-
احیائے مذہب کی تحریکیں اور ہندوسماج
- سیاسی
- گھر
احیائے مذہب کی تحریکیں اور ہندوسماج
379
m.u.h
10/06/2023
0
0
تحریر:عادل فراز
تبدیل مذہب کے عمل کو روکنے اور مذہبی تعلیمات کے احیا کے لئے ہندوئوں میں مختلف تحریکیں معروض وجود میں آئیں ۔ان تحریکوں نے ہندوئوں کے تبدیل مذہب کے وجوہات اور علل کی تفہیم کے بغیر انہیں مذہب پر قائم رکھنے کی جدوجہد کی ،جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے ۔کیونکہ ہندو کسی مالی ترغیب ،دبائو یا خوف کی بناپر تبدیل مذہب کی طرف راغب نہیں ہورہے تھے بلکہ وہ اپنے یہاں موجود ذات پات اور طبقاتی نظام سے پریشان تھے،جس کے باعث وہ انتہائی ذلت آمیز زندگی گذارنے پر مجبور تھے،لہذا انہوں نے ایسے نظام میں فکری اور عقیدتی پناہ تلاش کی جو انہیں یکساں مواقع فراہم کرسکے ۔ہندوئوں نے احیا ئے مذہب کی تحریکوں میں ان بنیادی مسائل پر کم توجہ دی اور اگر ان مسائل کو موضوع بحث قرار دیا تو ان کی حیثیت ثانوی رہی اور اسے عملی شکل نہیں دی سکے۔
ہندوستان میں بھگتی تحریک نے ذاتی تفریق اور طبقاتی نظام پر سیدھا حملہ کیا ۔لیکن یہ حملہ اس قدر کارگر نہیں تھاکہ برہمنیت اور منووادیت کی بنیادوں کو متزلزل کرسکے ۔جبکہ بھگتی تحریک نے عام ہندوئوں کے درمیان بڑا فکری نفوذ پیداکیا لیکن اس کے عملی نتائج ظہور میں نہیں آئے ۔چونکہ بھگتی تحریک اور تصوف کا بنیادی فکری فلسفہ متفاوت نہیں تھا اس لئے پسماندہ طبقات اور مزعومہ چھوٹی ذاتوں کے لئے یہ کوئی نیا تجربہ نہیں تھا ۔وہ تصوف اور بھگتی تحریک کی طرف یکساں طورپر راغب ہوئے اور انہیں یہ احساس نہیں ہواکہ بھگتی تحریک انہیں ہندو مذہب پر قائم رکھنے کی خواہاں ہے ۔بھگتی تحریک اسلام کو ہندومت کے لئے بڑا خطرہ تصور کرتی تھی ۔انہوں نے اس طرح تبلیغی عمل شروع کیاکہ ہندو اسلام کی طرف راغب نہ ہوسکیں۔چونکہ اس وقت تصوف کی تحریک کا دور شباب ختم ہوچکا تھا،اس لئے بھگتی تحریک کے لئے سماج میں بہت گنجائش موجود تھی ۔یہ عہد تصوف کا انحرافی عہد تھا جس میں خالصیت کا فقدان تھا۔تصوف مظاہر پرستی ،بے جا نمود و نمائش ،شریعت مخالف عمل اور فکری بے راہ روی کا مظہر تھا ،اس لئے مسلمانوں میں تصوف کے خلاف تحریکیں شروع ہوچکی تھیں ،جس کی رہنمائی خواجہ باقی اللہ ،مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی اور دیگر نقشبندی علما کررہے تھے ۔احیا ئے مذہب کی اس تحریک نے تصوف کے بنیادی ڈھانچے کو بھی نقصان پہونچایا اور مذہب کو سخت گیری اور انتہا پسندی کے نئے رجحانات سے بھی متعارف کروایا ،جس کا خمیازہ مستقبل میں مسلمانوں کو بھگتناپڑا۔
بھگتی تحریک کے اثرات دیرپا نہیں تھے لیکن اس کا فکری فلسفہ ایک عرصے تک ہندوئوں کے درمیان مقبول رہا ۔یہ مقبولیت اسی طرح تھی جس طرح مسلمانوں میں صوفیا کے نظریات کو حاصل تھی ،لیکن عملی شکل میں اس کے خاطرہ خواہ نتائج موجود نہیں تھے ۔زمانۂ دراز کے بعد ہندوئوں میں راجہ رام موہن رائے نے ۱۸۱۶ء میں ’’آتمیا سبھا‘‘ نام سے انجمن کی تشکیل کی ،جس کے رکن دوارکا ناتھ ٹیگور جی بھی تھے ۔۱۸۲۸ء میں انہوں نے کلکتہ میں اس کے دفتر کی بنیاد رکھی اور ۲۳ جنوری ۱۸۳۰ء کو اپنی تنظیم کا نام ’’برہمو سماج‘‘ رکھا ۔انہوں نے لوگوں کو اپنی برادری میں شامل کرنے کے لئے تمام برادریوں کے لئے دروازہ کھلا رکھا ۔ذات پات کی تفریق اور طبقاتی نظام کی مخالفت کی لیکن بنیادی طورپر ان کا مقصد برہمنوں کے مفادات کا تحفظ تھا ،اس لئے بہت دنوں تک وہ لوگوں کو فریب نہیں دے سکے ۔یہ تحریک کسی نئے فرقے کو جنم دینا نہیں چاہتی تھی بلکہ ہندوئوںمیں اصلاح اور احیا کا عمل انجام دے رہی تھی ۔راجہ رام موہن رائے جی خود طبقاتی نظام اور چھواچھوت کے قائل تھے ،اس لئے انہوں نے اپنا باورچی غیر برہمن کو مقر ر نہیں کیا ۔برہمنوں کو عبادت کے لئے دفتر میں مخصوص کمرہ دیا گیا جس میں ان کے علاوہ کوئی دوسراعبادت نہیں کرسکتا تھا ۔انہوں نے اپنا زنّار بھی باقی رکھا اور تادم مرگ اس کو خود سے جدانہیں کیا ۔ان کی تدفین کا عمل ان کے برہمن ملازمین کے ذریعہ انجام دیا گیا اور وہ تمام رسومات اداکی گئیں جو ایک برہمن کے لئے مخصوص ہیں ۔
ان کے مرنے کے بعد دوارکاناتھ ٹیگور جی کے فرزند مہرشی دیوندرناتھ ٹیگور جی نے اس تنظیم کی ذمہ داری سنبھالی اور ۱۸۴۴ء میں اسے نئے سرے سے منظم کیا ۔انہوں نے اس تنظیم کے نام میںبدلائو کرکے ’’آدی برہمو سماج ‘‘ کردیا ۔ا ن کا ایجنڈہ بھی راجہ رام موہن رائے سے مختلف نہیں تھا ۔اس تنظیم نے بھی ہندوئوں میں اصلاح کی آواز اٹھائی لیکن بہت زیادہ کامیابی نہیں ملی ۔انہوں نے سوامی دیانند سرسوتی سے بھی اس سلسلے میں درخواست کی تھی کہ وہ برہمو سماج کی تحریک میں اپنا تعاون پیش کریں ،مگر وہ ان سے فکری اختلاف کے سبب ساتھ نہیں آسکے ۔برہمو سماج اس لحاظ سےایک کامیاب تحریک تھی کہ اس نے ہندوئوں میں تبدیل مذہب کے رجحان کو کم کیا اور بہت سے ہندو جو مذہب بدلنا چاہتے تھے انہیں ہندو مذہب پر قائم رکھا ۔یہ تحریک بنیادی طورپر عیسائی مشنریوں کے خلاف عملی جدوجہد کررہی تھی ،کیونکہ ہندوستان پر انگریزوں کے تسلط کے بعد عیسائی مشنریاں تیزی کےساتھ پسماندہ ہندو طبقات کو اپنی طرف مائل کررہی تھیں ۔البتہ اس تحریک نے ہندوئوں کو اسلام کی طرف مائل ہونے سے بھی روکا اور صوفیا کی خانقاہوں کے خلاف بھی لوگوں کوبیدار کیا۔
باپو کشیپ برہمو سماج کے اہم مبلغ اور سرگرم کارکن تھے۔ان کے اوردیوندر ناتھ ٹیگور جی کے درمیان فکری اختلاف رونما ہوا۔۱۸۶۵ءمیں انہوں نے برہمو سماج سے دوری اختیار کرلی اور ۱۸۶۶ء میں ’’بھارت ورشیہ برہما سماج‘‘ نام سے نئی تنظیم کی بنیاد رکھی ۔باپو کشیپ برہمنوں کی افضلیت کے قائل نہیں تھے اور وہ ذات پات کی تفریق کو جڑ سے ختم کرنا چاہتے تھے ۔اس لئے انہوں نے کہاکہ جو لوگ سماج کے مندر میں آئیں وہ زنّار اتارکر آئیں ۔اس تحریک کے زیر اثر دیوندر ناتھ ٹیگور جی نے بھی اپنا زنّار اتاردیا لیکن دوسروں کو اس طرف راغب نہیں کیا ۔۱۸۶۴ء میں باپو کشیپ نے مختلف ذاتوں کے دوہندوئوں کے درمیان شادی کروادی ،جس سے کافی ہنگامہ برپا ہوا۔اس کے بعد دیوندر ناتھ ٹیگور جی اور باپو کشیپ کی راہیں جداہوگئیں ۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ برہمو سماج کی تحریک فقط ہندوئوں کے تبدیل مذہب کو روکنا چاہتی تھی ،لیکن اس کا بنیادی ہدف ذات پات کی تفریق اور ورن آشرم کی اصلاح نہیں تھا ۔
برہمنوں کی افضلیت اور ان کی بالادستی پر حملے شروع ہوئے تو سوامی دیانند سرسوتی نے اس کے خلاف تحریک شروع کی ۔ساتھ ہی انہوں نے ہندوئوں کے تبدیل مذہب کو روکنے کے لئے بھی جدوجہد کی ۔۱۸۷۵ء میں انہوں نے ممبئی میں آریہ سماج کی بنیاد رکھی اور باپو کشیپ کی تنظیم کو بے اثر کرنے کے لئے اس میں پھوٹ ڈلوادی ۔۱۹۱۰ء آتے آتے آریہ سماج تحریک نے دیگر تمام تحریکوں کو متاثر کیا اور ان کے اثر کو کم کردیا۔سوامی دیانند جی نے ذات پات کی تفریق کی مخالفت کی اور پہلی بار شودروں کو وید پڑھنے کی اجازت دی ۔انہوں نے شودروں کو ہندومت کی طرف راغب کرنے کے لئے کہاکہ اگر کوئی شودر کے گھر میں پیداہوا اور وہ اچھے اعمال سے متصف ہو تو وہ بالترتیب برہمن ،ویش اور کھشتری ہوجاتاہے اور اسی طرح جو برہمن کےگھر میں پیداہو اہو اور نیک عمل انجام نہ دے وہ شودر ہوجاتاہے ۔ان کی اس تحریک نے ہندوئوں میں تبدیل مذہب کے رجحان کو کم کیا لیکن ختم نہیں کیا جاسکا۔کیونکہ سوامی جی منوسمرتی کو مستند تسلیم کرتے تھے اور منوسمرتی کو تسلیم کرنے والا کبھی ذات پات اور طبقاتی نظام کا مخالف نہیں ہوسکتا۔اس لئے پسماندہ ذاتیں بہت کم ان کی طرف متوجہ ہوسکیں اور تبدیل مذہب کا رجحان بھی ختم نہیں ہوا۔
مہاتما گاندھی بھی ہندوئوں کے تبدیل مذہب کے سخت مخالف تھے ۔انہیں یہ احساس تھاکہ پسماندہ طبقات تیزی کے ساتھ عیسائیت اور اسلام قبول کررہے ہیں لہذا انہوں نے ۲۰ ستمبر ۱۹۳۲ء کو ممبئی میں ’’ہریجن سیوک سنگھ ‘‘ بنائی ،جس کے پہلے جلسے کی صدارت پنڈت مدن موہن مالویہ نے کی تھی ۔یہی وہ عہد تھاکہ جب آرایس ایس کے نظریہ سازمتحد ہورہے تھے اور انہوں نے ۱۹۲۵ ء میں ’راشٹریہ سیوک سنگھ ‘‘ کی بنیاد رکھی ۔’کیشورام بلی ہیڈگوارجی ‘نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ہندوئوں میں احیائے مذہب کی تحریک شروع کی اور اس کے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈے کے استعمال کو جائز قراردیا۔اس تنظیم کا بنیادی ہدف مسلمان تھے ،جبکہ آرایس ایس کے قیام کے وقت عیسائی مشنریاں ہندوئوں کو تبدیل مذہب کی ترغیب دے رہی تھیں ۔لیکن آرایس ایس نے عیسائی مشنریوں کے خلاف کم اور مسلمانوں کے خلاف زیادہ سرگرمی دکھلائی ۔بہت جلد یہ سرگرمی انتہا پسندی میں تبدیل ہوگئی جس کے اثرات معاصر عہد میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔