-
لوک سبھا الیکشن 2019 : بہار اور اُترپردیش کے مسلمانوں کے لیے آزمائش
- سیاسی
- گھر
لوک سبھا الیکشن 2019 : بہار اور اُترپردیش کے مسلمانوں کے لیے آزمائش کی گھڑی
1262
m.u.h
03/04/2019
0
0
مرشد کمال
لمحہ بہ لمحہ بدلتے سیاسی منظر نامے اور اور بنتے بگڑتے سیاسی محاذ نے جہاں ایک طرف ملک کے سیکولر اور امن پسند طبقے کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے وہیں بڑے بڑے صحافی اور ماہر تجزیہ نگار بھی اب تک اس بات کا صحیح اندازہ لگا پانے سے قاصر ہیں کہ ۲۰۱۹ کے انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پائی لوک سبھا کی شکل کیا ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ۲۰۱۹ کا الیکشن گزشتہ تمام انتخابا ت سے مختلف یوں ہے کہ یہ کسی سیاسی جماعت کی اقتدار سے بے دخلی اور کسی جماعت کی حکومت سازی کا معاملہ محض نہیں ہے، بلکہ یہ ملک کے آئین، جمہوری اقدار اور تکثیریت کی بقا اور اس کے تحفظ کی جنگ ہے۔ ہمیں اگران فسطائی اورآئین مخالف قوتوں کے بڑھتے قدموں کو لگام دینا ہے توسنجیدگی، حکمت اور تدبرکا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ عددی اعتبار سے ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت ہونے کے ناطے ہم ایک ایسی مضبوط حیثیت میں ہیں کہ اگر ہم نے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہر ہ کیا تو ہم جہاں ایک طرف فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دے سکتے ہیں وہیں اُن نمائندوں کوبھی ایوان میں بھیجنے میں کامیا ب ہوسکتے ہیں جو حق کی آواز بن کرایوان سے سڑک تک مظلوم اور کمزور مسلمانوں کی انصاف کی لڑائی لڑنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
۲۰۱۴ کے عام الیکشن کے نتائج کا منصفانہ تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ تمام حکومت مخالف لہر اور فرقہ پرستو ں کی نفرت کی سیاست کے باوجوداگر این ڈی اے مخالف جماعتوں میں انتشار کے نتیجے میں سیکولر ہندو ووٹ باالعموم اور مسلم ووٹ باالخصوص، مختلف پارٹیوں میں تقسیم نہ ہوئے ہوتے توبی جے پی کا اقتدار میں آنا بہت مشکل تھا۔ اپنے سابقہ تجربات سے حوصلہ پاکر بی جے پی اس بارکے الیکشن میں بھی سیکولر ووٹو ں کی تقسیم ہونے کی آس لگائے بیٹھی ہے۔ اُتر پردیش میں ایس پی۔ بی۔ ایس پی اور آرایل ڈی کے مضبوط اتحاد کے باوجود کانگریس کا اُتر پردیش کی تمام نشستوں سے علیحدہ الیکشن لڑنا بی جے پی کے لیے نعمت ِ غیر مترقبہ ثابت ہوسکتی ہے۔ سب سے زیادہ خطرہ مسلم اکثریت یا قابل اثر مسلم آبادی والے مغربی اُتر پردیش کی پارلیمانی نشستوں پر منڈلانے لگا ہے جہاں ایک سے زیادہ مسلمان اُمید وار بی جے پی کے تنہا غیر مسلم اُمیدوار کے مدمقابل ہیں۔
قابل تشویش بات یہ ہے کہ اُتر پردیش میں سماجوادی اور بہوجن سماج پارٹی کا ایک ایسامسلم کیڈر تیار ہوچکا ہے جو حالات کے مطابق ٹیکٹیکل ووٹنگ کے بجائے ہر حال میں اپنی پارٹی کے اُمیدوار کو ووٹ ڈالنے کو ترجیح دیتا ہے، خوا ہ اس اُمیدوار کی کامیابی کے امکانات کتنے ہی معدوم کیوں نہ ہوں۔ جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہمیں کسی پارٹی کا کیڈر یا ووٹ بینک ہونے کے بجائے حکمت عملی کے تحت بی جے پی اور اس کے اتحادی جماعتوں کے امیدواروں کے خلاف سب سے مضبوط اُمیدوار کو متحد ہوکر ووٹ ڈالنا چاہیے اور اس میں ہندو مسلم کی تفریق بالکل نہیں کی جانی چاہیے۔ اُتر پردیش میں اگرسماجوادی یا بہوجن سماج پارٹی کے کوئی نااہل اور کمزور مسلم اُمیدوار کے مقابلے اگر کانگریس کا کوئی سیکولراورمضبوط غیر مسلم اُمیدوار بھی میدان میں ہے تو ہمیں اُسے ایک طرفہ حمایت سے کامیا ب بنانا چاہیے۔ ہمارا فارمولہ Constituency- specific ہو نا چاہیے اور ہر پارلیمانی نشست کے مخصوص حالات کے پیش نظر زمینی حقائق کو سامنے رکھ کرحکمت عملی تیار کی جانی چاہیے نہ کہ یکطرفہ کسی مخصوص پارٹی کے پلڑے میں اپنا سارا وزن ڈال دینا چاہیے۔
اُترپردیش کے مقابل بہار کی صورتحال نسبتاً مختلف ہے۔ یہاں کی ۴۰ نشستوں میں کم وبیش تمام نشستوں پر سیدھا مقابلہ این ڈے بنام عظیم اتحاد کے ہونے کے آثار ہیں، جس میں مسلم ووٹوں کی تقسیم کا خدشہ تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ لیکن بعض اہم نشستیں ایسی بھی ہیں جس پر پورے ملک کی نظر ہے اور یہاں مسلمان ووٹروں کو آزمائش سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔ ایسا ہی ایک پارلیمانی حلقہ بیگوسرائے بھی ہے جہاں سے نوجوان سوشلسٹ لیڈر کنہیا کمار سی پی آئی کے اُمیدوار ہیں جن کا مقابلہ بی جے کے متنازعہ اورشدت پسند اُمیدوار گری راج سنگھ سے ہے۔ توقع اس بات کی تھی کہ بی جے پی کے بدنام زمانہ وزیر اور صبح شام مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے گری راج سنگھ کے خلاف کنہیا کمار کو اپوزیشن کا مشترکہ اُمیدوار بنایا جاتا اور گری راج سنگھ کو بھاری ووٹوں سے شکست دے کر نشان ِ عبرت بنا دیا جاتا لیکن خود غرض اور موقع پرست سیاست نے ایسا نہ ہونے دیا اور آر جے ڈی نے ایک مسلم اُمیدوار کے نام کا اعلان کر گری راج سنگھ کے خلاف اپوزیشن کا ایک مضبوط مشترکہ اُمیدوا ر کے منصوبے پر پانی پھیر دیا جس سے سیکولر اور مسلم ووٹوں کی تقسیم کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
بیگوسرائے میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب اتنا تو نہیں کہ کوئی مسلم اُمیدوار محض مسلم ووٹوں کی بنیاد پر جیت کی توقع کرے لیکن اتنا ضرور ہے کہ ۱۴ فیصد کا ایک مضبوط ووٹ بینک جو تقریباً ڈھائی لاکھ ووٹوں پر مشتمل ہے کسی بھی اُمیدوار کی ہار جیت میں فیصلہ کُن رول ادا کرسکتاہے۔ گرچہ بیگوسرائے کے مسلمان ووٹروں کے درمیان کنہیا کمار کی زبردست مقبولیت ہے اور اُمید ہے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد اُن کی حمایت میں اپنی رائے دہی کا استعمال کرے گی۔ لیکن چونکہ بیگوسرائے پر پور ے ملک کی نظر ہے اور اس کا نتیجہ ملک میں سیکولرزم، ہندو مسلم تعلقات اور رواداری کی نظیر کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اس لیے بیگوسرائے کے مسلم ووٹروں پر تاریخ بنانے اور مثال قائم کرنے کی ذمہ داری ہے۔ بیگوسر ائے کے مسلم ووٹروں کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ فرقہ یا مذہب کی بنیاد پر یا کسی مخصوص پارٹی کے مسلم حاشیہ برداروں کے ووٹ بینک بننے کے بجائے ایسی طاقتوں کو مضبو ط کرینگے جو ببانگ دہل اور بغیر کسی مصلحت اور پارٹی لائن سے آزاد ہوکر سڑک سے سے لے کر پارلیامنٹ کے ایوانوں تک اُن کے حق کی آواز بُلند کر سکے۔ بیگوسرائے کی با اثراور صاحب حیثیت ملی اور سماجی حلقوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس با ت کو یقینی بنائیں کہ کنہیا کمار کی بھاری اکثریت سے جیت کا سہرا مسلمانوں کے سر بندھے اور ایک ایسی نظیر قائم ہوجو ملک میں نفرت اور تعصب کے حواریوں کے لیے عبرت کا سامان بن جائے۔
بہارکی دوسری سب سے اہم نشست جس پر پورے ملک کی نظر ہے اورجہاں سے مسلمان ووٹروں کو آزمائش کا سامنا ہے وہ بہار کے شمال مشرقی علاقے سیمانچل کے کشن گنج پارلیمانی حلقے کی ہے، جہاں سے سابق ایم ایل اے اور صوبہ بہار کے مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اخترالایمان میدان میں ہیں۔ ایک محطاط اندازے کے مطابق کشن گنج ۷۰ فیصد مسلم آبادی والا بہار کاسب سے اکثریتی انتخابی حلقہ ہے اور یہا ں سے ہمیشہ سے مسلم اُمیدوار ہی منتخب ہوتے آئے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کشن گنج بہارکے دیگر علاقوں کے مقابلے میں انتہائی پسماندہ اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ بیماری، غربت اور تنگدستی کے شکار اس ضلع میں زندگی کی بنیادی سہولتیں مثلاً اسکول، کالج، ہسپتال اور پینے کے صاف پانی کی شدید قلت خلق خدا کے حُلیے اور چہروں سے عیاں ہوتی ہے۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ۱۰ سالوں تک یہاں کی قیادت کانگریس کے ممبر پارلیامنٹ کی حیثیت سے ایک مشہور عالم دین مرحوم مولانا اسرار الحق قاسمی کے ہاتھوں میں رہنے کے باوجود یہ علاقہ علم و ہنر سے اس قد ر محروم کیونکر رہ گیا، وہ بھی اُس وقت جب پانچ سالوں تک مرکز میں کانگریس کی قیادت میں سرکار موجود تھی۔
دراصل حقیقت یہ ہے کہ مولانا کی مذہبی حییثیت اور اُن کی کشن گنج کے مسلمانوں سے مذہبی عقیدت کا فائد ہ اُٹھاتے ہوئے کشن گنج کو کانگریس محض اپنے لیے پارلیامنٹ کی ایک آسان سیٹ کے طور پر دیکھتی اور یہاں کے غریب اور ناخواندہ ووٹروں کا استحصال کرتی رہی، اور جب بات کشن گنج کے لیے کسی خصوصی پیکج یا کسی ترقیاتی منصوبے کی آتی تھی تو مولانا کو پارٹی لائن کے حدود میں رہنے کی نصیحت کر خاموش کر دیا جاتا اور مولانا لاچاری اور بے بسی کی تصویر بنے صبر وشکر کے ساتھ یادِ خداوند ی میں مصروف ہوجاتے۔ حد تو اُس وقت ہوگئی جب پارلیمنٹ میں تین طلاق پر بحث ہورہی تھی اور مسلمانوں کے موقف پر اکیلا مورچہ ایم آئی ایم کے صدر اسدالدین اویسی نے سنبھال رکھا تھا اور این سی پی اور کانگریس کی دو شعلہ بیان خاتون مقررین محترمہ سپر یا سولے اور محترمہ رنجیت رنجن نے پارٹی لائن سے اوپر اُٹھ کر مسلمانوں کے موقف کی زبردست تائید کی تھی، ایسے وقت میں مولانا کو کانگریس ہائی کمان سے اجازت نہ ملنے کی صورت میں قوم کو سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب کہ مولانا اُ سی مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبر بھی تھے جس کی پہل پر محترمہ رنجیت رنجن اور محترمہ سُپریا سولے نے مسلمانوں کے موقف کی وکالت کی تھی۔ مسلمانوں کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ ہمیں کیا اس طرح کی مسلم قیادت اور پارلیامنٹ میں علامتی نمائندگی کی واقعی کوئی ضرورت ہے جو عین ضرورت اور بحران کے وقت مصلحت کا شکار ہوجائے یا پارٹی ہائی کمان کے اشارہ ابرو کی محتاج بنا دی جائے۔ اب چونکہ مولانا اس دنیا میں نہیں ہیں اور اُن کی جگہ کانگریس پارٹی نے ایک بار پھرپارٹی کے ایک وفادار مسلم چہرے کو اُمیدوار بنایا ہے جو پارلیامنٹ میں ہماری علامتی نمائندگی کا بوجھ اُٹھا سکے، ایسے میں ایم آئی ایم کے اُمیدوار کی حیثیت سے اخترالایمان کی امیدواری نہ صرف کشن گنج کے مسلمانوں کے لیے بلکہ پورے سیمانچل اور ہندستان کے مسلمانوں کے لیے اپنی قیادت کو پارلیامنٹ بھیجنے کا ایک سنہری موقع ہے۔ اس سے جہاں ایک طرف کشن گنج میں ایمانداری سے ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد ہوگا اور حیدر اباد کی طرز پر اسکولوں کالجوں اور ہسپتالوں کا قیام عمل میں آئے گا وہیں پارلیامنٹ میں مسلمانوں کی ایک مضبوط اور موثر آواز ہوگی اور بیرسٹر اسدالدین اویسی کی قوت کو بھی تقویت ملے گی۔ گزشتہ پانچ سالوں سے جس طرح ایم آئی ایم کے صدرفرقہ پرستی اور فسطائیت کے خلاف ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں اور پارلیامنٹ کے اندر اور باہرجس حوصلہ سے مسلمانو ں کے موقف کی نمائندگی کررہے ہیں وہ قابل تعریف ہے اور قوم کی بھی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ایسی بے باک اور باحوصلہ قیادت کے ہاتھوں کو مضبوط کرے۔
اور آخر میں ایک سب سے اہم بات یہ کہ ہماری مذہبی اور ملی قیادت کسی بھی پارٹی یا اُمیدوار کی حمایت میں یا مخالفت میں کوئی اپیل جاری نہ کرے تاکہ فرقہ پرستوں کو مخالف پروپگینڈے کے لیے موادفرا ہم نہ ہوجائے۔ بلکہ اگر کچھ کرنا ہے تو خاموشی سے ہر حلقہ میں، ہر محلہ اور ہر پولنگ بوتھ پر یہ یقینی بنائیں کہ ہمارے بڑے، بزرگ اور خواتین سب بڑی تعداد میں باہر نکلیں اور اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں۔ ۸۰ فیصد مسلم پولنگ کے چیلنجنگ ہدف کو قبول کریں اور اس کے لیے پولنگ کے دن اپنی تمام ذرائع اور توانائی کا استعمال کریں۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)