یہ عجیب بات ہیکہ بی جے پی کے لیڈر جب بھی کچھ کہتے ہیں وہ حقائق سے پرے ہوتا ہے۔ ابھی حال ہی میں پارٹی کے صدر امیت شاہ نے ایک جملہ چند صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے گاندھی جی کو ’’چتربنیا‘‘ قرار دیا۔ چتر یا ہوشیار ہونا کوئی عجیب نہیں لیکن صدر بی جے پی کی اس مخصوص و محدود ذہنیت کو کیا کہا جائے جو ذات پات، اعلیٰ ذات اور نچلی ذات، ہندو مسلمان کی ہی اصطلاح میں سوچتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں گاندھی جی ایک، بنیا گھرانے میں پیدا ہوئے تھے جو عموماً تاجر طبقہ ہوتا ہے لیکن انہوں نے کبھی اپنے خاندانی پیشہ سے دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ آنجہانی گاندھی جی کی فکر ان کا فلسفہ وسیع النظری کے حامل تھے۔ انہوں نے کبھی ہندوتوا یا ہندوازم کا سہارا لیکر قوم کی قیادت نہیں کی۔ امیت شاہ کیا جانے کہ گاندھی جی نے نہ صرف ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی دلائی بلکہ سارے ہندوستانیوں کو ایک دھاگے میں پرو کر ہندوستانی قوم بنائی اور اس قوم میں آزادی کا جذبہ و جنون پیدا کیا۔ ہمارے ملک کی آزادی اس تحریک آزادی کی رہین منت ہے جو گاندھی جی نے شروع کی تھی۔ بی جے پی یا سنگھ پریوار کی طرح انہوں نے کبھی ہندوستانی قوم کو ذات، برادری، مذہب اور عقیدہ کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا۔ امیت شاہ نے گاندھی جی کے بارے میں جو کچھ کہا اس پر تبصرہ کرتے ہوئے آنجہانی کے پوتے نے بے حد معقول بات کی ۔ انہوں نے کہا ہیکہ امیت شاہ کا ریمارک مضحکہ خیز ہے اور اگر وہ گاندھی جی زندہ ہوتے تو اس ریمارک کا مذاق اڑاتے‘‘۔ انگریزوں کی ہمارے ملک پر حکومت انتہائی مضبوط تھی۔ عام طور پر کہا جاتا تھا کہ ’’برطانیہ کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا، اتنی بڑی حکومت تھی کہ دنیا کے کسی نہ کسی علاقہ میں ان ہی کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ انگریزی سامراج نے تقریباً ساری دنیا کو گھیر رکھا تھا۔ گاندھی جی کی تحریک آزادی نے جہاں ملک کو غلامی سے آزاد کردیا وہیں ان کے نظریات نے براعظم افریقہ اور ایشیاء کے کئی ممالک میں بھی آزادی کے جذبات جگائے۔ وہ اس صدی کی عظیم شخصیت تھے۔ انہوں نے جنوبی افریقہ میں اپنے قیام کے دوران اس ملک میں بھی آزادی کی لہر دوڑا دی۔ جنوبی افریقہ کے مجاہد آزادی آنجہانی نیلسن منڈیلا، مارٹن لوتھر کنگ مونیر جیسے عالمی سطح کے لیڈر پیدا کئے اور گاندھی جی کا شمار 20 ویں صدی کی قابل احترام شخصیتوں میں ہوتا ہے جن میں مشہور سائنسدان آنسٹاٹن بھی شامل ہیں۔ امیت شاہ کو کیا پتہ کہ جس گاندھی جی کو وہ ’’چتربنیا‘‘ کہہ رہے ہیں وہ ان کی تنگ نظری اور عصری تاریخ سے ناواقف ہونے کا ثبوت ہے۔ اصل بات یہ ہیکہ گاندھی جی اور تحریک آزادی کے ان کے ساتھی بے حد وسیع النظر تھے۔ وہ سب اور گاندھی جی بطور خاص وسیع اور بڑے ذہن کے مالک تھے۔ اب یہ ہمارے دور کی تاریخ کا المیہ ہی سمجھئے کہ آج اقتدار پر ایسے افراد ایسا گروہ فائز ہے جو بے حد تنگ نظر اور کوتاہ ذہن رکھتا ہے۔ قدرت کا یہ بھی مسلمہ اصول ہیکہ کبھی کوئی چھوٹا ذہن بڑا نہیں ہوسکتا اور کوئی بڑا ذہن چھوٹا نہیں ہوسکتا ہے۔ امیت شاہ اور ان کی پارٹی کی ذہنیت ہی مختلف ہے۔
ظاہر ہیکہ ایسی تنگ ذہنیت کسی بڑے ذہن کے نظریات اور فلسفہ سے اتفاق نہیں کرسکتی۔ گاندھی جی کے فلسفے کا اہم عنصر یا پہلو عدم تشدد تھا۔ وہ اس نظریہ پر قائم رہے اور اس سے انہوں نے جنگ آزادی جیتی۔ ساری ہندوستانی قوم جانتی ہیکہ گاندھی جی کو کس نے قتل کیا تھا۔ وہ یہی تنگ نظر لوگ تھے جو آج بڑی شان سے اقتدار پر فائز ہیں۔ یہی آر ایس ایس تھی جس کو گاندھی جی کا عدم تشدد اور ہندو مسلم اتحاد قطعی پسند نہیں تھا۔ آخرکار گاندھی جی کو آر ایس ایس کے ورکر ناتھورام گوڈسے نے سینہ پر گولیاں چلا کر قتل کردیا۔ جس وقت آنجہانی گاندھی اور ان کے ساتھی انگریزوں اور اس سامراج کے خلاف جدوجہد کررہے تھے یہ آج گاندھی جی پر تنقید کرنے والے انہیں چتربنیا کہنے والوں کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ امیت شاہ تو بہت چھوٹے قد کے لیڈر ہیں، بی جے پی کے کسی بڑے لیڈر نے کبھی اس تحریک میں حصہ نہیں لیا۔ جس وقت آزادی کی شمع روشن کرنے کی گاندھی جی اور کانگریس پارٹی جدوجہد کررہے تھے۔ انگریز حکمرانوں کے ظلم و ستم کو برداشت کررہے تھے۔ وطن عزیز کی آزادی کیلئے جان عزیز قربان کررہے تھے ان میں وہ مسلم علمائے دین اور قائدین بھی شامل تھے جنہیںآج امیت شاہ اور ان کی پارٹی ملک دشمن قرار دے رہی ہے۔ سابقہ جن سنگھ یا موجودہ بی جے پی کے لیڈر اس شمع آزادی کو اپنی بزدلی کی پھونک سے بجھا رہے تھے۔ عصری تاریخ میں یہ سب کچھ ثبوت کے ساتھ موجود ہے۔ آج چھوٹا منہ اور بڑی بات کرنے والی بی جے پی اور اس کے صدر ان تاریخی حقائق کو جھٹلا رہے ہیں۔ کانگریس کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ پارٹی ایک خاص مقصد یعنی وطن کی آزادی کیلئے بنی تھی اور اس کا نہ تو کوئی نظریہ تھا اور نہ کوئی سیاسی فکر تھی۔ بھرپور جھوٹ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ کانگریس پارٹی نے گاندھی جی اور پنڈت جواہر لال نہرو مولانا آزاد اور لال بہادر شاستری کی سرپرستی میں آزادی کی جدوجہد شروع کی تھی اور اس کو انجام تک پہنچایا تھا لیکن حصول آزادی کے بعد نئے ہندوستان کی تعمیر کا خاکہ بھی اس کانگریس پارٹی نے تیار کیا تھا۔ ملک کو سیکولر بنانے جمہوریت کی جڑوں کو مضبوط کرنے زرعی ہندوستان کو ترقی یافتہ صنعتی ملک بنانے میں بی جے پی کا کوئی حصہ نہیں اور نہ ہی آر ایس ایس نے کوئی خدمت انجام دی۔ آج کا ہندوستان دنیا کے بے حد ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے تو اس کی بنیاد بھی کانگریس پارٹی نے رکھی تھی۔ آزادی کی جدوجہد میں سنگھ پریوار کا کوئی رول نہیں تھا۔ ایسے نازک اور آزمائشی دور میں انگریز آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف سنگھ پریوار، بی جے پی اس کے صدر امیت شاہ کو کوئی حق نہیں کہ وہ گاندھی جی پر اس قسم کی تنقید کریں۔ گاندھی جی نے ہندوستانی قوم کی جو خدمات انجام دیں وہ ناقابل فراموش ہے۔