-
یوگی آدتیہ ناتھ نے نفرت کی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
- سیاسی
- گھر
یوگی آدتیہ ناتھ نے نفرت کی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
199
M.U.H
01/03/2025
0
0
تحریر:عادل فراز
اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بظاہر ایک سنت ہیں ۔یہ الگ بات کہ ان میں سنتوں جیسی عظمت نظر نہیں آتی ۔سادھوسنت دنیا سے بے نیازی اور مخلوق سے محبت کے لئے جانے جاتے ہیں ۔مگر یوگی آدتیہ ناتھ کے بیانات سے ظاہر ہوتاہے کہ ان کے دل میں مذہب کا احترام ہے اور نہ خلق خداسے محبت کا جذبہ کارفرماہے ۔وہ جب بھی زبان کھولتے ہیں نفرت کا زہر ہی اگلتے ہیں ۔وہ کبھی ’علی اور بجرنگ بلی ‘ کا تقابل کرکے اقتدار کی کرسی تک پہونچنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی مسلمانوں کے تشخص پر سیدھاحملہ کرکے ’تقسیم کرواور حکومت کرو‘ کے ایجنڈے پر عمل کرتے نظر آتے ہیں ۔ایک ’یوگی‘ کو یہ نفرت آمیز لہجہ زیب نہیں دیتا۔انہوں نے بجٹ اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بی جے پی اقلیتی بچوں کو صرف روایتی مدارس تک محدود نہیں رکھنا چاہتی بلکہ انہیں ملّا اور مولوی بنانے کے بجائے ڈاکٹر ،انجینئر ،سائنس داں اور ادیب بننے کا موقع فراہم کرنا چاہتی ہے ۔اس کے لئے انہوں نے زبردستی اے پی جے عبدالکلام کو بطور مثال پیش کیا،جب کہ وہ یہ بتلانابھول گئے کہ ان کی ابتدائی تعلیم بھی مدرسے میں ہوئی تھی ۔اے پی جے عبدالکلام سے پہلے اگر وہ مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا حسرت موہانی اورمولوی محمد باقرکانام لیتے تو شاید زیادہ موثر ہوتا۔مگر ان کا نام لینا یوگی آدتیہ ناتھ کی منافرانہ حکمت عملی کے خلاف تھاکیونکہ وہ سب مدارس کے فارغ التحصیل تھے جنہوں نے ہندوستان کی آزادی اور ترقی میں نمایاں کردار اداکیاتھا۔مولانا آزادتو آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم بھی تھے ،لہذا اُن کاتذکرہ اس موقع پر زیادہ موزوں ثابت ہوتا۔مولانا حسرت موہانی نے آزادی میں کلیدی کرداراداکیااور وہ ایک بہترین ادیب و شاعر بھی تھے ۔افق ادب پر تو مولانا ابوالکلام آزاد کا نام بھی تابندہ ودرخشندہ ہے اس لئے ماہر تعلیم ہونےکے ساتھ انہیں ادبی نثرلکھنے پر بھی دسترس تھی۔ان دونوں شخصیات سے پہلے اردو کے اولین باضابطہ صحافی مولوی محمد باقر دہلوی کا نام لیاجاسکتاتھاجنہوں نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے صحافیوں کے لئے مثال قائم کی تھی۔مولوی محمد باقر ہندومسلم اور شیعہ وسنّی اتحاد کے علم بردار بھی تھے ۔اس کے لئے ان کے اخبار ’دہلی اردواخبار‘ کے شماروں کا مطالعہ کیاجاسکتاہے ۔اسی جرم میں انگریزوں نے انہیں قتل کردیاتھا،مگر یوگی آدتیہ ناتھ ان کا نام نہیں لے سکتے تھے کیونکہ مولوی محمد باقر بھی مدرسے کے فارغ تھے ۔۱۸۵۷ء تک دہلی کے پنجہ شریف کے قریب ان کا مدرسہ موجود تھاجہاں انگریزی تعلیم بھی دی جاتی تھی ۔شاید یہ ہندوستان کا پہلا ایسامدرسہ تھاجہاں مذہبی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا انتظام بھی تھا۔
یوگی آدتیہ ناتھ اسکولوں میں مفت تعلیم کی بات کرتے ہیں جب کہ ہندوستان میںتعلیم ایک بڑے بزنس میں تبدیل ہوگئی ہے ۔ہندوستان میں تعلیم سے بڑااور سودمند کوئی دوسرابزنس نہیں ہے ۔یہ کھیل بھی سرکاری سرپرستی میں کھیلاجارہاہے جس کی طرف نہ تو عوام متوجہ ہیں اور نہ ہمارے ملّی و سیاسی قائدین ۔سرکاری اسکولوں کی حالت کیاہے یہ تو یوگی جی بہتر جانتے ہوں گے؟ان کی پارٹی کے رہنمائوں کے کتنے بچے سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں اس کے اعدادوشمار بھی انہیں عوام کے سامنے پیش کرنے چاہئیں۔وسرے وہ یونیورسٹیاں جو ریاست یا مرکز کے ماتحت ہیں اور جہاں یوجی سی کا نظام مروج ہے ،ان کی صورتحال بھی قابل ذکر نہیں ہے ۔اعلیٰ تعلیم کو مسلسل مہنگاکیاجارہاہے ۔انٹرمیڈیٹ کے بعد مڈل کلاس طبقہ بھی یونیورسٹی کی فیس کو برداشت نہیں کرسکتاچہ جائیکہ غریب اور پسماندہ طبقات کی بات کی جائے ۔یونیورسٹی کے اساتذہ جو کل تک صرف تعلیم وتدریس اور تصنیف وتالیف میں مصروفرہتے تھے ،ان کے ساتھ عام ملازموں جیسابرتائو کیاجارہاہے۔اس لئے یوگی آدتیہ ناتھ کو چاہیے کہ وہ مدرسوں سے پہلے سرکاری اسکولوں اور اترپردیش کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نظام تعلیم وتدریس کی بہتری پر توجہ صرف کریں ۔دوسرااور اہم نکتہ یہ ہے کہ سرکار کا ہدف موجودہ نسل کو تعلیم یافتہ بنانانہیں ہے اور نہ سرکارنے اس راہ میں کوئی نمایاں پیش رفت کی ہے ۔کیونکہ تعلیم یافتہ ہندوستان میں نفرت اور تقسیم کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوگی ،اس لئے تعلیم کے نام پر فقط تعلیم کا ڈھنڈوراپیٹاجارہاہے ۔ورنہ آج تک سرکارنے تعلیم کو تجارت بننے سے روکنے کے لئے کوئی موثر اقدام نہیں کیا۔اسکولوں میں تعلیم کا معیار انتہائی ناقص ہے اور بچے ہوم ٹیوشنز کے بغیرکامیاب نہیں ہوسکتے ۔اس پر مسلسل کتابوں کا بڑھتاہوابوجھ ،اور ان کتابوں کی آسمان چھوتی قیمتیں ۔کیونکہ سرکاری نصاب کی ہر سال غیر ضروری تبدیلی ،اس کی چھپائی اور نصابی کتابوں کی اشاعت کے اربوں کھربوں روپوں کی مالیت کے ٹھیکے اور ان ٹھیکوں کی آمدنی پر کبھی گفتگونہیں ہوتی ۔اس سے بہتر تو مدارس کا فرسودہ نظام ہے جہاں طلبہ کو مفت تعلیم تومہیاکرائی جاتی ہے ۔
یوگی آدتیہ ناتھ اگر مدارس کی تاریخ کا مطالعہ کریں گے توان پر یہ حقیقت منکشف ہوجائے گی کہ مدرسوں کے فارغ التحصیل طلبہ میں صحافی بھی ہوئےہیں ،ادیب و شاعر بھی ۔اُن میں مشہورطبیب بھی ہوئے اور انجنیئروسائنس داں بھی ۔۱۸۵۷ء کے بعد انگریزوں نے مدارس کے ساتھ وہی رویہ اختیارکیاجو موجودہ سرکاریں اپنائے ہوئے ہیں ۔کیونکہ انگریزی نظام کے خلاف سب سے زیادہ موثر اور توانا آواز علما کی طرف سے اٹھی تھی ،اس لئے مدارس کی روح کو ختم کرنے کے لئے نصاب تعلیم میں تبدیلی کی گئی ۔جس نصاب کو پڑھ کر مدرسے کے طلبہ طبیب ،سائنس داں اورانجینئر بن رہے تھے ،اس نصاب تعلیم کی جگہ قصے کہانیوں کی کتابیں شامل کردی گئیں ۔نتیجہ یہ ہواکہ مدارس میں صرف مذہبی تعلیم رہ گئی اور اس کی صورتحال بھی رفتہ رفتہ ناگفتہ بہ ہوتی گئی ۔ورنہ انہی مدارس سے میر فتح اللہ شیرازی اور حکیم گیلانی جیسے افراد نکلے ۔میر فتح اللہ شیرازی کی سائنسی مہارت کو اکبر کے عہد کے تمام مورخین نے بیان کیاہے ۔موجودہ مشین گن انہی کی ایجاد ہے ۔انہوں نے اس زمانے میں ایسی بندوق بنائی تھی جو ایک بار میں بارہ گولیاں فائر کرتی تھی ۔انہوں نے قلعہ شکن توپ بھی ایجاد کی تھی جو چوڑیوں کی طرح الگ الگ ہوجاتی تھی ۔جراثقال میں انہیں مہارت حاصل تھی ۔علم فلکیات میںیدطولیٰ رکھتے تھے ۔حکیم ابوالفتح گیلانی اور حکیم علی کے طبی کرشمے بھی عام تھے ۔حکیم علی نے تو ایساطلسمی تالاب بنایاتھاجس میں غوطہ لگاکر انسان سیڑھیوں تک پہونچ جاتاتھا۔ان سیڑھیوں سے اترنے کے بعد فرش وفروش سے سجے سجائے کمرے میں پہونچ جاتاتھاجس میں دس بارہ آدمیوں کے اٹھنے بیٹھنے کی گنجائش موجود تھی ۔اس تالاب میں اکبر بھی گیاتھاور جہاں گیر نے بھی اس کا تجربہ کیاتھاجس کا ذکر تزک میں بھی موجود ہے ۔
۱۸۵۷ء کے بعد مدارس کی صورت حال ناگفتہ بہ ہوتی گئی ،جس پر نہ تو مسلمانوں کو غوروخوض کا موقع ملااور نہ ۱۹۴۷ء کے بعد حکومت نے اس طرف توجہ دی ۔وہ علما جو زمانےکے تقاضوں سے ہم آہنگی کو مذہبی فریضہ سمجھتےتھے ان کے یہاں جدید ٹیکنالوجی سے نفرت درآئی ۔جس طرح کلیسائی نظام نے اپنی سماجی و سیاسی بالادستی کے لئے نئے زمانوں کے تقاضوں کو نہیں سمجھااسی طرح مدارس کے ذمہ داروں نے بھی اپنی بالادستی کے لئے اس طرف توجہ نہیں دی ۔اس پر موروثی نظام نے مدارس کی رہی سہی ساکھ کو برباد کردیا۔درس نظامی مدارس میں مروج تھاجس پر مولانا آزاد نے الندوہ کے ایک شمارے میں تنقید کی تھی ۔اسی طرح مولانا غلام حسنین کنتوری نے بھی اپنی سوانح ’لائف ‘ کی دوسری جلد میں در س نظامی پر تنقید کی ہے ۔اس سے اندازہ ہوتاہے کہ علما۱۸۵۷ ء کے فوراً بعد نصاب کی اصلاح کی طرف متوجہ تھے مگر مدارس کے ذمہ داروں نے ان کی ایک نہیں سنی ۔آج بھی مدارس کے نصاب پر غوروخوض کے لئے کوئی کمیٹی موجود نہیں ہے جس کی بے حد ضرورت ہے ۔جب تک مدارس کے نظام میں اصلاح اور نصاب تعلیم کو از سرنو مرتب نہیں کیاجائے گا،مخالف اسی طرح ہمیں زک پہونچانے کی کوشش کرتےرہیں گے ۔
یوگی آدتیہ ناتھ کبھی اردو کو کٹھ ملائوں کی زبان قراردیتے ہیں اور کبھی مدارس کو ملائیت کا مرکز بتلاتے ہیں ۔انہیں پہلے اس تعلیمی مرکز کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوناچاہیے جہاں انہوں نے ہندودھرم کی تعلیم حاصل کی ہے ۔کیونکہ وہ جس منافرانہ زبان کا استعمال کرتے ہیںاس کی اجازت نہ ہندودھر م میں ہے اور نہ سادھو سنتوں کی سیرت میں ۔اگر مسلمانوں کو مسلسل کوسنے اور انہیں دیوار سےلگانے کی سیاست سے انہیں اقتدار پر قابض رہنے میں مدد ملتی ہے تو اس کے لئے وہ مذہب کا استعمال نہ کریں ۔کیونکہ ہندودھر م نفرت کا درس نہیں دیتا،اتنا تو مدارس کے فارغین بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔