دنیا کے کئی ممالک اپنے ملک سے روسی سفارتکاروں کو واپس بھیج رہے ہیں جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 60 روسی سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔اس کے ساتھ جرمنی سمیت کئی یورپی ممالک نے بھی روسی سفارت کاروں کو اپنے ملک سے جانے کا حکم دیا ہے۔
اس کی ابتدا برطانیہ نے جنوبی انگلینڈ میں سابق روسی جاسوس پر اعصاب کو متاثر کرنے والے کیمیائی مادے سے حملے کے بعد کی۔ان ممالک کا کہنا ہے کہ اس حملے کے پس پشت روس تھا اور اس نے فوجی زمرے کے اس ممنوع کیمیائی اعصابی ایجنٹ کا استعمال کیا تھا۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ آسٹریلیا نے بھی روس کے خلاف ان ممالک کی حمایت کی ہے۔یہ کہا جا رہا ہے کہ سرد جنگ اور سوویت یونین کے دور کے خاتمے کے بعد یہ روس کے خلاف سب سے بڑے مشترکہ اقدامات ہیں۔
روس کا کہنا ہے کہ وہ بھی جوابی کارروائی کرے گا اور منگل کو روس نے امریکہ پر الزام لگایا کہ وہ دنیا کے بہت سے ممالک پر روسی سفارت کاروں کو نکالنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے امریکہ پر بلیک میل کرنے کا الزام لگایا ہے۔ دریں اثناء 20 ممالک نے تقریباً 100 روسی سفارتکاروں کو اپنے یہاں سے نکالا ہے جسے تاریخ کی سب سے بڑی سفارتی ملک بدری کہا جا رہا ہے۔
شام میں روس کے کردار پر بھی نیٹو ممالک اس سے خفا ہیں۔ روس کی وجہ سے ہی امریکہ شام کے صدر بشار الاسد کو اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود نہیں نکال پایا۔اسی ضمن میں اب روس اور امریکہ کی فوجی طاقت کے بارے میں بات کی جا رہی ہے یعنی آج امریکہ کے مقابلے میں روس کے پاس کتنی فوجی صلاحیت ہے؟
کس کی فوجی طاقت زیادہ ہے؟
دی سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ کی رپورٹ کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں فوجی اخراجات میں 1.2 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں فوجی اخراجات میں 43 فیصد اضافے کے ساتھ امریکہ سر فہرست ہے۔
اس کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے چار مستقل ارکان ہیں۔ تاہم یہ سب ارکان امریکہ کے آس پاس بھی آتے ہیں۔ چین کا اضافہ سات فیصد ہے۔ اس کے بعد، برطانیہ، فرانس اور روس تقریباً چار چار فیصد ہیں۔
تاہم باقی امریکہ اور سلامتی کونسل کے چار رکن ممالک کے فوجی اخراجات میں موجود اس بڑے فرق کو سمجھنا بہت مشکل نہیں ہے۔ امریکہ کی طرح باقی ممالک اپنے فوجیوں کو بین الاقوامی مشن یا فوجی مداخلت میں نہیں شامل کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ امریکہ کی طرح دنیا بھر میں ان کے سینکڑوں فوجی اڈے نہیں ہیں۔ باقی ممالک نے خود کو قومی اور علاقائی فوجی مشقوں تک ہی محدود رکھا ہے۔سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ کی رپورٹ کے مطابق، فوجی اخراجات کے لحاظ سے روس چوتھے نمبر پر ہے۔ روس امریکہ، چین اور سعودی عرب کے بعد آتا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے تجزیہ کار دیمتری گورینبرگ کا کہنا ہے کہ روس نے اپنی فوج کی سنہ 2009 میں جدید کاری شروع کر دی تھی۔ روس سوویت دور کے ہتھیاروں سے چھٹکارا چاہتا تھا اور اس نے تیزی کے ساتھ اس پر عمل کیا۔گذشتہ سال امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے کہا تھا کہ امریکہ کو بنیادی طور پر روس سے خطرہ ہے اور اسے مقابلے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
امریکی فوج اور اس کے فوجی اڈوں دنیا کے بہت سے ممالک میں ہیں اور اس لحاظ سے روس اس کے سامنے کہیں کھڑا نہیں ہوتا۔روسی صدر پوتن نے ایک اطالوی اخبار کے ساتھ انٹرویو میں کہا تھا کہ کہ ‘آپ دنیا کا نقشہ لیں اور اس میں امریکی فوجی اڈوں پر نشان لگائیں اور اسی سے روس اور امریکہ کے درمیان کیا فرق واضح ہو جائے گا۔’
روس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ فوج پر جتنی رقم خرچ کرتا ہے اس سے کم ظاہر کرتا ہے۔ اس کے باوجود دونوں ممالک کے فوجی اخراجات میں بہت فرق ہے۔ جو ملک دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہے اسی کی فوجی طاقت بے مثال ہے۔امریکہ اور روس کے درمیان معاشی خوشحالی کے لحاظ سے بھی کوئی مقابلہ نہیں ہے۔
روس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس دنیا کا سب سے زیادہ طاقتور ایٹمی ہتھیار ہے اور امریکہ کو تباہ کرنے کی صلاحیت ہے۔تاہم دفاعی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صدر پوتن کبھی امریکہ پر حملہ کرنے کا خطرہ مول نہیں لیں گے کیونکہ یہ خودکش قدم ثابت ہو سکتا ہے۔
دونوں ممالک کی سرحدیں نہیں ملتیں اس لیے اگر جنگ ہوئی تو بیرنگ جزیرہ نما اور وسط الاسکا کے ذریعے ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ممالک کو براہ راست ایک دوسرے سے خطرہ نہیں ہے۔
ایئر فورس کے معاملے میں بھی روس امریکہ سے پیچھے ہے لیکن وہ فضائیہ کے آپریشن میں سربیا، عراق، افغانستان اور لیبیا میں امریکہ پر عسکری طور پر بھاری پڑ سکتا ہے۔ تاہم بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سرد جنگ کا وقت اب ختم ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پوتن کی جارحانہ قوم پرستی جنگ تک نہیں جائے گی۔
رواں ماہ روسی صدر پوتین نے کہا تھا کہ روس نے ایسا جوہری میزائل تیار کر لیا ہے جو پوری دنیا میں کہیں بھی کسی بھی ہدف کو نشانہ لگا سکتا ہے۔ پوتن کا دعویٰ ہے کہ اس میزائل کو روک پانا ناممکن ہے۔
روس کے سرکاری ٹی وی پر صدر پوتن نے لوگوں کو ویڈیوز بھی دکھائیں۔ صدر پوتن نے کہا کہ روس ایسے ڈرونز بھی تیار کر رہا ہے جسے آبدوزوں سے لانچ کیا جا سکے۔ اور وہ جوہری حملے کے قابل ہوں۔
صدر پوتن نے مزید کہا کہ روس کی اس نئی میزائل کو یورپ اور ایشیا میں قائم امریکی دفاعی نظام نہیں روک سکتے۔ صدر پوتن نے روسی پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے تقریباً دو گھنٹے تک خطاب کیا۔دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنے جوہری اسلحوں کی جدید کاری کا حکم دے چکے ہیں۔بشکریہ بی بی سی
بشکریہ : ابلاغ