-
غزہ جنگ بندی:فتح وشکست کے مابین کشمکش
- سیاسی
- گھر
غزہ جنگ بندی:فتح وشکست کے مابین کشمکش
64
M.U.H
03/02/2025
0
0
تحریر:عادل فراز
غزہ میں جنگ بندی کا پہلا مرحلہ تیسرے ہفتے میں داخل ہوچکاہے ۔انیس جنوری سے جنگ بندی کا آغاز ہوا۔اس کے نفاذ کےپہلے دن اسرائیل نے خوب جارحیت کا مظاہرہ کیاتھا۔اس کا دعویٰ تھاکہ انہیں اب تک حماس کی طرف سے رہاہونے والے قیدیوں کی فہرست نہیں ملی ۔لہذا اسرائیل نے صبح ۹ بجے حملے بند کرنے کے بجائے گیارہ بجے دن تک جاری رکھے ۔جنگ بندی کا پہلا مرحلہ ۴۲دنوں پر محیط ہے ۔ اسرائیلی فوجی رہائشی علاقوں سے نکل کر سرحدوں تک محدود ہوجائیں گے اور اہل غزہ کو اپنے گھروں کولوٹنے کی اجازت ہوگی ۔اس دوران حماس یرغمال اسرائیلی خواتین کو رہاکرے گاجن میں خاتون فوجی ،کچھ بچے،بوڑھے اور بیمار شامل ہیں جن کی تعداد ۳۳ ہوگی ۔ان کے بدلے اسرائیل تقریباً اُنیس سوفلسطینی قیدیوں کو رہاکرے گا۔پہلے مرحلے کی جنگ بندی سولہ دنوں تک جاری رہے گی اوراس کے بعد دوسرے مرحلے کے لئے مذاکرات شروع ہوں گے ۔اس طرح یہ جنگ بندی تین مرحلے طے کرے گی اور ہر مرحلے کے شرائط مختلف ہوں گے ۔حماس کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے نے نتن یاہو کوغلط ثابت کردیاجو مسلسل یہ کہہ رہے تھے کہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک حماس کا صفایانہیں ہوجائے گا۔جس حماس کے صفائے کے لئے وہ غزہ کو جہنم بنارہے تھے آج اسی حماس کےساتھ مذاکرات کے لئے مجبور ہیں۔نائب امریکی صدر کملاہیرس اور وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اس معاہدے تک پہنچنا ’آسان نہیں تھا اور ان کے تجربے کے مطابق یہ سب سے مشکل مذاکرات میں سے ایک تھے۔‘البتہ جنگ بندی کے باوجود اسرائیل نے مغربی کنارے پر حملے شروع کردئیے ہیں جس سے اس کی نیت کا فتورسامنے آتاہے۔
ٍ مسلم حکمرانوں نے فلسطین کی آزادی ،قبلہ اول کی بازیابی اور غزہ کے تحفظ کے لئے کوئی مؤثر قدم اٹھایایانہیں،یہ ایک الگ بحث ہے مگر جنگ بندی میںوہ امریکہ کے ساتھ بطور ثالث شریک ہیں۔قطر اور مصر سمیت پچاس سے زائد مسلم ملک مل کر غزہ کے عوام تک امدادی سامان کی ترسیل کے لئے رفح کراسنگ کو نہیں کھلواسکے ۔نہ جانے کتنے بچے ،بوڑھے اور بے گھر سردی کی شدت ، غذااور دوائوں کی قلت سے دم توڑگئے مگر مسلم حکمران خوب خرگوش کے مزے لیتے رہے ۔اب یہ دیکھنااہم ہوگاکہ مسئلۂ فلسطین پر مسلم حکمرانوں کا موقف کیاہوگا۔ آیاوہ قبلۂ اول کی بازیابی اور فلسطین کی آزادی کا مسئلہ عالمی سطح پر اٹھانے کی ہمت کرسکیں گے یانہیں،جس کو حماس نے خون دے کر زندہ کیاہے۔
جنگ بندی کے پہلے مرحلہ مصر ،قطر اور امریکہ کی ثالثی میں کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ ۲۵ جنوری کوحماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔حماس نے چار فوجی خواتین کو رہاکرکے ہلال احمر کے حوالے کردیا۔اس کے عوض میں اسرائیل نے مختلف جیلوں سے دوسوفلسطینی قیدیوں کورہاکیا۔معاہدے کے تحت ہر اسرائیلی قیدی کے بدلے پچاس فلسطینی قیدیوں کو رہاکیاجائے گاجن میں تیس قیدی ایسے ہوں گے جو اسرائیلی جیلوں میں عمر قید کی سزابھگت رہے ہیں ۔یہ معاہدہ کئی مرحلوں میں اختتام کوپہونچے گا۔القسام بریگیڈ اورہلال احمر(ریڈ کراس)آرگنائزیشن کے اہلکاروں نے اسکوائر میں لگائے گئے ایک اسٹیج پر قیدیوں کےتبادلے سے متعلق دستاویزات پر دستخط کئے ۔اسرائیلی حکام نے حماس کو انتباہ دیتے ہوئے یہ بھی کہاہے کہ اگر اسرائیلی خاتون اربیل کی رہائی نہیں ہوئی تو یہ معاہدہ منسوخ کردیاجائے گا۔اب جبکہ معاہدے کے تیسرے مرحلے میں اربیل کو رہاکردیاگیا تواس معاہدے کے استحکام کی امیدیں مزید بڑھ گئی ہیں۔جب کہ نتین یاہو نے معاہدے کے وقت حماس کو دھمکاتے ہوئے کہاتھاکہ :اگر ہمیں ضرورت محسوس ہوئی توہم دوبارہ جنگ شروع کریں گے اور نئے طریقے تلاش کریں گے ۔‘‘اس بیان سے ظاہر ہوتاہے کہ نتن یاہو کا جنگی جنون ابھی کم نہیں ہوا۔وہ جنگ بندی پر راضی نہیں بلکہ مجبورہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مغربی کنارے پر اسرائیلی فوجیںمسلسل حملے کررہی ہیں جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتاہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی امریکی صدارتی الیکشن میں فتح کے بعد غزہ میں جنگ بندی کامطالبہ زوروشور سے کیاگیا۔ٹرمپ نے حماس کوبھی دھمکایااور مسلم حکمرانوں کو جنگ بندی میں پیش رفت کا حکم بھی دیا۔ٹرمپ نے فتح سے پہلے اور بعد حماس مسلسل کو دھمکاتے ہوئے کہاکہ اگر ان کی حلف برداری تک یرغمالوں کو رہانہیں کیاگیاتو اس کاانجام اچھانہیں ہوگا۔اس سے پہلے جنگ بندی کی کوشش جوبائیڈن بھی کرچکےتھے مگر انہیں کامیابی نہیں ملی ۔حماس کے ساتھ مسلسل مذاکرات ہورہےتھے مگر معاہدے کے شرائط پر طرفین راضی نہیں ہوئے جس کی بناپر جوبائیڈن کے زمانۂ اقتدارمیں جنگ بندی ممکن نہیں ہوسکی ۔مگر جیسے ہی ٹرمپ فتح یاب ہوئے جنگ بندی کے شرائط پر طرفین نے اتفاق رائے کا اظہارکردیا۔اس سے یہ توظاہرہوجاتاہے کہ عالمی سطح پر ڈونالڈ ٹرمپ کی کتنی اہمیت ہے ۔کیونکہ ٹرمپ استعماری اور استکباری نظام کے رکن ہیں اور اسی نظام کے افرادنےانہیں صدارتی انتخاب میں کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لئے جی توڑ کوشش کی تھی،اس لئے اسرائیل بھی ان کے فیصلے کےخلاف نہیں جاسکتا۔دوسری طرف ٹرمپ صہیونی مفاد کے محافظ رہے ہیں اور ’صدی معاہدہ ‘ کا مسودہ انہیں کے دور اقتدار میں پیش کیاگیاتھا۔یروشلم کو اسرائیل کا پایۂ تخت منوانے کے لئے ٹرمپ نے کلیدی کرداراداکیاتھااور مسلم حکمرانوں کو بھی مسئلہ فلسطین پر اپنے موقف کاحامی بنالیاتھا۔اس پر ان کا داماد جارڈ کشنز ایک صہیونی سرمایہ کارہے ،جس نے ’صدی معاہدہ‘ تشکیل دیاتھا۔اس لئے صہیونی ٹرمپ کوہرگزناراض نہیں کرسکتے ۔ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ امریکہ نے ۷ اکتوبرطوفان الاقصیٰ کے بعد اسرائیل کی ہر سطح پر مدد کی اور لاکھوں ڈالر کی امداد پہونچائی ۔اب جبکہ ٹرمپ اقتدار میں آگئے ہیں تو اس امداد میں مزید اضافے کا امکان ہے لہذا ٹرمپ کو خفا کرکے اسرائیل کبھی اس جنگ میں کھڑانہیں رہ سکتا۔
جنگ بندی پر حماس کاراضی ہونا تعجب خیز نہیں ہے ۔انہوں نے دشمن سے اپنے شرائط منوائے ۔معاہدے کی میز پر حماس فتح یاب تھااور اسرائیل مسلسل ناکامیوں کا شکار ۔طوفان الاقصیٰ کے بعد غزہ پر حملے کے وقت نتن یاہو نے جتنے بلند بانگ دعوے کئے تھے سب ہوائی ثابت ہوئے ۔حماس جس کو ختم کرنے کے لئے غزہ کو ملبے میں بدل دیاگیا،اب بھی اپنی پوری توانائی کے ساتھ موجود ہے ۔اسرائیل دعویٰ کررہاہے کہ اس نے حماس کے بیس ہزار جنگجوئوں کو ماراہے ۔دوسری طرف حماس مزید بیس ہزارنئے جنگجوئوں کی بھرتی کی تصدیق کرچکاہے ۔جنگ میں فوجیوں کامرنا کوئی نئی بات نہیں ۔شہادتیں مقصد تک پہونچنے کا ذریعہ بنتی ہیں ۔بغیر شہادتوں کے انقلاب کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوتے ۔لہذا حماس نے بیس ہزار شہید دئیے ہوں یا اس سے کچھ کم ،اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ حماس نے اسرائیل کو گھنٹوں پر جھکادیاہے اور معاہدے کی میز پر فتح یاب ہے ۔اس کے بعد غزہ کامکمل کنٹرول حاصل کرنا حماس کا اگلاہدف ہوگا۔کیونکہ غزہ سے دست بردارہوکر یہ جنگ ہرگز جیتی نہیں جاسکتی۔
رہائی کے وقت اسرائیلی خواتین کے چہروں کے تاثرات قابل ملاحظہ تھے ۔ان کے چہرے پرخوف کا شائبہ تک نہیں تھا۔حماس نے ان کی رہائی سے کچھ ہی دیربعد ایک ویڈیوبھی جاری کیاجس میں چاروں خواتین عربی میں سلام کررہی تھیں اور القسام کے جنگجوئوں کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ انہوں نے ہمیں باحفاظت رکھا اور اچھاسلوک کیا۔یہی حماس کی کامیابی کی بڑی دلیل ہے ۔اسرائیلی جیلوں سے رہاشدہ افراد میں کسی نے اس کے فوجیوں کے حسن سلوک کی ستائش نہیں کی ۔اس سے نام نہاد امن پسند اسرائیل اوران کے درمیان جنہیں دنیا جنہیں دہشت گرد کہہ رہی ہے ،بنیادی فرق کیاہے یہ ظاہر ہوجاتاہے ۔اسرائیل جو پہلے حزب اللہ سے جنگ بندی پر مجبور ہوااور اب حماس کے ساتھ مذاکرات کی میز پرہے ،اس کی واضح شکست کا اعلان ہے ۔اس جنگ میںغزہ کے عوام نے جس استقامت اور بہادری کا مظاہرہ کیادنیا میں کم ہی اس کی نظیر ملے گی ۔ان کے صبر اور حوصلے کو سلام کرناچاہیے ۔