-
پارلیمنٹ کی افتتاحی تقریب اور چند سوال
- سیاسی
- گھر
پارلیمنٹ کی افتتاحی تقریب اور چند سوال
277
m.u.h
01/06/2023
0
0
تحریر:شکیل رشید
اتوار ۲۸ ، مئی کو پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح ہو گیا ! افتتاح کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نےجو خطاب کیا ، اس میں کئی بار نئی پارلیمنٹ کو ’ جمہوریت کا مندر ‘ کہا ، افتتاح کو ’ نئی تاریخ ‘ اور ’ نیا سفر ، نئی سوچ ، نیا ہندوستان ‘ قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ ’’ بلند حوصلہ سے بھرا ہوا بھارت غلامی کی سوچ کو پیچھے چھوڑ رہا ہے ۔‘‘ پی ایم مودی نے مزید کہا کہ ’’ ہندوستان نہ صرف ایک جمہوری ملک ہے بلکہ جمہوریت کی ماں بھی ہے ، اور ہماری جمہوریت ہماری تحریک ہے ، اور ہمارا آئین ہماراعزم ہے ۔‘‘ لیکن کیا واقعی پی ایم مودی نے جو باتیں کہیں ، وہ ان پر یقین بھی رکھتے ہیں ! سچ تو یہ ہے کہ حزب اختلاف کی ۲۱ سیاسی جماعتوں کی غیر موجودگی سے پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی افتتاحی تقریب ’ نامکمل ‘ تھی ! ایک ایسے ملک میں جہاں کا وزیراعظم ، ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور سیاست داں ، وزراء وغیرہ اٹھتے بیٹھتے ’ جمہوریت ‘ اور ’ آئین ‘ ان دو لفظوں کا ورد کرتے ہوں ، اس ملک میں ، پارلیمنٹ کی افتتاحی تقریب سے حزبِ اختلاف کے لیڈروں کی غیر موجودگی ، جمہوریت کی صورتِ حال پر ایک سوالیہ نشان لگا دیتی ہے ۔ مانا کہ متحدہ حزبِ اختلاف نے خود پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی افتتاحی تقریب کا بائیکاٹ کیا تھا ، لیکن یہ تو وزیراعظم کا کام تھا ، بلکہ فرض تھا کہ وہ حزبِ اختلاف کو مناتے ، بات کرتے اور تقریب میں آنے کے لیے راضی کرنے کی کوشش کرتے ۔ لیکن لگ یہ رہا تھا کہ موجودہ مرکزی حکومت حزبِ اختلاف کے بائیکاٹ سے خوش ہے ! اس کی طرف سے رتّی بھر افہام و تفہیم کی کوشش نظر نہیں آئی ۔ کیا یہی وہ جمہوریت ہے جس کا بَکھان پی ایم مودی افتتاحی تقریب میں کر رہے تھے ؟ اور کیا یہی وہ نیا ہندوستان ہے جس پر وہ زور دے رہے تھے ؟ ایک ایسا ہندوستان جہاں حزبِ اختلاف کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہوگی ، اختلاف کرنے کی گنجائش بھی نہیں ! اگر یہی نیا ہندوستان ہے ، تو یہ جمہوری ہندوستان تو نہیں کہا جائے گا ! حزبِ اختلاف کا مطالبہ کوئی غیرآئینی نہیں تھا ، مطالبہ یہی تھا کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح ملک کی صدر جمہوریہ دروپدی مرمو سے کرایا جائے ، اور آئین کی رو سے صدر جمہوریہ ہی پارلیمنٹ کا/کی سربراہ ہے ۔ صدر جمہوریہ ہی پارلیمنٹ طلب کرتا ہے ، اس کا اختتام کرتا ہے ، اسی کے خطاب سے پارلیمنٹ کی کارروائی شروع ہوتی ہے ۔ پاریمنٹ کے افتتاح کا حق صدر جمہوریہ کا ہی تھا ، لیکن افتتاح تو چھوڑیں صدر جمہوریہ کو اس تقریب تک سے دور رکھا گیا ! نائب صدر دھنکڑ بھی اس تقریب میں مدعو نہیں تھے ! سوال تو اٹھے گا ہی کہ پی ایم مودی کا یہ کیسا آئین سے پریم ہے کہ آئین نے جسے جو حق دیا ہے ، اسے ہی اس کے حق سے محروم کر دیا گیا ! حزبِ اختلاف کا مطالبہ غیرآئینی نہیں تھا ، آئین کے دائرے میں تھا ، اسے نہ مان کر اس ملک کی صدر جمہوریہ کو کوئی عزت نہیں بخشی گئی ہے ، بلکہ انہیں شرمندہ کیا گیا ہے ۔ یہ اس ملک کے دلتوں اور آدی واسیوں کی توہین بھی ہے کیونکہ صدر جمہوریہ مرمو ایک دلت اور آدی واسی ہیں ۔ اور یہ اس ملک کی خواتین کی بھی توہین ہے ، کیونکہ صدر جمہوریہ ایک خاتون ہیں ۔ سارا دن پی ایم مودی منظر پر چھائے رہے ، اور یہی وہ مقصد تھا جس کی وجہ سے نہ صدر جمہوریہ اس تقریب میں مدعو تھیں اور نہ ہی نائب صدر جمہوریہ ، کہ اگر ان میں سے کوئی بھی مدعو ہوتا ، یا آتا تو ، پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح اسی کے ہاتھ سے ہوتا نہ کہ پی ایم مودی کے ہاتھ سے ۔ بھلا مودی کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن تھا ! پی ایم مودی سارے منظر پر چھائے رہے ، کوئی اور ان کے اردگرد نظر نہیں آ رہا تھا ۔ سنتوں اور مہنتوں کے جلو میں وہ دھارمک رسومات پر عمل کرتے رہے ، سینگول کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اسے اسپیکر کی کرسی کے ایک جانب نصب کرتے اور اس سے پہلے اس کے سامنے کوشٹانگ یعنی پیٹ کے بَل لیٹ کر پرنام کرتے نظر آئے ۔ کہنے کو تو اس تقریب میں ’ سرو دھرم پرارتھنا ‘ کا اہتمام بھی تھا ، قرآن پاک کی آیات بھی تلاوت کی گئیں ، لیکن ساری تقریب ایک خاص رنگ میں رنگی ہوئی تھی ، ایک ایسا رنگ جسے جمہوریت کا رنگ نہیں کہا جا سکتا ۔ سینگول کو ’ راج ڈنڈ ‘ کہا جاتا ہے ، اسے اردو میں ’ عصائے شاہی ‘ کہا جا سکتا ہے ، اس کا تعلق جنوبی ہند کے ایک شیو مندر سے ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ سینگول علامت ہے ’ اقتدار کی منتقلی ‘ کی ۔ سوال یہ ہے کہ نئی پارلیمنٹ میں کون سا اقتدار منتقل کیا جا رہا تھا ؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ بھلا ایک جمہوریت میں ، جس کا گُن گان پی ایم خود کر رہے تھے ، شاہوں کے درمیان اقتدار کی منتقلی کی علامت والے راج ڈنڈ کا کیا مطلب ؟ ایک سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ اب تک جس سینگول سے بی جے پی اور سنگھ پریوار تک ناواقف تھا ، اسے اچانک کیوں اس قدر اہمیت حاصل ہو گئی ؟ اس سوال کے جواب میں ’ نیا ہندوستان ‘ کا نعرہ بھی چھپا ہوا ہے اور ’ نئی تاریخ ‘ کا نعرہ بھی ۔ اس سینگول کو پی ایم نے ’ کرتویہ ‘ یعنی ’ فرض ‘ کو یاد دلانے والا ’ عصا ‘ قرار دیا ہے ، حالانکہ ’ فرائض ‘ کو یاد دلانے کے لیے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کا بنایا ہوا آئین موجود ہے ۔ تو کیا یہ ماننا درست نہیں ہوگا کہ اب ’ سینگول آئین کی جگہ لے رہا ہے ! اور یہ سینگول اور اس سے جو دھارمک شردھا وابستہ ہے ، وہ ’ نئے ہندوستان ‘ میں ’ نئی تاریخ ‘ مرتب کرے گا ، ایک ایسی تاریخ جس میں جمہوریت اور آئین بس نام کے لیے رہ جائیں گے ! یہ خدشات اٹھ رہے ہیں ، کیا پی ایم مودی ان خدشات کو رفع کرنے کی کوشش کریں گے ؟ یہ سوال ان سے ہی ہے کیونکہ وہی سارے منظر پر چھائے رہے ، وہی نئی عمارت کو بنوانے والے بھی رہے ، انہوں ہی نے سنگِ بنیاد بھی رکھا اور وہی خود افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی بھی تھے ۔