-
جناح کی تصویر بہانہ۔ اے ایم یو اور سابق نائب صدر پر نشانہ
- سیاسی
- گھر
جناح کی تصویر بہانہ۔ اے ایم یو اور سابق نائب صدر پر نشانہ
1165
M.U.H
08/05/2018
0
0
ایس۔ ایم۔ ضیاء
خادم مدرسہ سیدنا بلالؓ،چک درگاہ، دربھنگہ
ان دنوں محمد علی جناح کی تصویر کو لیکر ملک میں ایک نئی بحث چھڑی ہوئی ہے ۔ سیاست کے گلیاروں سے لیکر ٹی وی چینلوں پر صبح سے شام تک اسی کو لیکر ڈیبیٹ چل رہی ہے۔ فرقہ پرستانہ مودی لابی ذہنیت رکھنے والی الیکٹرانک میڈیا کے کچھ اینکرس اور ہرخواص و عام کی زبان پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جناح کی تصویر کا چرچہ ہے۔ الیکٹرانک میڈیا تو پوری طرح اسے توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ جہاں تک یونیورسٹی کے یونین حال میں جناح کی تصویر کا معاملہ ہے تو میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہندوستان کا ہر وہ مسلمان جس کے اندر ذرہ برابر بھی فہم ہوگا وہ تقسیم ہند کے بعد سے آج تک نہ کبھی جناح کو اپنا آئیڈیل مانا ہے اور نہ مان رہا ہے اور نہ کبھی مستقبل میں اس کو آئیڈیل ماننے کی گھٹیا حرکت کرے گا۔
اب رہی بات اے ایم یو میں جناح کے تصویر کی تو اس سلسلے میں پہلے تحقیق ضروری ہے، پھر آئین ہند کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے اس معاملے میں تبصرہ کرنے کی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا کیمپس احاطے میں بی جے پیے اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے جو گھناؤنی حرکت کی ہے اور پولیس محکمہ نے جس طرح یکطرفہ کارروائی کی ہے وہ یونیورسٹی اور ملک کی تاریخ کا ایک سیاہ دن کہلائے گا۔ جناح کی تصویر کی مخالفت کی گئی ٹھیک ہے اور کرنی بھی چاہئے لیکن جس طرح لاء اینڈ آرڈر کی دھجیاں اڑائی گئی، حیوانیت کا ننگا ناچ کیا،کیا وہ بھی صحیح تھا؟ پھریہ کہ اس پورے معاملے میں سرے سے طلبہ یونین کو ہی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی کیا یہ بھی صحیح ہے؟اس یونین ہال میں جناح کی تصویر کب سے لگی ہوئی ہے؟ کیوں لگائی گئی؟ اس حقیقت کو نہ کسی نے جاننے کی کوشش کی، نہ ہی سمجھنے کی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ تقسیم ہند کے بعد بھی جناح کی تصویر یہاں لگی ہوئی ہے جب کہ جناح تقسیم ہند کا ذمہ دار ہے۔ بس جونہی بی جے پی ایم ستیش کمار مشرا کو اس کی خبر ملی کہ طلبہ یونین کے ہال میں جناح کی تصویر لگی ہوئی ہے۔ بی جے پی لیڈر نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق صاحب کو ایک خط بھیجا جس میں تصویر لگنے کی وجہ پوچھی گئی تھی، ابھی یہ خط وائس چانسلر کو موصوف بھی نہیں ہوا کہ اس سے قبل بی جے پی کے غنڈوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہوگئے۔ اور طلبہ طالبات پر ظلم و بربریت کا مظاہرہ کرنا شروع کردیاجس کی وجہ کر سیکڑوں طلبہ زخمی ہوئے، اس ایک واقعہ کی وجہ سے جہاں دوسری یونیورسٹی میں اس کا اثر دیکھنے کو ملا وہاں حالات کشیدہ ہوگئے، وہیں پورے ملک کی فضا ایک بار پھر مسموم ہوتی نظر آئی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیمپس میں جو کچھ بھی ہوا وہ سب پولیس محکمہ کی موجودگی میں ہوا، بی جے پی اور آر ایس ایس کے غنڈے طلبہ پر بربریت کا مظاہرہ کرتے رہے اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ طلبہ نے جب تھانہ جاکر ایف آئی آر درج کرانے کی گہار لگائی تو پولیس والوں نے طلبہ پر لاٹھیاں برساکر ان کو لہولہان کردیا۔
بہرکیف ! قارئین کو یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیمپس میں طلبہ یونین کے ہال میں پاکستان کے بانی اور تقسیم ہند کے ذمہ دار کہے جانے والے محمد علی جناح کی جس تصویر پر اتنا بڑا واویلا مچایا جارہا ہے یہ تصویر کوئی آج کی نہیں ہے بلکہ سیکڑوں سال پرانی ہے۔ غالباً 1938 میں جب محمدعلی جناح کو طلبہ یونین کی تادم حیات کی رکنیت دی گئی تھی اسی وقت سے یہ تصویر لگی ہوئی تھی، لیکن اب تک اس پر نہ کوئی پابندی کی بات کہی گئی نہ ہی کسی طالب علم کو پاکستان نواز کہا گیا۔ جب کہ اس یونیورسٹی میں غیرمسلم لڑکے بھی زیرتعلیم ہیں، یونین کی اور یونیورسٹی کیمپس کی ہر نقل و حرکت سے وہ بخوبی واقف ہیں، وہ جناح کی تصویر کو بھی دیکھ رہے تھے۔ پھر اچانک آج کیا بات ہوئی کہ بی جے پی کے ایک ایم پی کو اس تصویر کی خبر ملتی ہے اور وہ وائس چانسلر پروفیسر طارق صاحب کو ایک خط بھیجتے ہیں۔
حالاں کہ جس طرح ایم پی نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا ہے اسی طرح سنجیدگی سے انہیں صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند کو خط لکھنا چاہئے تھا چوں کہ کسی بھی یونیورسٹی کے چانسلر صدرجمہوریہ ہی ہوتے ہیں یا پھر مرکزی حکومت کو اس سے آگاہ کیا جاتا، پارلیامنٹ میں اس معاملے کو زور و شور سے اٹھایا جاتا، قانون کا معاملہ تھا مرکزی حکومت اس کا سخت نوٹس لیتی معاملے کی جانچ کرتی کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی کیا ضرورت تھی؟ جانچ کے بعد بات بالکل واصح ہوجاتی کہ مجرم کون ہے؟ پھر حکومت اپنی سطح سے اس پر قانونی کاروائی کرتی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، بلکہ ستم بالائے ستم یہ کہ بی جے پی کے غنڈوں کے ساتھ پارٹی کے قومی صدر امت شاہ اور وزیراعظم نریندر مودی جی نے بھی ان غنڈوں کے خلاف کوئی سخت قدم اٹھانے کے بجائے تصویر پر ہی سوال اٹھانا شروع کردیا۔
دراصل ان فرقہ پرست جماعتوں کا مقصد جناح کی تصویر ہٹانا نہیں ہے بلکہ اے ایم یو سمیت تمام مسلم اداروں کی کردار کشی کے ساتھ ملک کے سابق نائب صدر جمہوریہ کو نشانہ بنا نا تھا ، چوں کہ سابق نائب صدر جمہوریہ نے اپنے عہدہ صدارت سے سبکدوش ہو نے سے قبل کئی مرتبہ بی جے پی اور آر ایس ایس ،بجرنگ دل ، وشو ہندو پریشد جیسی فرقہ پرست جماعتوں کے لیڈران و کارکنان کی گندی ذہنیت اور ان کے ذریعے اقلیتوں پر ہورہے مظالم کو ملک کی سالمیت کے لئے خطرہ بتایا تھا تبھی سے وہ ان غنڈوں کے نشانے پر ہیں۔ اور وہ اس وقت یونیورسٹی کیمپس میں موجود تھے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ 4نومبر1948 کو ملک کے ودھان سبھا میں جب کہ گاندھی جی اور جناح دونوں کا انتقال ہوگیا تھا۔ ودھان سبھا میں جہاں ایک طرف گاندھی جی کو خراجِ عقیدت پیش کر ان کی روح کی تسکین کے لئے مون کیا گیا وہیں جناح کو بھی خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ جناح اپنے مضبوط ارادے میں کامیاب رہے۔
پڑوسی ملک پاکستان کو بھی الگ ملک کے لئے مبارکباد پیش کی گئی۔ خود بی جے پی کے اس وقت کے قدآور لیڈر اور سابق نائب وزیراعظم مسٹر لال کرشن اڈوانی جی نے جو ابھی بھی حیات سے ہیں۔ جناح کے مزار پر حاضری دی تھی اور انہیں سب بڑا سیکولر لیڈر کہا تھا۔ اس وقت یہ تماشا کیوں نہیں ہوا؟ کیوں نہیں اڈوانی جی کو غداروطن کہہ کر پارٹی سے برخاست کیا گیا؟ کیوں نہیں ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کا مقصد کچھ اور ہے۔ یہ ہندومسلم اتحاد کے دشمن ہیں۔ یہ فسادات کراکر ملک کی سالمیت کو تہ و بالا کرنا چاہتے ہیں۔
یہ جمہوریت کا گلا گھونٹ کر اس ملک میں بسنے والے پچیس کروڑ مسلمانوں پر غداروطن کا لیبل چسپاں کرکے انہیں حراساں کرنا اور ان کے خون سے ہولی کھیلنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے کبھی ان کے نماز پڑھنے پر پابندی عائد کی جاتی ہے تو کبھی مدارس کو تنقید کا نشانہ بناکر اس کی کردارکشی کی جاتی ہے اور مودی کے لقمہ پر پلنے والی میڈیا کے اینکرس اس طرح کی خبروں پر پردہ ڈالتے ہیں اور مسلمانوں و دیگر اقلیتوں کے معاملے کو بڑھاچڑھا کر پیش کرتے ہیں۔
اے ایم یومیں جناح کی تصویر کے معاملے کو بھی اسی طرح اُچھالا جارہا ہے ڈیبیٹ پر جب صحیح جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہیںسے پھر دوسرے سوال میں انہیں گھیرنے کی کوشش کی جاتی ہے یہی ان اینکروں کے شب و روز کا معمول ہے تاکہ مودی آقا خوش رہیں اور ہماری بھی تجوری بھرتی رہے۔ ہریانہ کا معاملہ بھی سب کی آنکھوں کے سامنے ہے جہاں کھلی جگہ میں نہ صرف مسلمانوں کو جمعہ کی نماز پڑھنے سے روکا گیا بلکہ جئے شری رام، وندے ماترم جیسے نعرے بھی لگائے گئے۔ غضب بالائے غضب یہ کہ ان بے قصور مسلمانوں کو بھدی بھدی گالیاں دیکر اُنہیں زدوکوب کیا گیا پھر بھی ہریانہ کی حکومت اُن غنڈوں کی ہی پشت پناہی کر مسلمانوں کے کھلی جگہ میں نماز پڑھنے پر پابندی عائد کردی۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)