگھ کا کردار مشتبہ بتایا جا رہا ہے جو عمل کے رد عمل کی بات کر رہے ہیں۔
اسی کو میں ہندو مسلم ڈبیٹ کہتا ہوں. تاکہ ماحول گرم رہے. بحث چلتی رہے. رام نومي مبارک، رام کے نام پر جو یہ سب کیا جا رہا ہے، اس کے لئے مبارک باد بالکل نہیں.
مترجم: محمد اسعد فلاحی
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)