-
یہ سیاسی طلاق ہے!
- سیاسی
- گھر
یہ سیاسی طلاق ہے!
1531
m.u.h
04/01/2019
0
0
منصور عالم قاسمی
اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے، یہ محض دو افراد کا سماجی بندھن، شخصی ضرورت، خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں ہے ؛بلکہ یہ نسل انسانی کی بقا و تحفظ، نگاہ کی حفاظت، انبیاء کرام کی سنت اور عبادت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے نکاح کیا اس نے آدھا ایمان مکمل کرلیا اور چاہئے کہ باقی آدھے میں اللہ سے ڈرے، ، ۔ اللہ جل جلالہ نے نکاح کو قلبی سکون اور ذہنی اطمینان کا سبب بنایا اوربتایاہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :وہی اللہ جس نے ایک جان سے تم کو پیدا فرمایا اور پھر اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے (الاعراف:۱۸۹) دنیامیں کوئی قوم ہو، کسی مذہب کے پیروکار ہو، مہذب سماج میں زندگی بسر کر رہا ہو یا قبائلی علاقوں میں، مقررہ رسم و رواج کے بغیر مردو عورت کا آپسی تعلقات قائم کرنا اخلاق سے گری ہوئی بات سمجھی جاتی ہے بلکہ جرم عظیم سمجھا جاتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ازدواجی زندگی ہمہ وقت پھولوں کی سیج نہیں ہوتی ہے، ہمیشہ خوشگوار نہیں رہتی ہے۔ اللہ نے ہر شخص کی عقل و فکر خواہ مرد ہو یاعورت مختلف بنائی ہے اس لئے اس جذباتی رشتے میں وہ موڑ بھی آسکتاہے جہاں سے میاں بیوی کا قدم سے قدم ملا کر آگے چلنا دشوار ہوجائے، اضطرابی کیفیت سے ذہن ماؤف ہوجائے، چنانچہ اس کا حل یہی ہے کہ زوجین علیحدگی اختیار کرلیں، اس کے لئے اسلام نے مردوں کو طلاق کا اختیار دیا ہے جبکہ عورتوں کو خلع جیسی نعمت عطا کی ہے۔ اسلام کے نظام طلاق میں وہ حکمت و مصلحت پوشیدہ ہے جو دیگرا قوام عالم کے مذاہب میں نہیں ہے بلکہ ان کے یہاں باضابطہ کوئی مذہبی نظام طلاق ہے ہی نہیں۔ یہ میرا دعویٰ بھی ہے اور چیلنج بھی۔
بیوی جب سرکش اور نافرمان ہو جائے توشوہر کو حکم دیا گیا ہے کہ اس کو سمجھاؤ بجھاؤ، نصیحت کرو، اگر وہ نہ مانے تو اس کا بستر الگ کردو، روم ایک ہی ہو۔ ظاہر ہے عورت کے لئے اس سے زیادہ تکلیف دہ بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ شوہر اسی کے سامنے الگ بستر پر سوئے۔ اس پربھی عورت کو اگر شرم نہ آئے، حس نہ جاگے تو مسواک سے ہلکی ما ر مارو، چہرے پر نہ مارو، ضرب مبرح نہ ہو، بعضے علماء اس ہلکی مار کے بھی خلاف ہیں، یہ ضرب فہمائش کے لئے ہو نہ کہ اذیت و تکلیف کے لئے۔ اب اگر وہ راہ راست پر آجاتی ہے تو اس کے ساتھ خوش دلی اورپیار و محبت سے رہوو، حقوق زوجیت اد ا کرو، حیلے بہانے کر کے ستم نہ کرو۔ مسئلہ اگر اب بھی حل نہ ہو تو میاں بیوی دونوں طرف کے اصحاب فہم و فراست، علم و حکمت جمع ہوکر ان کے درمیان صلح صفائی کرانے کی کوشش کریں اور اگر صلح صفائی بھی نہ ہوسکے اور طلاق دینا ہی ناگزیر ہو جائے تو اسلام میں اس کا باضابطہ نظام اور حکم یوں ہے کہ طلاق احسن یعنی حالت طہر میں ایک طلاق رجعی دے کر چھوڑ دو، تین ماہ کے اندر اگر زن و شو میں صلح ہو گئی اور تعلقات قائم ہو گئے تو بہت اچھا، وہ دونوں حسب سابق میاں بیوی ہی رہیں گے، ورنہ تین ماہ بعد از خود نکاح ختم ہو جائے گا اور دونوں آزاد ہو جائیں گے۔ یا طلاق حسن دو یعنی تین طہر میں تین طلاق، اس میں بھی دو طلاق تک رجوع کی گنجائش باقی رہتی ہے، دونوں کو سوچنے سمجھنے کا بھرپور موقع ملتا ہے۔ اور آخری صورت ہے طلاق بدعت یعنی بیک وقت تین طلاق دینا اور ہندوستانی سیاست میں آج سب سے بڑا ایشو یہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک کی ترقی کا دار و مدار اسی پر ہے۔ یوں توطلاق کی کوئی بھی قسم ہو، اللہ کے رسول ﷺ نے اس کو نا پسند کیا ہے، فرمایا : اللہ کے نزدیک حلال( قابل قبول) چیزوں میں سے سب سے مبغوض اور ناپسند طلاق ہے، ، لیکن ٹرپل طلاق کو ادنی مسلمان نے بھی برا مانا ہے؛ تاہم اسلامی تعلیمات سے نابلد، ان پڑھ اور کوئی جاہل حالت غضب میں یا ذہنی کوفت کی وجہ سے اگر بیک وقت تین طلاق دے ہی دیتا ہے توجمہور علماء کے نزدیک از روئے شرع واقع ہو جائے گی۔ اس طلاق بدعت یا ٹرپل طلاق کی شرح ہندوستان میں کیا ہے جس کو ڈھونڈ ڈھونڈ کرمتعصب سیاست داں اور بھگوا پترکار اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ؟تو حکومتی اعداد و شمار کے مطابق طلاق ثلاثہ کی تعداد جملہ طلاق کے مقابلے صرف اور صرف ۲۹۔ ۰%ہے۔ اور اگر جملہ طلاق کا تناسب نکال کر دیکھیں تو واضح ہو جائے گا کہ ۲۹۰۰ عورتیں ہی طلاق مغلظہ کی شکار ہیں جبکہ نیشنل سروے کے مطابق مسلمانوں کے مقابلے ہندوؤں کے یہاں بھگوان بھروسے بغیر طلاق چھوڑی جانے والی صنف نازک کی تعداد کئی گنازیادہ تقریبا ً ۲۳ لاکھ ہیں ان میں سے ایک مرد آہن، ۵۶ انچ سینہ والے وزیراعظم نریندر مودی کی دھرم پتنی، اردھاگنی جسودا بین بھی ہیں جن کو چھوڑ کر شادی کے چند ماہ بعد ہی صاحب فرار ہو گئے تھے۔ مودی جی ہر سبھا میں مسلم بہنوں، مسلم بیٹیوں اور مسلم ماؤں کہہ کہہ کر مطلقہ مسلم عورتوں کے لئے تو ہمدردی تو دکھا رہیں، گھڑیالی آنسو بہا رہے ہیں مگر اپنی ترک کالمعلقہ پتنی اور ۲۳ لاکھ ہندو عورتوں کے لئے دل میں کوئی درد اورتکلیف نہیں ہے۔ یاللعجب!
جس ملک میں ایشیاء کا سب سے بڑا طوائف خانہ سوناگاچھی(کلکتہ) کماٹی پورہ(ممبئی)جی بی روڈ(دہلی)ہو۔ جس ملک میں ساڑھے چار کروڑ ہندو بیوہ عورتیں ہوں، آشرموں میں رہ کر ڈیڑھ کروڑ بھیگ مانگنے والیاں ہوں، ۹۰ لاکھ طوائفیں ہوں، ۲۳ لاکھ شوہروں کی ستائی اورچھوڑی ہوئی ہندو دھرم پتنیاں ہوں ان کوپہلے انصاف اور حقوق دلانے کے بجائے صرف ۲۹۰۰ ہزارمسلم مطلقہ عورتوں کو انصاف اور حقوق دلانے کی بات کی جا رہی ہے، یہ کتنی بڑی نا انصافی ہے۔ لوک سبھا میں طلاق ثلاثہ مخالف بل پاس کرا لینے کے بعدوزیراعظم راجیہ سبھا میں بھی پاس کرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، دونوں سبھاؤں میں حزب مخالف مستقل مطالبہ کررہی ہے کہ اسے سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجا جائے مگر بی جے پی بھیجنے کو تیار نہیں۔ ایک ہندوممبر پارلیامنٹ رنجیتا رنجن نے بی جے پی کو آئینہ بھی دکھایا، قرآن میں وارد طریقہ ء طلاق کو پڑھنے اور سمجھنے کا مشورہ بھی دیا، شیرپارلیامنٹ اسدالدین اویسی نے مدلل گفتگو بھی کی مگر مودی اور بی جے پی اس ضد پہ اڑی ہے کہ ہم کسی حال میں اسے پاس کراکر کے ہی دم لیں گے۔ حزب اختلاف کے مسلسل احتجاج اور بی جے پی کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے راجیہ سبھا کی کارروائی جس طرح پے در پے ملتوی ہورہی ہے ( مضمون لکھے جانے تک)اس سے مودی اینڈ کمپنی میں بے چینیاں بڑھ رہی ہیں، کیونکہ رام مندر بنا نہیں سکی، مہنگائی کم کرنہیں سکی، روپئے کی قدر گھٹتی گئی، کالا دھن واپس لا نہیں پائی، جو سفید دھن تھے وہ بھی مالیا، چوکسی اور دوسرے لٹیرے لے کر بآسانی فرار ہو گئے، نوکریاں دے نہیں سکی بلکہ رہی سہی چھنتی جا رہی ہے، اس لئے ایک ہی مدعا بچا ہے جس سے ہندوؤں کو خوش کیا جا سکتا ہے اور ان کا ووٹ حاصل کیا جا سکتاہے اور وہ ہے طلاق ثلا ثہ مخالف بل پاس کرانا، مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی اوران کو ہراساں کرنا۔ تاہم مودی اینڈ کمپنی کو اب یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہر اعتدال پسند، منصف مزاج اور دانشمند برادران وطن بھی یہ جان چکے ہیں کہ مودی کا مسلمان عورتوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے اور یہ طلاق مسلمانوں کی طلاق شرعی نہیں بلکہ ایک سیاسی طلاق ہے، جس پربی جے پی ہم سب کو بیوقوف بنارہی ہے۔