-
اس ہندوستان کا تصور کبھی مسلمامانوں نے نہیں کیا تھا
- سیاسی
- گھر
اس ہندوستان کا تصور کبھی مسلمامانوں نے نہیں کیا تھا
531
m.u.h
09/10/2023
0
0
تحریر:عادل فراز
گذشتہ سالوں میں مسلمانوں کے ساتھ جو ظالمانہ اور آمرانہ سلوک روارکھا گیا اس کی نظیر آزاد ہندوستان میں نہیں ملتی ۔اس ناگفتہ بہ صورت حال کی ذمہ داری مسلم قیادت پر عائد ہوتی ہے ،یہ الگ بات کہ ہماری قیادت نے کبھی اس ذمہ داری کو قبول نہیں کیا۔مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا اور قائدین مکالمہ کی راہیں تلاش کرتے رہے ۔جہاں مزاحمت کی ضرورت تھی وہاں مذاکرات ہورہے تھے اور جہاں مذاکرات کی درکار تھی وہاں مزاحمتی عمل کو ترجیح دی جارہی تھی ۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آزاد ہندوستان میں کبھی مسلمانوں کو ان کا حق نہیں دیا گیا۔ہمیشہ ان کے ساتھ جانبدارانہ سلوک برتا گیا مگر ہمارے رہنما سیکولر روایت کے دام فریب میں الجھ کر ملت کے مسائل سے بے پرواہ ہوتے گئے ۔فسادات ہوتے رہے ،بے گناہ نوجوانوں کی گرفتاریاں جاری رہیں ،گھر اجڑتے رہے ،حق تلفی کے بجائے حق سلبی کی روایت شروع ہوگئی، مگر ہم سیکولر رہے ۔آیا سیکولر ازم ملت کے مسائل سے بےپرواہی کا نام ہے ؟یا اپنے حقوق کے عدم مطالبے کو سیکولر ہونا کہاجائےگا؟مسلم رہنمائوں کومزید’خوش فہمی‘میںمبتلا رہنےکےلئے راجیہ سبھا کا رکن نامز کیاگیا،صدارت کا عہدہ تفویض کیا گیا۔انہیں اس ملک کی جمہوری قدروں کی روح قراردے کر جمہوری حقوق ختم کردئےگئے۔شاخوں کو پانی دیا گیا اور جڑوں کو کاٹنے کا عمل جاری رہا ۔آج صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں کا تشخص زیر سوال ہے ۔ان کی سماجی آزادی پر پہرے بٹھادیے گئے ۔انہیں غدار کہا جارہاہے ۔حتیٰ کہ پاکستان جانے کے مشورے دئیے جارہے ہیں ۔جن لوگوں نے تقسیم ہند کے وقت ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دی انہیں وطن مخالف کہاجارہاہے۔یہ نیاہندوستان ہے جس کا تصور کبھی مسلمانوں نے نہیں کیا تھا ۔
گذشتہ کچھ سالوں میں جس طرح حکومتی سطح پریرقانی اور زعفرانی تنظیموں کے منافرانہ ایجنڈے کو فروغ دیاگیا ،اس کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ان تنظیموں کا ہدف وہ لوگ ہیں جو کبھی سیکولر اور لبرل ہونے کا دعویٰ کرتے تھے ۔انہوں نے تقریباً پچاس سالوں کی طویل مدت میں ہندوستان کہ جسے جنت نظیر کہا جاتا تھا، جہنم میں بدل دیا۔مذہبی جلوسوں پر حملے تو ہمیشہ ہوتے رہے لیکن کبھی مذہب اور عقیدے کی آزادی سلب نہیں کی گئی ۔فساد ہمیشہ ہوئے لیکن مسلمانوں کے تشخص پر حملہ نہیں کیا گیا۔اب تو نماز پڑھنے پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں ۔بچوں کو اسکولوں میں نفرت کا سبق پڑھایاجارہاہے ۔تاریخ میں بدلائو کا عمل جاری ہے ۔آئین ہند میں ترمیم کے لئے کمیٹیاں تشکیل دیدی گئی ہیں ۔پسماندہ طبقات کو اپنی طرف مائل کیاجارہاہے تاکہ ان کی ’گھر واپسی ‘ کروائی جاسکے ۔مسلمانوں کے معاشی اور سماجی بائیکاٹ کی اپیلیں کی جارہی ہیں ۔ان کی منظم نسل کشی کے لئے ہندوئوں کو مسلح ہونے کی ہدایات دی جاتی ہیں ۔گویا کہ جمہوری نظام یکسر بدل گیا اور نیا نظام نافذ کیا جارہاہے ۔یہ تمام امور حکومتی سرپرستی میں انجام پارہے ہیں ۔ایسا اس لئے کہاجاسکتاہے کیونکہ حکومت کے امیر اور وزیر مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتے رہتے ہیں۔معاشی اور سماجی بائیکاٹ کی اپیلیں انہی کی طرف سے کی گئی ہیںاور وزیر اعظم کسی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ملک پر ایک مخصوص نظریے کی حکمرانی ہے ۔چونکہ مسلمانوں نے ہمیشہ اس نظریے کی مخالفت کی جس کی سزا آج نہیں غدار وطن کہہ کر دی جارہی ہے ۔
یرقانی تنظیموں کی ذیلی شاخیں تقریباً ہر ضلع میں موجود ہیں ۔ان شاخوں کے مسئول ایسے افراد کی تلاش میں رہتے ہیں جو ان کے ایجنڈے کو فروغ دے سکیں۔یہ لوگ معمولی محلوں اور گلیوں تک پہونچتے ہیں تاکہ نوجوانوں کو اپنا رکن بناسکیں ۔ان شاخوں میں ہرطرح کے افراد کی آمدورفت رہتی ہے ۔ضلع انتظامیہ ان کے زیر اثر ہے۔انہیں یہ جرأت نہیں ہوتی کہ کسی بھی جر م کے بارے میں ان سے تفتیش کریں یا ان شاخوں میں پہونچ کر انہیں گرفتارکیا جاسکے ۔بعض سرکاری اور غیر سرکاری ملازم ان شاخوں کے باضابطہ رکن ہوتے ہیں ۔سرکاری اسکولوں کے اساتذہ ان شاخوں سے زیادہ متاثر ہیں کیونکہ اسکولوں میں یرقانی تنظیموں کی طرف سے وفود بھیجے جاتے ہیں جو خاموشی سے اساتذہ اور طلباکے درمیان اپنے ایجنڈہ کو پیش کرتے ہیں ۔بعض اسکولوں میں تاریخ کے موضوعات پر ویڈیو پروگراموں کا انعقاد بھی ہوتاہے جس میں ہندوستانی تاریخ کے حقائق کو مسخ کرکے دکھایا اور بتایاجاتاہے ۔اسی بنیاد پر اسکولوں میں مذہبی منافرت اور سماجی تقسیم کا دائرہ بڑھ رہاہے ۔مظفر نگر کے ایک اسکول میں خاتون ٹیچر نے جس طر ح ایک مسلمان طالب علم کوہندو طلبا سے طمانچے لگوائے،وہ اسی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں ۔یہ الگ بات کہ ہندو مسلمان اتحاد کو تقویت دینے والی کسان جاٹ تنظیموں نے نفرت کی چنگاری کو شعلہ بننے نہیں دیا ۔لیکن حقائق سے منہ نہیں موڑا جاسکتا ۔سماج کی رگوں میں نفرت کا لاوا انڈیلا جاچکاہے ،جس کے اثرات باالیقیں ظاہرہوں گے۔
ان ذیلی شاخوں میں ہر علاقے اور محلے کا سروے کروایاجاتاہے ،تاکہ موجودہ صورت حال کے مطابق لٹریچر تیار کیاجاسکے اور نوجوانوں تک اپنے افکارو نظریات کو پہونچایاجاسکے ۔اس کے لئے کارکنان ہر گھر تک پہونچ رہے ہیں ۔آئندہ صورت حال اس سے بھی زیادہ بدتر ہونے والی ہے ۔لکھنؤ میں منعقد ہوئے آرایس ایس کے اجلاس میں موہن بھاگوت نے اپنے کارکنان کو حکم دیاہے کہ وہ ہر بستی اور گائوں میں ذیلی شاخیں قائم کریں ۔خاص طورپر دلت اور پسماندہ مسلمان ان کے ہدف پر ہیں ۔پسماندہ طبقات میں ان کا اثرونفوذ بڑھ رہاہے۔مسلمانوں کے پاس لاتعداد تنظیمیں اور ادارے موجود ہیں ۔مگر ان کے پاس کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جو آرایس ایس کی ذیلی شاخوں کی طرز پر زمینی سطح پر کام کرتا ہو۔مسلمانوں کے گلی محلوں کا سروے اور موجودہ صورت حال کی تجزیاتی رپورٹ کسی ادارے اور تنظیم کے پاس نہیں ہے ۔کیونکہ ہم صرف باتیں کرتے ہیں اور لمبی چوڑی تقریریں کرنے میں مہارت رکھتے ہیں ۔اب تک کسی قومی تنظیم نے ایسی بستیوں اور علاقوں کا سروے نہیں کروایا جہاں زعفرانی اور یرقانی تنظیموں کے رضاکار اپنے افکارونظریات کو فروغ دے رہے ہیں ۔پسماندہ طبقات میں تبدیلیٔ مذہب کا رجحان تیزی سے پنپ رہاہے ،اس کے انسداد اور بحرانی کیفیت سے نمٹنے کے لئے کوئی لایحۂ عمل نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب کسی محلے اور بستی میں فرضی الزامات کےتحت گرفتاریاں ہوتی ہیں ،لوجہاد کے نام پر ماحول خراب کیاجاتاہے ،ہجومی تشدد کی وارداتیں وقوع پذیر ہوتی ہیں ،اس وقت کوئی ملّی تنظیم فوری طورپر سامنے نہیں آتی کیونکہ اس کے پاس علاقے کی ضروری معلومات نہیں ہوتی، نیز ان علاقوں میں ان کے رضاکار اور کارکنان کا فقدان ہوتاہے ۔
گذشتہ سال مسلم دانشوروں کے کئی وفود نے آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقاتیں کی تھیں۔انہوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ مسلمانوں کے خلاف ہجومی تشدد اور نفرت کے جوواقعات ظہور میں آرہے ہیں ،انہیں روکا جائے گا ۔مگر اس یقین دہانی کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ان تمام دانشوروں نے بیان جاری کرکے موہن بھاگوت کے قول و فعل میں تضاد کا نوحہ پڑھا تھا ۔ان کے علاوہ متعدد ایسے افراد ہیں جو مسلمانوں کے زوال کے اسباب بیان کرتے ہوئے انہیں یرقانی تنظیموں کی غلامی کی دعوت دے رہے ہیں ۔انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کسی بھی قوم کا زوال اس وقت غلامی میں بدل جاتاہے جب وہ مزاحمت کی قوت سے محروم ہوجاتی ہے ۔یہ لوگ مسلمانوں کو اس لئے ایسی بدتر صورت حال سے دوچار کرنا چاہتے ہیں تاکہ انہیں مقام و منصب مل سکے ۔بعض تو یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ دور آرایس ایس کاہے ،اس لئے ان کی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے ان کےساتھ مکالمہ کرنا چاہیے۔سوال یہ ہے کہ جو اکثریتی طبقہ اقتدار میں ہے وہ مکالمہ کی دعوت میں سبقت کیوں نہیں کرتا؟ہمیشہ مظلوم اقلیتوں سے یہ مطالبہ کیوں کیاجاتاہے ؟کیا ہر بار مذاکرات اور اتحاد کا نعرہ مسلمانوں کی طرف سے دیاجانا ضروری ہے؟ کیا اس فراخ دلی کا مظاہرہ مقتدر شخصیات کی طرف سے نہیں ہونا چاہیے ؟ اکثریتی طبقہ کے دانشور اور اہل نظر افراد نفرت اور تقسیم کی سیاست میں یقین نہیں رکھتے ۔وہ مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھاتے رہتے ہیں اور مسلمان ان کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں،یہ ایک الگ موضوع ہے ۔جتنے مسائل درپیش ہیں ان کی جڑ یرقانی تنظیموں کی منافرانہ سیاست ہے ۔یہی تنظیمیں مسلمانوں کے خلاف ماحول سازی میں مصروف عمل ہیں اور انہی تنظیموں کے پالتو افراد چاہتے ہیں کہ مسلمان ان کے سامنے سربسجود ہوجائیں ۔اس کے لئے ماحول سازی کی جارہی ہے اور مسلسل مسلمانوں سے مکالمہ کی پہل کا مطالبہ ہے ۔ہمارامطمح نظر صرف یہ ہے کہ ایک بار مقتدر شخصیات اور ملک پر حکمراں تنظیم کو بھی مکالمہ کی دعوت میں سبقت کرنا چاہیے ،تاکہ اتحاد اور محبت کا عمل دوطرفہ ہوسکے ۔