دنیا بھر میں مسلمانوں کے حالات بہت خراب ہیں اور جہاں تک ہندوستان کا سوال ہے 2014ء کے عام انتخابات میں مودی کی زیر قیادت بی جے پی کی کامیابی کے ساتھ ہی نہ صرف مسلمانوں بلکہ دوسری اقلیتوں بشمول عیسائیوں کے ساتھ ناروا سلوک کا آغاز کردیا گیا۔ پچھلے تین برسوں کے دوران مودی حکومت میں ’’اچھا‘‘ بہت کم اور ’’برا‘‘ بہت زیادہ ہوا ہے۔ ملک میں فرقہ پرستی کا گراف بہت بڑھ گیا ہے۔ خاص طور پر آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہیں وہ ان کی معیشت تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے۔ شہروں یہاں تک کہ سڑکوں اور شاہراہوں کے نام تبدیل کئے جارہے ہیں۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں ذبیحہ گاو پر پابندی عائد کرتے ہوئے کروڑہا مسلمانوں سے ان کا روزگار چھین لیا گیا ہے۔ وہ بیروزگار ہو گئے ہیں۔ یہ سب کچھ فرقہ پرست اپنے حامیوں کو خود کی حمایت میں باندھے رکھنے کے لئے کررہے ہیں۔ ملک کے موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ مسلمانوں کو اس ملک میں عزت وقار کے ساتھ رہتا ہے تو انہیں سب سے زیادہ توجہ حصول علم پر دینی چاہئے۔ مسلمان جتنے تعلیم یافتہ ہوں گے کامیابی کے دروازے اتنے ہی تیزی کے ساتھ ان کے لئے کھلتے جائیں گے۔ اگر اس ملک میں مسلمانوں کو خود اختیاری حاصل کرنی ہے تو انہیں سب سے پہلے تعلیم پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی ورنہ وہ کسی بھی میدان میں اپنے دوسرے ابنائے وطن کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ نتیجہ میں ان کی حالت زار میں تبدیلی بھی نہیں آئے گی۔ 6 دسمبر 1992ء کو اترپردیش کے فیض آباد میں تاریخی بابری مسجد کو ہندو جنونیوں نے بی جے پی اور آر ایس ایس قائدین کی ایماء پر شہید کردیا اس واقعہ نے مسلمانو کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ ان میں مایوسی کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ان کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ عزم و حوصلہ رفو چکر ہوگیا ان میں اب کچھ کرنے کی سکتہ یا طاقت باقی نہیں رہی لیکن اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ اس سانحہ کو اللہ تعالیٰ نے زحمت میں رحمت بنا دیا۔ مسلمانوں میں تعلیمی شوق پیدا ہوا، نوجوان نسل میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا ہوا۔ ماں باپ میں اپنے بچوں کو زیور علم سے آراستہ کرنے کا جذبہ موجزن ہونے لگا کیونکہ وہ جان گئے تھے کہ ہمیں اس ملک میں اپنی بقاء کو یقینی بنانے اور یہاں عزت و وقار کی زندگی گذارنے کے لئے علم کے حصول پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کرلینی چاہئے۔ ملک کی شمالی اور جنوبی ریاستوں کے مسلمان تعلیم کی اہمیت کو جان گئے اور ان کا یہیموقف اب آہستہ آہستہ مسلمانوں کو تعلیمی شعبہ میں آگے بڑھا رہا ہے۔ ویسے بھی ہندوستان میں تلنگانہ کے بشمول ایک دو ریاستوں میں تعلیم و سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کو 4 فیصد تحفظات فراہم کئے گئے ہیں جس کے باعث ان ریاستوں میں مسلمانوں کی حالت میں بہتری آئی ہے۔
اب ملک کے کونے کونے میں ملت کا درد رکھنے والے مسلمان حالات سازگار نہ ہونے کے باوجود تعلیمی و تربیتی مراکز قائم کررہے ہیں۔ حالانکہ ان کے پاس کوئی بنیادی سہولتیں نہیں اور نہ ہی فنڈس ہیں کمیونٹی کی مدد سے یہ مراکز چل رہے ہیں۔ یو پی ایس سی میں اس مرتبہ 50 مسلم امیدواروں نے کامیابی حاصل کی جو مثبت علامت ہے۔ امید ہے کہ آنے والے برسوں میں مسلم آئی اے ایس، آئی پی ایس، آئی آر ایس اور آئی ایف ایس عہدہ داروں کی تعداد میں اطمینان بخش اضافہ ہوگا فی الوقت مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہے جن کی شکایت ہے کہ مرکزی حکومت ان کے ساتھ تعصب برت رہی ہے۔ خاص طور پر ملازمتوں اور تعلیمی شعبوں میں انہیں مکمل نظرانداز کیا جارہا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ حکومت کچھ برسوں کے لئے سارے ملک کے مسلمانوں کو مذکورہ دونوں شعبوں میں تحفظات فراہم کئے جانے چاہئے جس سے ہوسکتا ہے کہ ان کی حالت میں صحتمند تبدیلی آئے ۔ ہمارے معاشرہ میں بعض عناصر ایسے بھی ہیں جن کا موقف یہ ہے کہ مسلمانوں کو مرکزی و ریاستی حکومتوں سے شکوے شکایت کرنے کی بجائے اپنے حق کے لئے اٹھ کھڑے ہونا چاہئے۔ انگریزی روزنامہ ہندوستان ٹائمز میں مسلمانوں میں بڑھتے تعلیمی شوق کے بارے میں ایک شائع ہوا ہے جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہندوستانی مسلمان موجودہ حالات سے کافی پریشان ہیں اس کے باوجود ان میں تعلیم کی جانب رغبت بڑھی ہے جو خوش آئند علامت ہے۔ رپورٹ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کشن گنج کیمپس کے ڈائرکٹر راشد نہال کے حوالے سے بتایا گیا کہ مسلمانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان میں ہر کمیونٹی نے جدوجہد کی ہے آپ 24 گھنٹے حکومت اور سیاسی جماعتوں پر الزامات عائد نہیں کرسکتے۔ مسلمانوں کو ترقی کرنی ہے تو انہیں تحفظات کے حصول کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ بلکہ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مارکٹ میں انہیں مسابقت کرنی ہے۔ ہاں مسلمانوں کے لئے ایک ایسا ماحول درکار ہے جہاں وہ امن و چین کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکیں اور جہاں انہیں تعلیمی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ ایک بات ضرور ہے کہ ایک ایسے وقت جبکہ ہندوستانی مسلمان اپنے اطراف و اکناف کے ماحول میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے پریشان ہیں
اور اپنے سیاسی انتخاب یا پسند کا محاسبہ بھی کرنے لگے ہیں ساتھ ہی مسلم معاشرہ میں ایک تیسرا رجحان بھی دیکھا جارہا ہے اور وہ ہے بحران کو مواقعوں میں ناکامیوں کو کامیابیوں میں تبدیل کرنا، اگر مسلمان ہر بحران اور پریشانی کو مواقع میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو سمجھئے کہ ملک میں ان کی ترقی و خوشحالی کا آغاز ہوگا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ مسلم معاشرہ اپنے میں موجود خامیوں اور برائیوں کی خود نشاندہی کرتے ہوئے داخلی اصطلاحات کا عمل شروع کرچکا ہے اور یہ عمل صرف جنوبی ہند تک محدود نہیں ہے بلکہ شمال میں بھی آگے بڑھ رہا ہے۔ بلالحاظ عمر، امیر غریب ہر کوئی تعلیم پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ آج کل عام طور پر یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آیا مسلمان ایک شکست خوردہ کمیونٹی کی طرح ہوگئے ہیں۔ اس سوال کا جواب کہ امارات شرعیہ پٹنہ پھلاری شریف کے محمد عادل فریدی نفی میں دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ تعلیم ہی مسلمانوں کے آگے بڑھنے ترقی کرنے کا واحد راستہ ہے اور جہاں تک حصول علم کا تعلق ہے جو کوئی تعلیم حاصل کرنے کا خواہاں ہو وہ تعلیم حاصل کرسکتا ہے کوئی بھی کسی کو بھی حصول علم سے نہیں روک سکتا، اگر کوئی 30 فیصد کام کے ساتھ کامیابی حاصل کرسکتا ہے تو ایک مسلمان کو اس سے زیادہ یعنی 50 فیصد کام پر کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ اس لئے کہ اسے مسلمان ہونے کے ناطے تعصب کا سامنا تو ضرور ہے اس کے باوجود ہم یہ کہنے کے موقف میں ہیں کہ کوئی بھی ہمیں تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روک رہا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بہار ہو یا ملک کی دیگر ریاستیں صرف 3 تا 5 فیصد مسلمان بچے مدرسوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
پہلے مسلم بچے تعلیمی نظام سے پوری طرح باہر تھے۔ اب مسلمان اسکولی تعلیم پر توجہ دینے لگے ہیں۔ آج مسلمانوں کو نفرت کا مقابلہ محبت سے، جہالت کا مقابلہ تعلیم سے کرنا ہوگا۔ سارے ملک میں ایسی طاقتیں ہیں جو مسلمانوں کو اکسا کر ان کے سینوں میں پولیس کی گولیاں اتارنے کی خواہاں ہیں لیکن ان حالات میں مسلمانوں کو تعلیمی معاشی اور سماجی شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا چاہئے۔ اگر ہم ان شعبوں کو نظرانداز کردیں تو سیاست کے بشمول زندگی کے ہر شعبہ میں نظرانداز کردیئے جائیں گے۔ پٹنہ کالج کے میناریٹی پوسٹ گریجویٹ طلبہ ہاسٹل میں رہنے والے نشاد احمد کے مطابق مسلمان غیر محفوظ ہیں لیکن تعلیم کے ذریعہ ہی وہ بااختیار بن سکتے ہیں اور یہ اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ بریلی میں مسلم طلباء و طالبات کا ایک گروپ راہیل کھنڈ یونیورسٹی سے کمیکل انجینئرنگ کررہا ہے یہ مختلف خاندانی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے صبہ روشن کے والد تاجر ماں ٹیچر ہیں اور ان کے خاندان کی خواتین بطور ٹیچر خدمات انجام دیتی ہیں روشن انجینئرنگ کی تدریس سے وابستہ ہونے کی خواہاں ہے۔ طالبات میں فرج بھی شامل ہے جو سال دوم کی ٹاپر ہے اس کے والد ٹیلر ہیں اور انہوں نے 12 ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ فرح کے گاوں میں لوگ سوچتے ہیں کہ لڑکیوں کو تعلیم کی ضرورت نہیں لیکن اس کے والدین نے حصول علم میں اس کی تائید و حمایت کی فرح کے والد سالانہ 75 روپے فیس ادا کرتے ہیں۔