-
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
- سیاسی
- گھر
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
2057
m.u.h
22/06/2019
1
0
مولانا کلب جواد صاحب کی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ انکا مخلصانہ قومی خدمت کا جذبہ ہے ۔دشمنوں نے ہمیشہ انکی تحریکوں کو ختم کرنے اور اس جذبہ کو دبانے کے لئے مختلف حیلے اور حربے استعمال کئے مگر دشمن کبھی کامیاب نہیں ہوسکا ۔جب دشمن ہر طرف سے مایوس ہوگیا تو اس نے اپنے ترکش کا آخری تیر نکالا اور مولانا کی کردارکشی پر اتر آیا ۔دشمن کی یہ کوشش بھی ناکام ہوگئی اور اس کے سارے منصوبوں پر پانی پھر گیا ۔دشمن ان بیجا الزام تراشیوں کے ذریعہ قوم کے درمیان مولانا کے کردار کو مشکوک اور انکی مرکزیت کو ختم کرنا چاہتاتھا مگر جو لوگ اللہ کے لئے کام کرتے ہیں وہ دشمنوں کی چالوں اور سازشوں سے نہیں گھبراتے ۔ایسےبیباک اور قومی خدمتگاروں کی اللہ بھی حفاظت کرتاہے ۔خدا کا شکر ہے کہ دشمن اپنے فاسد ارادوں میں ناکام ہوچکاہے اور اس کا وار اسی پر چل گیا۔
تعجب ہے کہ اکثرعلماء ان بیجا الزامات اور مولانا کی کردار کشی پر خاموش رہے ۔اگر یہ الزامات کسی دوسرے عالم پر لگائے گئے ہوتے اور مولانا کلب جواد صاحب خاموش رہتے تو پورے ہندوستان میں ایک واویلا ہوتا۔ہنگامے ہوتے ۔مولانا پر طرح طرح کے الزامات عائد کئے جاتے ۔سوشل میڈیا پر ایک صاحب تو یہاں تک لکھ گئے کہ’’ مولانا بی جے پی میں اچھا خاصا اثر رکھتے ہیں لہذا وہ الزام تراشی کرنے والوں کو جیل میں کیوں نہیں ڈلوادیتے ‘‘۔حیرت ہے اتہّام اور بے بنیاد الزام تراشیوں کی مذمت کرنے کے بجائے ایسے بےتُکے جواز پیش کئے گئے ۔در اصل یہ وہ لوگ ہیں جو مولانا کے سیاسی اثر اور انکی شخصیت کی ہمہ گیریت سے پریشان ہیں ۔کل جب مولانا کربلا شاہ مرداں کی بازیابی کے لئے جد وجہد کررہے تھے تب بھی یہ حلقہ مخالف تھا اور جب لکھنؤ میں اوقاف کی املاک کے تحفظ کے لئے علماء لاٹھیاں کھارہے تھے تب بھی یہ لوگ مولانا کلب جواد صاحب کے مؤقف کے حامی نہیں تھے ۔ جب ملنگی ،نام نہاد اخباری،شیرازی اور مہدی ایسو سی ایشن کے دریدہ دہن افراد مرجعیت کے خلاف کمربستہ نظر آئے تب یہ گروہ سوشل میڈیا پر گفتار کا غازی بنارہا ۔اس وقت بھی مولانا کلب جواد نقوی ہی تھے جنہوں نے جمعہ کے خطبے میں اور باضابطہ بیان جاری کرکے ان تمام گروہوں کی فتنہ پردازی کی بیخ کنی کی اور مرجعیت کی حمایت میں سینہ سپر نظر آئے ۔ہم ایسے گفتار کے غازیوں سے گذارش ہے کہ وہ میدان عمل میں آئیں ،فقط سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ہاتھ پیر مارنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔
مولانا کلب جواد نقوی کی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اوقاف کے تحفظ کے لئے نمایاں اقدامات کئے اور حکومتوں سے دشمنی مول لی ۔انہوں نے ہمیشہ مرجعیت کی حمایت میں اخباریوں ،ملنگیوں اور شیرازیوں سے لوہا لیا ۔یہ لوگ بھی موقع کی تاک میں رہے اور جیسے ہی موقع ہاتھ لگا فورا اپنے حامیوں سمیت مولانا کلب جواد صاحب کی مخالفت میں انہیں بدنام کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور صرف کردیا ۔علاقائی تعصب میں لوگ اپنے اپنے رہنمائوں کا قد اونچا کرنے میں لگے رہے اور مرکزیت کے خاتمے کی کوششوں میں مصروف رہے ۔مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھّے ۔ہزار کوششوں کے بعد بھی علاقائی تعصب پنپ نہ سکا اور کچھ دنوں کی مخالفت کےبعد علاقائی رہنمائوں کی اصلیت بھی سب پرعیاں ہونے لگی ۔لوگ اپنے رہنمائوں کواندھی عقیدت میں مذہب اور عقیدہ سے بھی بالاتر سمجھنے لگے اور جب قرآن اور شیعیت کے بنیادی عقائد کی مخالفت کی گئی اس وقت بھی ایسے رہنمائوں کی مذمت کرنے کےبجائے علاقائی عصبیت کے مدنظر انکی پشت پناہی کی گئی ۔بقول افتخار عارف ؎
فروغ صنعت قدآوری کا موسم ہے سبک ہوئے پہ بھی نکلا ہے قدوقامت کیا
حق پرست علماء کرام اور باشعور مومنین!اگر آج مولانا کلب جواد اپنی قومی تحریکات سے دستبردار ہوجائیں تو ان کے تمام دشمن انکے قصیدے پڑھتے نظر آئیں گے اور حکومتیں بھی انہیں سرآنکھوں پر بٹھائیں گی ۔انکے نزدیک جتنے مفاد پرست آکر چلے گئے اور قوم کے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ’’ہوس لقمۂ تر ‘‘ میں قوم کی دلالی کرنے لگے وہ بھی آج مصلحت کوش مولویوں کے درمیان مقبول ہیں اور علماء کی مختلف تنظیموں کے نمائندے ہیں ۔کیا ایسی تنظیموں کا بائیکاٹ نہیں ہونا چاہئے ۔جب وسیم رضوی مرجعیت کی مخالفت کی،اوقاف کی زمینیں مسلسل نیلام کررہاہے اورشیعہ و سنیوں کو آپس میں لڑوانے کے لئے ہر ممکن کوشش کررہاہے ایسے حالات میں بھی علماء کی تنظیموں کے نمائندے اسکی حمایت میں کمربستہ ہیں اور کبھی کوئی مذمتی بیان تک نہیں دیا ،کیا ان تنظیموں نے کبھی ایسے ضمیر فروش نمائندوں کا احتساب کیا؟مولانا کلب جواد پر الزام تراشی کرنے والی تنظیموں کے نمائندگان اور عہدیداران جب ایسے ضمیر فروشوں کی پشت پناہی کررہے ہیں تو انکی بیجا تہمتوں اور مخالفتوں کی کوئی قیمت نہیں ہے ۔ایسی تنظیمیں فقط بے تحاشہ پیسہ لوٹنے اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہونے کے لئے معرض وجود میں آتی ہیں ۔اللہ ہم سب کی ہدایت فرمائے ۔آمین۔
ہم ان تمام سنی و شیعہ علماء کے بیانات کا خیر مقدم کرتے ہیں جو مولانا کلب جواد صاحب پر لگائے ہوئے بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کی رد میں منظر عام پر آئے ۔کیونکہ دشمن جب اپنے فاسد ارادوں میں کامیاب نہیں ہوسکا تواس نے کردار کشی کا آخری حربہ اختیار کیا تھا جس کی توبیخ ضروری تھی ۔مجلس علماء ہند شعبۂ قم،تنظیم عسکری،حوزہ علمیہ شہید ثالث،انڈین اسلامک اسٹوڈینس یونین،طہ فائونڈیشن قم،ہدیٰ مشن،سیدہ زینب فائونڈیشن فتخپور یوپی قم،المصطفیٰ اسلامک فائونڈیشن طلاب جموں،اہلبیت فائونڈیشن قم،تشکل فرہنگی امام حسینؑ قم،العصر آرگنائزیشن ہندایران،محبان ام الائمہ تعلیمی و فلاحی ٹرسٹ ،مولانا صفی حیدر صاحب سکریٹری تنظیم المکاتب،ادارہ المومل کلچرل فائونڈیشن ،طہ فائونڈیشن ،ادارہ مقصد حسینی ،مولانا منظر علی عارفی ،مولانا رضا حیدر مدیر حوزہ علمیہ غفران مآب،مولانا نثار احمد زین پوری،مولانا محمد میاں عابدی ،مولانا تسنیم مہدی ،تمام علماء کانپور،مولانا امیر حیدر زیدی،مولانا افتخار حسین انقلابی ،ڈاکٹر عمار رضوی ،مولانا حبیب حیدر ،مولانا مہر عباس رضوی ،صوفی اجمل نظامی سجادہ نشین خانقاہ نظام الدین اولیاء دہلی ،حضرت علامہ سید جلال الدین مشہدی سجادہ نشین شمع برہانی احمد آباد،مولانا شاہ حسنین بقائی خانقاہ عالیہ بقائیہ صفی پور ،مولانا شبیر علی وارثی ،مولانا صوفی سید ارم علی چشتی خانقاہ چشتی بریلی شریف ،سید دادا باوا قادری خانقاہ پنجتن ،سید حسام میاں کاظمی سجادہ نشین خانقاہ حسینیہ ممبئی ،صوفی سید زیارت علی ،اور وہ تمام سنی ،صوفی اور شیعہ علماء لائق تحسین ہیں جو بروقت میدان عمل میں آئے ۔
جو لوگ ان جھوٹے الزامات اور وقف مافیا کے ذریعہ مولانا کی کردار کشی پر خاموش ہیں یا حالات کی نزاکت کو نہ سمجھتے ہوئے مزے لے رہے ہیں ان کے لئے بس اتنا ہی کہا جاسکتاہے ؎
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
والسلام
ہفت روزہ ’’دائرہ ٔادب ‘‘ڈیسک