-
تیسرا مرحلہ بھی پہلے اور دوسرے کا ایکسٹنشن
- سیاسی
- گھر
تیسرا مرحلہ بھی پہلے اور دوسرے کا ایکسٹنشن
505
M.U.H
25/02/2022
0
0
تحریر: اعظم شہاب
کرن ارجن فلم کا مشہور مکالمہ ’ٹھاکر تو گیو‘ بھلا کس نے نہیں سنا ہوگا۔ اترپردیش میں تیسرے مرحلے کی رائے دہی کے بعد معلوم نہیں، کیوں کچھ لوگ سوشل میڈیا پر مذکورہ مکالمے کا استعمال نہایت شدت سے کرنے لگے ہیں، بس اس تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ کہ ’ٹھکور‘ کی جگہ ’یوگی‘ لکھ رہے ہیں۔ ویسے بھی اگر کرن ارجن فلم کے ٹھاکر سے یوگی جی کی تشبیہ دی جا رہی ہے تو اس میں کچھ قباحت بھی نہیں۔ کیونکہ گزشتہ پانچ سالوں میں اترپردیش میں ٹھاکروں اور راجپوتوں کے ہی تو وارے نیارے رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یوگی جی کے دور میں ملائی صرف برہمنوں اور ٹھاکروں کے ہی حصے میں آتی رہی ہے، بقیہ دلت و دیگر پسماندہ طبقات کے لوگ ’لابھارتی‘ بنتے رہے۔ ان لابھارتیوں کے تعلق سے بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ یوپی چناؤ میں وہی اس کی نیا پار لگائیں گے۔ لیکن آج تیسرے مرحلے کی رائے دہی کے بعد جو تصویر سامنے آرہی ہے، اس میں یہ ’لابھارتی‘ بھی بی جے پی کو کچھ زیادہ ’لابھ‘ نہیں پہنچا پائے۔ کیونکہ خبر یہ آرہی ہے کہ جس طرح پہلا اور دوسرا مرحلہ بی جے پی کے لئے پریشان کن رہا ہے اسی طرح یہ تیسرا مرحلہ بھی رہا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو تیسرا مرحلہ پہلے اور دوسرے کا ایکسٹنشن ہی بن جاتا ہے۔
نتیجے تو ویسے 10؍مارچ کو آئیں گے لیکن بی جے پی خیمے کی مایوسی اس کی ہزیمت کا واضح اشارہ دے رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اب اس کے بعد کے دیگرمراحل کے انتخابات بی جے پی کے لئے دشوار ہوسکتے ہیں، جہاں اب صرف ذات برادری کی ہی بنیاد پر ووٹنگ ہونے والی ہے۔ پہلا مرحلہ جاٹ لینڈ کا تھا جہاں بی جے پی سے کسانوں کی ناراضگی کھلے طور پر دیکھی گئی۔ راکیش ٹکیت اور دیگر کسان لیڈروں کی بی جے پی کو سبق سکھانے کی اپیل نے خاطرخواہ اثر دکھایا تھا۔ جینت چودھری کی مقبولیت اور حکمت عملی نے بھی اپنا کام خوب کیا۔ پہلے مرحلے میں جن 58سیٹوں پر انتخاب ہوئے ان میں سے گزشتہ اسمبلی میں بی جے پی کے پاس 53 سیٹیں تھیں۔ لیکن اس بار ووٹروں کے رجحان کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جارہا ہے کہ ان 58 میں سے بی جے پی کو اگر بہت زیادہ سیٹیں مل گئیں تو وہ 20 سے زائد نہیں ہوں گی۔
اس کے بعد دوسرا مرحلہ مسلم اکثریتی علاقوں کا تھا جہاں 55 سیٹوں پر انتخاب ہوئے۔ 2017 کے اسمبلی میں بی جے پی کو ان 55 میں سے 35 سیٹیں ملی تھیں جو مسلم ووٹوں کی تقسیم کا نتیجہ تھیں۔ اس بار کے الیکشن میں بھی بی جے پی کو مسلم ووٹوں کی تقسیم کی امید تھی لیکن اتفاق سے ان علاقوں میں مسلمانوں میں اس بار مغربی بنگال کے پیٹرن پر ووٹ ڈالا۔ یعنی بی جے پی امیدوار کوشکست دے سکنے والے امیدواروں کو ووٹ دیا، پھر بھلے وہ کسی بھی پارٹی کا ہو۔ ظاہر ہے مسلمانوں کے اس اتحاد نے مقابلے کو دو طرفہ ہی رکھا۔ ایسی صورت میں بی جے پی کے مقابلے میں سماج وادی کا ہی امیدوار تھا اس لئے اس اتحاد یعنی سماج وادی کو خاص فائدہ پہنچتا نظر آرہا ہے۔ دو مرحلوں کے انتخاب کے بعد سماج وادی کے رہنما اکھلیش یادو نے تو اعلان بھی کر دیا کہ سماج وادی کو سو سیٹیں حاصل ہو رہی ہیں۔ پھر بھی اگرذرا احتیاط سے کام لیا جائے تو بھی کم ازکم 75 سیٹوں سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی بی جے پی کو ان دونوں مرحلوں میں 70 فیصد کا نقصان ہوتا نظر آرہا ہے جو اس کے اقتدار تک پہنچنے میں بہت بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ 2017 میں انہیں دونوں مرحلوں کی سیٹوں نے بی جے پی کو تاریخی کامیابی تک پہنچایا تھا۔ لیکن اس بار ایسا لگ رہا ہے کہ یہی دونوں مرحلے اسے اقتدار سے بے دخل کرنے میں اہم کردار بھی نبھائیں گے۔ ابتدائی دونوں مرحلوں میں بی جے پی کی کمزور پوزیشن کا اندازہ سنگھ کو بھی بخوبی ہے۔ شاید یہی وجہ رہی کہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کو اپنے کارکنان کو دوسرے مرحلے کے بعد متحرک ہوجانے کی ہدایت دینی پڑی۔ موہن بھاگوت کی اس اپیل کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ پہلے دونوں مرحلے میں ان کے کارکنان متحرک نہیں تھے۔ اگرایسا تھا تو پھر اس کا مطلب یہی ہے کہ یوگی جی کو گورکھپور بھیجنے میں ناگپور کی منشاء بھی ہے۔ تیسرے مرحلے میں 16؍اضلاع کی جن 59سیٹوں پر انتخاب ہوئے، ان میں سماج وادی کو زبردست اکثریت ملنے کی امید ہے۔ انہیں میں وہ کرہل کی سیٹ بھی آتی ہے جہاں سے اکھلیش یادو امیدوار رہے۔ انہوں نے جسونت نگر میں حقِ رائے دہی کا استعمال کرنے کے بعد جو باتیں کہیں ہیں وہ ان کے جوش وجذبے کی غمازی کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’بی جے پی کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے۔ یوپی کے کسان اسے معاف نہیں کریں گے۔ ہم نے پہلے دومرحلوں میں سنچری بنائی ہے اور اس مرحلے میں بھی ایس پی و اتحاد سب سے آگے رہے گا‘۔ دوسری جانب بی جے پی کے خیمے میں سناٹا پسرا ہوا ہے۔ یہ سناٹا اس بات کی چغلی کھانے کے لئے کافی ہے کہ آر ایس ایس کی سربرہ کی اپیل اور سنگھ کے کارکنان کے متحرک ہوجانے کے باوجود لوگوں نے بی جے پی کو بری طرح مسترد کر دیا ہے۔
تیسرے مرحلے کا انتخاب بھی اتفاق سے دورخی مقابلے کا رہا۔ یعنی ایک جانب اگر بی جے پی تھی تو دوسری جانب سے سماج وادی اور اتحاد۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ ووٹوں کی تقسیم کا امکان نہ کے برابر ہو جاتا ہے۔ بی ایس پی کے امیدوار بھی کچھ علاقوں میں مضبوط نظر آئے، لیکن ان کی اس مضبوطی سے بھی بی جے پی کو کوئی آکسیجن ملتا نظر نہیں آرہا ہے۔ اس تیسرے مرحلے میں جن جن اضلاع میں انتخاب ہوئے ان میں سے گزشتہ اسمبلی یعنی کہ 2017 میں بی جے پی نے 49 سیٹیں جیت لی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان علاقوں میں بی جے پی کا پولرائزیشن کا کارڈ خوب چلا تھا۔ لیکن اس بار اتفاق سے یہ کارڈ یہاں نہیں چلا اور یہاں ہی کیا؟ پہلے دونوں مرحلوں میں بھی نہیں چلا۔ جبکہ 2012 میں سماج وادی کو ان اضلاع میں 37سیٹ پر کامیابی ملی تھی لیکن 2017 میں وہ سمٹ کر 8 پر پہنچ گئی تھی۔ نقصان تو بی ایس پی کا بھی ہوا تھا کہ اس کی 8 کی تعداد ایک پر پہنچ گئی تھی۔
لیکن اس بار تصویر بالکل الٹی نظر آرہی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ بی جے پی کے پولرائزیشن کو اس بار یہاں کے لوگوں نے قبول ہی نہیں کیا۔ دوسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی کی لاکھ کوشش کے باوجود ان علاقوں کے لوگوں نے مقابلے کو سہ رخی نہیں ہونے دیا۔ اس لئے یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ جس طرح پہلے دونوں مرحلے سماج وادی اور اتحاد کے لئے بھرپور کامیابی کی نوید بن رہے ہیں، اسی طرح یہ تیسرا مرحلہ بھی بی جے پی کے کمل کو بکھیر رہا ہے۔ ان حالات پر اگر غور کیا جائے تو پہلے تینوں مرحلے ہی بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے کافی ہیں۔ ایسی صورت میں ابتدائی تینوں مرحلوں کی رائے دہی کے بعد یہ بات ابھی سے کہی جانے لگی ہے کہ بی جے پی جیت کی ریس سے باہر ہوچکی ہے۔