-
غزہ کی تباہی اور مسلم حکمرانوں کا دُہراکردار
- سیاسی
- گھر
غزہ کی تباہی اور مسلم حکمرانوں کا دُہراکردار
19
M.U.H
25/11/2024
0
0
تحریر:عادل فراز
بارہ نومبر کو ریاض میں عرب اور اسلامی ممالک کا ہنگامی سربراہی اجلاس طلب کیاگیا تھاجس میں مسئلہ فلسطین کی مرکزیت پرگفتگوہوئی ،ساتھ ہی غزہ ولبنان میں جاری نسل کشی اور ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی گئی ۔پہلی بار محمد بن سلمان نے ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی اور اس کو عالم اسلام پر حملے سے تعبیرکیا۔اس اجلاس میں ۵۰ ملکوں نے شرکت کی اور سب نے اتفاق رائے سے بیان جاری کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے حل پر زور دیا۔بیان میں اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی پر روک لگانے کا مطالبہ بھی کیاگیا۔اس اجلاس کے بعد جومشترکہ بیان منظر عام پر آیا وہ قابل تحسین ہے مگر لائق عمل نہیں !کیونکہ اس اجلاس میں شریک اکثر مسلمان ملک صہیونی حکومت کے ساتھ تعاون کررہے ہیں ۔صہیونی حکومت کو تیل اور امدادی سامان کی فراہمی انہی ملکوں کے ذریعہ انجام پارہی ہے جن میں ترکیہ ،مصر اور اردن جیسے ملک سرفہرست ہیں ۔اس لئے یہ اجلاس باہمی مذمتی قرارداد اور چندمطالبوں تک سمٹ کر رہ جائے گا۔ورنہ جس بلند ہمتی کامظاہرہ یمن نے بحر احمر میں کیاہے اگر اس کا ایک فیصد عزم بھی مسلم حکمرانوں میں پایاجاتاتو اب تک یہ جنگ فیصل ہوچکی ہوتی اور صہیونی فوجیں کبھی لبنان کا رخ نہیں کرتیں ۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوگان گفتار کے غازی ہیں ۔وہ مسلسل غزہ کی تباہی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف بیانات دے رہے ہیں ۔غزہ پر حملے کے فوراً بعد انہوں نے اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلالیاتھا،جس کے بعد وہ مسلمانوں میں ایک لیڈر کے طورپر ابھر کر سامنے آئے تھے ۔عالم اسلام کو یہ لگ رہاتھاکہ شاید اردوگان اسرائیل کے خلاف کسی بڑے عملی اقدام کا اعلان کریں گے ،مگر گذشتہ ایک سال میں ایسانہیں ہوا۔غزہ کے مظلوموں کے لئے ترکیہ نے امدادی سامان بھجوایاہے مگر اس امداد کو بھی اسرائیل کے سپردکردیاگیا۔اسرائیل امدادی سامان کو مہینوں تک ضرورت مندوں تک پہونچنے نہیں دیتااور جب سامان کی ’ایکسپائری ڈیٹ ‘ نزدیک آجاتی ہے تو اس کو غزہ میں داخلے کی اجازت دی جاتی ہے ۔اگر ترکیہ کے صدر چاہتے تو یہ امداد بلاتاخیر غزہ تک پہونچ سکتی تھی مگر انہوں نے اس بارے میں زیادہ توجہ نہیں دی ۔اردوغان نے یہ دعویٰ بھی کیاتھاکہ ترکیہ وہ پہلا اسلامی ملک ہے جس نے اسرائیل کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کردی ہیں ،لیکن شواہد اس کے برعکس ہیں ۔ترکیہ اورصہیونی حکومت کے درمیان مسلسل تجاری حجم بڑھ رہاہے ،جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اردوگان مسلمانوں کو فریب دے رہے ہیں ۔
7 اکتوبر 2023طوفان الاقصیٰ کے بعد سے اب تک ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان تجارتی تعلقات استوار ہیں ۔2022 تک ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان تجارت کا حجم نواعشاریہ ایک ارب ڈالر تک پہونچ گیاتھا ۔2023 میں اس میں اضافہ ہوااور 6 اعشاریہ دو ارب ڈالر ہوگیا ۔غزہ پر حملے کے بعد بھی ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان مسلسل تجارتی تعلقات بحال ہیں ۔2023 میں انقرہ نے پانچ اعشاریہ چار ارب ڈالر کی مصنوعات اور سامان اسرائیل کو برآمدکیا اور ایک اعشاریہ ۶ ارب ڈالر کا سامان اسرائیل نے ترکیہ درآمد کیاہے ۔ترکیہ کے عوام بھی پہلے پہل اردوگان کے فریب میں آگئے مگر بہت جلد ان پر اردوگان کی حقیقت بے نقاب ہوگئی اور اب عوام مسلسل اسرائیل کے ساتھ تجارتی روابط کے خلاف احتجاج کررہی ہے ۔انہوں نے استنبول میں ایک صہیونی ٹرک کو روک لیاتھااور یہ نعرہ دیاکہ ہمیں اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات قبول نہیں ۔ترکیہ کی بندرگاہ آوجی لار پر بھی فلسطین کے حامی مظاہرین نے احتجاج کیااور ترک حکومت سے اسرائیل کے ساتھ تجارتی روابط برقراررکھنے پر اپنی سرکار کی مذمت کی ۔اس وقت استنبول کے ساحل پر ایک صہیونی مال بردار جہاز موجود تھاجس پر مظاہرین نے شدید غم وغصے کا اظہارکیاتھا۔ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مطابق آئندہ چند ماہ کے دوران اسرائیل ایک سوبیس بحری جہاز ترکیہ سے تجاری سامان برآمد کریں گے ۔ترک مظاہرین نے ایک ایسے جہاز کو بھی روک لیاتھاجس پر جرمنی کا پرچم لہرارہاتھا اور یہ جہاز اسرائیلی فوج کےلئے ہتھیار لے کر جارہاتھا۔یہ جہاز حیدر پاشا بندرگاہ پر لنگر انداز تھا جس کے خلاف عوام نے شدید احتجاج کیا۔
یہ معاملہ فقط تجارت تک محدود نہیں ہے۔گزشتہ دنوں الجزیرہ نے یہ خبر دی تھی کہ اسرائیل میں چار ہزار ترک نژاد فوجی موجود ہیں جو غزہ اور لبنان کے خلاف میدان میں ہیں ۔ان کے پاس ترکیہ کی شہریت موجود ہے ۔ترکیہ کے رکن پارلیمنٹ پایا پیچی نے اس معاملے کو پارلیمنٹ میں اٹھایالیکن اردوگان نے ابھی تک اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔یہی نہیں بلکہ ترکیہ نے اسرائیل کو آذربائیجان کا تیل فراہم کرنے میں بھی اہم کردار اداکیاہے ۔آذربائیجان کے اکثر تیل ذخائر پر امریکی کمپنیوں کا قبضہ ہے ۔کرکوک جیحان پائپ لائن اسرائیل کو خام تیل فراہم کرنے میں مدد پہونچاتی ہے ۔صہیونی حکومت کو ضرورت کا ۴۰ فیصد تیل اسی پائپ لائن کے ذریعہ پہونچتاہے اور ترکیہ حکومت باکو سے صہیونی حکومت کو تیل فراہمی کے عوض فی بیرل اسّی سینٹ وصول کرتی ہے ۔تجارتی روابط کے علاوہ صہیونی و امریکی حکومت اور ترکیہ کے درمیان دفاعی معاہدے بھی شامل ہیں ۔ترکیہ ناٹو کا حصہ ہے اس لئے وہ ناٹو کی سیاست کے خلاف نہیں جاسکتا۔اس کا اندازہ ترکیہ سرکار کے بیانات سے بھی لگایاجاسکتاہے کیونکہ اب تک ترکیہ نے غزہ کی حمایت کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔
اردوگان گزشتہ بیس سالوں سے ترکیہ کے اقتدار پرمسلط ہیں ۔انہیں استعمار کی بھرپور حمایت حاصل ہے ۔اس حمایت کے بدلے اردوگان نے خطے میں اسرائیل کو مضبوط کرنے میں اہم کرداراداکیاہے ۔ترکیہ وہ پہلا ملک ہے جس نے 1949میں صہیونی حکومت کو سرکاری طورپر تسلیم کیاتھااور 1950 میں صہیونی حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار کئے تھے ۔جدید ترکیہ کا بانی مصطفیٰ کمال اتاترک استعمار کا آلۂ کار تھا جس نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے میں اہم کردار اداکیاتھا۔اس کے بعد ترکیہ میں لادینیت اور مغربی تمدن نے پائوں پسارنے شروع کئے اور آج ترکیہ مغربی تہذیب وثقافت کا آئینہ دار ہے ۔اردوگان جو خلافت عثمانیہ کی نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھتے ہیں ،درحقیقت مصطفیٰ کمال اتاترک کے نقش قدم پر ہیں ۔انہوں نے عوام کو فریب دینے کے لئے وہی حکمت عملی اختیارکی ہے جو مصطفیٰ کمال نے اپنائی تھی ۔لیکن اب اردوگان کا دُہراکردار بے نقاب ہوچکاہےاور ترکیہ کے عوام ان کے خلاف سڑکوں پر ہیں ۔ترکیہ کے لوگ صہیونی حکومت سے تعلقات نہیں چاہتے ،اب دیکھنایہ ہے کہ اردوگان کب تک عوام کی ناراضگی کو نظر انداز کرتے ہیں ۔یوں بھی اب انہیں اقتدار گنوانے کا خوف نہیں ہے کیونکہ یہ اردوگان کا آخری دور ہے ۔لیکن اردوگان کو ہمیشہ ’گفتار کا غازی ‘اور عالم اسلام کا خائن کہاجائے گا۔اگر ان میں ذرابھی اسلامی حمیت موجود ہے تو انہیں فوراً صہیونی حکومت سے تمام تعلقات کو ختم کرنا ہوگا۔یہ مطالبہ ہم تنہا اردوگان سے نہیں کرسکتے بلکہ اس میں دیگر مسلمان ملک بھی شامل ہیں جو اب تک صہیونیت نوازی سے باز نہیں آئے ۔عوام کو ان تمام خائن چہروں کو پہچانناہوگا جو ایسی صورتحال میں عالم اسلام کے مسائل کو نظرانداز کرکے استعماری طاقتوں کی گود میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔جب تک مسلمان بیدار نہیں ہوں گے اردوگان جیسے لیڈر ان کے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے رہیں گے ۔
اردوگان کو یہ معلوم ہوناچاہے کہ استعمار نے ان ملکوں کو بھی ملبے میں بدل دیاجس کے حکمران اس کے چشم وابرو کے اشارے پر ناچتے تھے ۔عراق اور افغانستان کی بربادی سے تمام مسلم حکمرانوں کو سبق لیناچاہیے ۔محمدمرسی کا حشر سب کے سامنے ہے ۔ان کی معزولی میں بھی استعماری سازشیں شامل تھیں اور آج مصر پر استعمار نواز سیاست مدار حکومت کررہے ہیں ۔یہی حال ۲۰۱۱ء میں معمرقذافی کا ہوا۔اگر مسلم حکمرانوں نے اسی طرح صہیونیت نوازی جاری رکھی تو بہت جلد ان کا حشر بھی گزشتہ سیاست مداروں سے بدتر ہوگا۔