-
سیاست دانوں کی فحش کلامی
- سیاسی
- گھر
سیاست دانوں کی فحش کلامی
409
m.u.h
03/10/2022
0
0
تحریر: اپوروانند
ہمارے ملک میں پچھلے چند برسوں سے جو سیاسی زبان استعمال کی جارہی ہے، اس کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ گندی اور ناشائستہ زبان اور لب و لہجہ کو سیاست دانوں نے ایک فیشن بنالیا ہے۔ سیاست دانوں کی زبان سے نکلنے والے الفاظ سن کر ایک اچھا ہندوستانی شہری ضرور شرمندگی محسوس کرتا ہوگا۔ بہرحال یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں کہ کانگریس نے جو بھارت جوڑو یاترا شروع کی ہے، کیا اس یاترا سے ملک میں بولی جارہی سیاسی زبان میں بہتری لائے گی، کیونکہ ہمارے ملک میں سماجی اور سیاسی شعبوں سے وابستہ لوگوں کی زبانیں گندی ہوگئی ہیں۔ ہمارے ملک میں وقفہ وقفہ سے نہیں بلکہ گھنٹے گھنٹے سے سیاسی بدزبانی کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جو سیاسی رہنما گندی زبان استعمال کرتا ہے یا فحش کلامی کو اپنی تقاریر اور بیانات کا حصہ بناتا ہے، لوگ اس کی تقاریر سننے اور بیانات دیکھنے اور پڑھنے کے مشتاق رہتے ہیں۔ اس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اب تو حال یہ ہوگیا کہ سادھے سیدھے الفاظ اور سیدھے سادھے جملے اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ کس چیز کو پسند کرنے لگا ہے اور خاص طور پر ماحول کو بگاڑنے لوگوں کو اس زبان کے ذریعہ اشتعال دلایا جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو سیاست دانوں کی زبان نے الجھن پیدا کردی ہے اور اس میں میڈیا نے سرگرم و نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ جہاں تک راہل گاندھی کی یاترا کا سوال ہے، یہ یاتر ہندوستانیوں سے ہندوستانیوں کو جوڑنے متحد کرنے کی یاترا ہے اور اس کیلئے زبان کو بھی متحد کرنے کی ضرورت ہے۔ لینگویج کا مقصد ہمارے اطراف و اکناف کی دنیا کے بارے میں سمجھانا ہے۔ زبان و بیان کا میدان تیار کرنا ہے۔ حقیقت کا تجزیہ اور تشریح کرنا ہے، لیکن افسوس صد افسوس کہ گزشتہ دہے میں زبان و بیان لب و لہجہ بالکل مختلف ہوگیا جس کا اندازہ موجودہ افعال سے ہوتا ہے۔
یہ اچھی بات ہے کہ بھارت جوڑو یاترا ایک ایسی لینگویج کی ازسرنو تخلیق کررہی ہے، لوگوں کو اتحاد و انصاف کا پیغام دینے کے ساتھ ساتھ انہیں اشتعال انگیز ناشائستہ فحش اور گندی زبان کے مضر اثرات سے واقف کروانے میں اہم کردار ادا کررہی ہے لیکن قومی میڈیا بھارت جوڑو یاترا اور اس کے مقاصد کی کامیابی کو مسلسل نظرانداز کررہا ہے لیکن سوشیل میڈیا اس یاترا کے بارے میں خبروں، تصاویر، ویڈیوز سے بھری پڑی ہے۔ بھارت جوڑو یاترا نے دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی حرکت میں لادیا ہے اور ان کے اقدامات یقینا الفاظ پر مشتمل ہے۔ جہاں تک لفظ، اتحاد، کا سوال ہے یہ ایسا لفظ ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ معاشرہ میں تقسیم ہے۔ معاشرہ بٹا ہوا ہے۔ چاہے وہ مذہب کے نام پر ہو یا زبان کے نام پر یا پھر علاقہ اور ذات پات کے نام پر ہمارا معاشرہ بٹا ہوا ہے۔ یہ لفظ اتحاد خود ہم سے کئی سوالات کرتا ہے اور ہم سے کچھ اچھا کرنے کیلئے کہتا ہے تاکہ ملک کے لوگوں کو مذہب، ذات، پات، علاقہ اور زبان کے نام پر تقسیم نہ کیا جائے۔ اس سے صرف اور صرف ملک کا نقصان ہوتا ہے۔ کانگریس نے اعلان کیا کہ بھارت جوڑو یاترا کا مقصد قوم کو متحد کرنا ہے۔ جب ہم قوم کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب عوام یا لوگ ہوتے ہیں اور ان سے ہی قوم تشکیل پاتی ہے۔ اس کا مقصد اس قدر شاندار ہے کہ اسے خراب کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی، چاہے اس کا چھوٹے لوگ یا تنظیمیں ہی حوالے کیوں نہ دیں۔ اگر کوئی مجھ سے دریافت کرے گا کہ میں اپنے پوسٹرس کے خلاف مشورہ دوں گا ، جن پر خاکی چڈھی کو دکھایا گیا ہو۔ اس طرح کے پوسٹرس کا مقصد کسی کا مضحکہ اڑانا ہے۔ ایک تنظیم اور ایک کارٹونسٹ ایسا کرسکتے ہیں لیکن کسی یاترا کو جس کے مقاصد بہت اعلیٰ ہوں، اسے ایسا کرنا چاہئے؟ میرا جواب صحیح ہے کہ نہیں ہرگز نہیں۔ یاترا کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ سماجی بیانات میں معقولیت، عقل و دانش، تہذیب اور باہمی احترام لائے، اگر اس میں کامیابی ملتی ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ ملک میں سیاسی زبان کو پاک و صاف بنانے میں یاترا کا نمایاں رول رہا۔ یاترا میں ایسی تقاریر کی جاسکتی ہیں ایسا ایک نعرہ دیا جاسکتا ہے جس سے کسی کے جذبات مجروح نہیں ہوں گے اور معاشرہ کے کسی طبقہ کے دلوں میں عداوت کا جذبہ بھی پیدا نہ ہوگا۔
میرے جیسے لوگ چاہتے ہیں کہ کانگریس، ہندوستان کے عوام سے بات کرے۔ کسی سیاسی لیڈر سے یا کسی سیاسی جماعت سے نہیں۔ اس یاترا کے ذریعہ ہمیں لوگوں کو ایک نئی سوچ، ایک نئی فکر دینی چاہئے اور انہیں خود احتسابی پر اُبھارنا چاہئے۔ ساتھ ہی لوگوں کو یہ بتانا ہوگا کہ خود کی برتری، خود سے محبت اور دوسروں سے نفرت بھی نہ کریں۔ ہندوستان ایک عظیم ملک ہے اور لوگوں کو ترغیب دینے کا کام بہت اہمیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر ہندوؤں کو ایسے سوال پر بہت غور کرنا ہوگا کہ وہ کیسے اس مرحلے پر پہنچے ہیں۔ آج یاترا اور اس کے یاتریوں کیلئے سب سے بڑا چیلنج اس زبان کو تبدیل کرنا ہے جسے بی جے پی اور میڈیا نے مقبول عام بنایا اور وہ زبان، طنز و طعنوں، توہین و تذلیل اور جھوٹ کی زبان ہے، آدھا سچ کی زبان ہے۔ اس کا مقابلہ شفافیت، دیانت داری، باہمی احترام، افہام و تفہیم اور مذاکرات کی زبان سے کیا جاسکتا ہے۔