تحریر: شاہد کمال
موجودہ عہد میں اس بسیط و عریض کائنات میں بسنے والی تمام اقوام اپنے عصری مسائل کے ساتھ جدید نظریات سے متصادم نظر آرہی ہیں۔اس تصادم کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ انسانی معاشرتی نظام کے تقاضوں کی اساس میں بڑی تیزی کے ساتھ تبدیلی واقع ہورہی ہے اور اسی کے ساتھ مختلف نظریات بھی وجود میں آرہے ہیں۔جواپنے مسائل کے تصفیہ کے لئے کچھ منطقی جواز کے متقاضی ہیں۔لیکن مختلف مذاہب کے سربرآوردہ حضرات یا تو ان جدید نظریات اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے شعوری طور پر اغماض کرتے ہیں، یا ان کے پاس ان نظریات کے استرداد کے لئے کوئی منطقی استدلال نہیں ہوتا۔انھیں وجوہات کے سبب جدید نظریات سب سے پہلے براہ راست مذہبی نظام کو ہی چیلنج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔مذہبی نظریات اور جدید معاشرتی نظام کی آئیڈیا لوجی کا یہ آپسی ٹکراو ایک فطری عمل کا نتیجہ ہے۔یہ بحث ایک طویل موضوع کی متحمل ہے لہذا میں اس سے شعوری طور پر صرف نظر کرتے ہوئے اپنے اصل موضوع پر آنا چاہتا ہوںاور آج کا میرا موضوع بھی انھیں نظریات سے منضبط ہے۔
آج مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی انھیں نظریاتی تصادم سے دوچار نظر آرہی ہے۔جس میں عالمی سیاست کا ایک اہم رول ہے۔خاص کر مسئلہ فلسطین کو لے کرپورے عالم اسلام میں ایک عجیب کرب کی تذبذبانہ کیفیت پائی جاتی ہے۔مسلمانوں کا ایک گروہ فلسطین کے مجبور و مقہور عوام کے ساتھ ہے اور ایک طبقہ جو آمریت اور ملوکیت نوازوں کا ہے وہ فلسطینی عوام کے مخالف ہے۔اس مخالفت کی اصل وجہ عرب و متحدہ امارات کی امریکہ اور اسرائیل کی ریشہ دوانیاں ہیں۔جس کی وجہ سے فلسطین کے عوام آج بھی خود کو یک و تنہا محسوس کرتے ہیں۔آج ان کی آواز پہ نہ تو کوئی لبیک کہنے والا ہے اور نہ ہی کوئی ان کی امداد و استعانت کرنے والا ۔ مسلمانوں کی یہی مجرمانہ خاموشی صہیونیت کے حوصلوں میں اضافہ کا سبب بنتی جارہی ہیں۔کہ اسرائیل جیسا غاصب ملک خود اہل فلسطین کو ان کے ہی ملک اور ان کی زمین سے ہی بے دخل کردینا چاہتا ہے۔جب کہ یہ ساری دنیا کو معلوم ہے کہ اسرائیل ایک غاصب حکومت ہے،اور اس کا وجود فلسطینیوں کی ارضی سالمیت اور اس کی معیشت کے لئے آج ایک سب سے بڑا سنگین مسئلہ ہے۔اگر آپ ایک نظر اسرائیل کی تاریخ پر ڈالیں گے تو یہ بات آپ پر واضح ہوجائے گی۔ کہ ان تخریب کاریوں کے پیچھے کون سی طاقتیں ہیںجو ہمہ وقت سرگرم عمل رہتی ہیں،635 عیسوی میں اسرائیل سمیت پورا یروشلم کا علاقہ عربوں نے فتح کر لیا ،اور 1300 سوسال تک یہ علاقہ مسلمانوں کے زیر تسلط رہا ۔اس کے بعد 1516 میں اس پر خلافت عثمانیہ کا قبضہ رہا اور پہلی جنگ عظیم تک یہ خطہ ترکی حکومت کے دائرہ اختیار میں رہا۔جب برطانیہ حکومت نے اپنی ڈیوایڈ اینڈ رول کی پالیسی کے تحت عربوں اور ترکوں میں نیشنل ازم کا فتنہ پیدا کیا تو خلافت عثمانیہ کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا، پھر اس کے بعد یہ علاقہ برطانیہ حکومت کی زیر نگرانی آگیا۔ جب دوسری جنگ عظیم برپا ہوئی تو ان یہودیوں نے برطانیہ حکومت کی ناک میں دم کردیا ،اور یہ قوم برطانیہ حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہوگئی۔برطانیہ حکومت ان یہودیوں سے اپنی جان بچانے کے لئے ایک نئی چال چلی کہ ان یہودیوں کے یہاں سے انخلا کے لئے عرب ممالک کو متحد کرلیا ،کہ انھیں کہیں دوسرے جگہ شفٹ کردیا جائے ۔لہذا 14 مئی1948 میں اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی نے فلسطین کے لئے ایک نئی کمیٹی تشکیل دی اور 3؍ستمبر 1947 کو اس قرار داد کی توثیق کردی کی گئی ،کہ برطانیہ سے یہودیوں کا انخلا کرکے عرب ریاست میں انھیں رہنے کے لئے جگہ دی جائے۔اس شرط کے ساتھ کہ یروشلم شہر کواقوام متحدہ کی نگرانی میں ہی رکھا جائے۔یہودیوں کی ایک تنظیم جیوش ایجنسی نے اس قرار داد کو قبول کر لیا۔اس کے بعد یہودیوں نے وہی تشدد آمیز رویہ اور تخریبانہ اقدام فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھا۔ جو برطانیہ حکومت کے خلاف انھوں نے شروع کیا تھا۔ جس کی وجہ سے فلسطین کی معیشت تباہ ہونے لگی اور ان شرپسند یہودیوں کے حملوں سے فلطینیوں پر ہی خود ان کی زمین تنگ ہونے لگی ۔جس کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں فلسطینیوں نے یہودیوں کے ظلم و بربریت سے عاجزآکر اپنی زمین اور گھر بار کو چھوڑ کر بڑی حسرت ویاس کے ساتھ اپنے ملک فلسطین کو الوداع کہہ کر وہاں سے ہمیشہ کے لئے ہجرت کرگئے۔
14؍ مئی 1948 میں برطانیہ حکومت کے اقتدار کی بساط الٹنے سے ایک دن پہلے ہی یہودیوں کی مشہور جیوش ایجنسی کے رہنما’’ ڈیوڈبن گوریان‘‘ نے اسرئیل کے نام سے ایک الگ مملکت کے قیام کا اعلان کردیا،یہودیوں کی یہ سازش رنگ لائی اور 11؍مئی 1949 میں یو این یو میں رائے دہندگان کی اکثریت نے اسرائیل کو اقوام متحدہ کا ایک اہم رکن منتخب کرلیا۔اس کے پیچھے عربوں کی بزدلی کار فرما رہی چونکہ عرب حکومت نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے ،اسرائیلی حکومت کی مزاحمت سے اپنے قدم پیچھے کھینچ لئے۔جس کی وجہ سے اسرائیلوں نے بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ فلسطینیوں سے ان کے بہت سے علاقے چھین کر اپنی ریاست میں شامل کرلیے ،اور عرب ممالک خاموشی کے ساتھ یہ تماشہ دیکھتے رہے۔
عرب کے تعیش پسند اور بزدل حکمراں نے 1960 کی آخری دہائی میں مزید خوف کی وجہ سے اپنے قدم پیچھے ہٹا لئے کہ کہیں اسرائیل دریاے اردون کا رخ موڑ کر انھیں پانی سے نا محروم کردے اس لئے وہ کسی اقدام سے خود کو دور رکھا ۔جس کی وجہ اسرائیل ، شام اورلبنان کے درمیان حالات بہت کشیدہ ہوگئے ،یہی وجہ تھی کہ1967 میں جب اسرائیل نے غزہ پٹی پر اپنا قبضہ جمایا لیا تو فلسطین کو پانی کے ساتھ انھیں دیگر حقوق سے بھی محروم کردیا ۔اسرائیل کی مسلسل ایذا رسانیوں سے تنگ آکر 1987 میں فلسطینیوں نے پہلا احتجاج کیا اور غزہ میں مظاہرے کے درمیان تشدد بھڑک اٹھا اور یہ سلسلہ چھ سال تک مسلسل چلتا رہا جس کی وجہ سے فلسطینیوں کی انقلابی تحریک بہت منظم ہوگئی اپنے حقوق کے لئے مسلسل مظاہرے سے ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ فلسطینی شہید ہوگئے۔فلسطینیوں کے حقوق اور ان کے تحفظات کے لئے حماس جیسی تنظیم اسرائیل کے مقابلے پر نبر د آزما ہوگئی۔اپنے حقوق کی بازیابی کی لئے جنگ لڑنے والی تنظیم حماس کے ساتھ لبنان کی مقاومتی تنظیم حزب اللہ بھی حماس کے شانہ باشانہ کھڑی ہوگئی۔جس کی وجہ سے آج اسرائیل کی نیند حرام ہوگئی ۔لہذایہودیوں نے بڑے منصوبہ بند طریقے سے حماس اور حزب اللہ سے نمٹنے کے لئے’’ داعش ‘‘اور ’’جبہۃ النصرہ‘‘ کے نام سے ایک دہشت گرد گروہ کو جنم دیا ، جس کی ٹرینگ اسرائیل نے امریکہ کی سرپرستی اور سعودیہ اور قطر کی مالی امداد سے اردن جیسے شہر میں کی ۔جن کا اصل مقصد اسرائیل کا تحفظ تھا،اور دنیائے اسلام میں پیدا ہونے والی بیداری میں رخنہ اندازی پیدا کرنا،اور اسلام جیسے سافٹ کارنر رکھنے والے مذہب کو دہشت گردی کے نام سے پرموٹ کرنا تھا۔ان گروہوں کی سفاکیت و بربریت اور ظلم و جنایات نے ساری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا۔جس کی وجہ سے لوگ اسلام کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگے۔اس دہشت گردی کے کھیل میں سعودیہ عربیہ نے عربوں ڈالر خرچ کئے تاکہ مسلمانوں کے درمیان آپسی اتحاد نہ قائم ہوسکے۔لیکن مشرق اوسطیٰ کی مزاحمتی تنظیموں اور دیگر حلیف ممالک کی استعانت سے آج داعش اور جبہۃ النصرہ جیسی تنظیموں کو شکست دے کر سعودیہ عرب کے ساتھ اسرائیل اور امریکہ کے دیرینہ خواب کو چورچور کردیا۔
لیکن یہ بات قابل غور ضرور ہے کہ قضیہ فلسطین اور مسئلہ عراق ، سیریا ،یمن اور بحرین کی سب سے اہم کڑی سعودیہ عربیہ اور متحدہ عرب امارات کے عیش پسند امرا و سلاطین کی بزدلی ہے۔جنھوں نے اپنے اوپر امریکہ اور اسرائیل کا خوف اسقدر مسلط کر رکھا ہے کہ وہ ہزاروں کلوں میٹر دور اگربلند آواز سے چھنکتے ہیں توعرب حکمرانوں کے ایوان شاہی اور ان کا تختہ اقتدار خوف و ہراس سے لرزنے لگتا ہے۔ لیکن یہی بزدل حکمراں جب بے گناہوں اور مظلوموں اور مجبوروں کے خلاف اپنی زبان کھولتے ہیں تو خدا کے لہجے میں گفتگو کرتے ہیں۔ اس لئے آج اسلام کو اسرائیل اور امریکہ سے اتنا خطرہ نہیں ہے۔ جتنا کہ مسلمانوں کے اس خودساختہ قائد اور خادم الحرمین شریفین سے ہے۔آج فلسطین کی محکومی اور بیت المقدس پر اسرائیلیوں کے ناجائز قبضہ کی وجہ اصل میں عرب کے یہی مطلق العنان بادشاہ ہیں ۔جو اپنے اقتدار کے تحفظ کے لئے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔اگر یہی عرب ممالک ایک زبان ہو کر فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کی بازیابی کے لئے اپنی آواز بلند کریں تو تمام مسلمانان عالم ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسرائیل اور امریکہ جیسی طاغوتی طاقتوں کے کاسہ اقتدار کو اپنے ٹھوکروں کی ایک ضرب سے ہوا میںاچھالنے کی ہمت و جرات رکھتے ہیں ۔مجھے اسرائیل کے سلسلے میں بانئی انقلاب جمہوری اسلامی ایران آیۃ اللہ خمینی کی تقریر کا ایک جملہ یاد آرہا ہے جو ’’یوم القدس ‘‘ کے موقع پر انھوں نے کہا تھا۔’’ اگر دنیا کے تمام مسلمان متحد ہوکر اسرائیل پر ایک ایک بالٹی پانی ڈال دیں تو اسرائیل کا وجود ختم ہوجائے گا۔‘‘کاش ایسا ممکن ہوتا ۔
لیکن ایسا نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ امریکہ کی سامراجیت،اسرائیل کی صیہونیت اور عرب ملکوں کی آمریت کا سب سے بڑا دخل ہے۔جو وہ کسی بھی صورت میں فلسطین کے مظلوم عوام کے حق میں ایک بھی ہمدردی کے لفظ بولنے سے اس لئے قاصر ہے کہ ان کے آقا(اسرائیل اور امریکہ) ان سے ناراض ہوجائیں گے اور جس کی وجہ سے انھیںاپنے تخت و اقتدار سے کہیں دست بردار نہ ہونے پڑے۔اس لئے وہ مسلمانوں کے تمام اساسی مسائل سے گریز پا ہیں ۔مزید یہ کہ مسلمانو ں کے آپسی اتحاد کو مسلکی منافرت کا رخ دینے کے لئے اپنے وظیفہ خوار ملاوں کو تعینات کررکھا ہے۔جو اپنی عفونت زدہ جہالت آمیز تقریروں سے عوام کے جذبات کو مشتعل کرتے رہتے ہیں۔عوام کو چاہئے کہ ایسے مولوی اور ملاؤں کو اپنے سے دور رکھیں جو ایک دوسرے مسلک کے مقدسات کو اپنا ہدف ملامت گردانتے ہیں۔
اس لئے کہ امریکہ اسرائیل اور سعودیہ حکومت کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ جس دن مسلمان بیدار ہوجائیں گے اور ان کے درمیان آپسی ہمہ ہنگی اور اتحاد کے راستے استوار ہوگئے تو اس دن ان کے مزموم مقاصد اور ان کے تخریب کارانہ منصوبوں کی دھجیاں بکھر جائیں گی۔لہذا ان صہیونیت امریکیت نوازوں کی اولین ترجیحات میں یہ شامل ہے کہ مسلمانوں کو کبھی متحد نہ ہونے دیا جائے،اور مسلمانوں کے درمیان عدم اتحاد کی وجہ سے اسرائیل کا سب بڑافائدہ یہ ہے کہ اسرائیل نے اپنی بقا و توانائی کے لئے مسلمان ممالک میں میدن جنگ کو کافی توسیع دی ہے۔پورے عالم عرب میں شام ہی ایک ایسا واحد ملک ہے جو حکومتی سطح پر حزب اللہ اور حماس جیسی مقاومتی اور مزاحمتی تنظیم کی ہر ممکن مدد کرتا رہا ہے۔
امریکہ و اسرائیل کو یہ بات اچھی طرح پتہ ہے کہ عرب ممالک میں خاص کرسیریا ،عراق ، یمن اور بحرین کے مسائل کی کلیداصل میں فلسطین ہے۔اگر فلسطین کے اس قضیہ کو امت مسلمہ جس دن آپسی اتحاد سے حل کر لے گی اس دن یہ تخریبی قوتوں کی تمام فتنہ پردازیاں خود بخود اپنا دم توڑ دیں گی۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو فسلطین کے مسائل میں اس طرح الجھا دیا ہے۔ کہ ان کی نگاہ اس مسئلہ سے آگے بڑھتی ہی نہیں۔اب وقت آچکا ہے کہ تمام عالم اسلام کو چاہئے کہ بیت المقدس کے تحفظ اور مسلمانوں کے قبلہ اول کی بازیابی کے لئے قوم و ملت مذہب و مسلک کی سطح سے بلند ہوکر ایک آواز کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں اور امریکہ اسرائیل اور ان کے ایجنڈوں کو یہ بتا دیں کہ مسلمان بیدار ہوچکے ہیں۔کا ش ایسا ہوجاتا تو کتنا اچھا ہوتا۔لیکن ابھی تعصب و نفرت اور مسلکی منافرت کی دھند اتنی تیز ہے کہ اس میں ہماری اصل شناخت کھوچکی ہے۔۔۔خدا جانے یہ دھند کب چھٹے گی اور تعصب کی اس اندھیری رات میں کب کوئی امید کا ستارہ نمودار ہوگا جو ہمیں ہمارے زندہ ہونے کی خبر دے گا۔ہم آج خود سے مایوس ضرور ہیں ،لیکن خدا کے کئے ہوئے وعدے سے ناامید نہیں ہیں۔اُس نے ہم سے وعدہ کیاہے ’’کہ انتظار کرو اس دن کا جب ہم ظالموں کو زیر و زبر کردیں گے‘‘۔میں اپنی اس بات کا اختتام اپنے اس شعر پر کرنا چاہتا ہوں۔
ابھی تو پابند مصلحت ہیں یہ تیرے جذبے اطاعتوں کے
تری طبیعت میں اے مسلماں نممود پیغمبری نہیں ہے