-
مسلمانوں کے تشخص کا مسئلہ اور رام مندر کی تعمیر
- سیاسی
- گھر
مسلمانوں کے تشخص کا مسئلہ اور رام مندر کی تعمیر
266
M.U.H
02/02/2024
0
0
تحریر:عادل فراز
کہتے ہیں شیخ المشائخ حضرت نظام الدین اولیاؒ دریائے جمنا کے کنارے واقع اپنے گھر کی چھت سے ہندوئوں کی عبادت کانظارہ کررہےتھے ،اسی وقت امیر خسرو انکی خدمت میں حاضر ہوئے ۔حضرت نظام الدین اولیا نے امیر خسروسے مخاطب ہوکر کہاکہ اس قوم کو دیکھتے ہو،اور اس کے بعد یہ مصرعہ پڑھا: ’ ہر قوم راست راہی دینی و قبلہ گاہے ‘۔امیر خسرو نے اس مصرعہ پر فی البدیہ دوسرا مصرعہ لگایا :’ من قبلہ راست کردم بر سمت کج کلاہے ‘۔جہاں گیر نے اپنی ’تزک‘ میں اس حکایت کو ملا احمد علی مہرکن کے حوالے سے بیان کیاہے اور لکھاہے کہ جب وہ اس شعر کوپڑھ رہاتھا تو اس پر کپکپی طاری ہوئی اور وہ زمین پر گرکر مرگیا۔حضرت نظام الدین اولیا نے اس شعر میں صوفیاکے مشرب کو بیان کیاہے ،جس کی صوفیا نےہمیشہ پیروی کی ہے ۔وہ ہرمذہب کو محترم اور ان کے عقائد و رسومات کو مقدس تصور کرتے تھے ۔کیونکہ دریائے جمنا کے کنارے علیٰ الصباح ہندو’سوریہ نمسکار‘ کے لئے جمع ہوتے ہیں ،جس کا نظارہ حضرت نظام الدین اپنے گھر کی چھت سے کررہے تھے ،اس لئے انہوں نے امیر خسرو کو اس طرف متوجہ کیااور پیغام دیاکہ اگر دنیا کے تمام لوگ ایک دوسرے کے عقائد اور رسومات کا احترام کریں تو اختلاف کی گنجائش ہی نہیں رہے گی ۔لیکن کسی تاریخ میں یہ نہیں ملتاکہ بزرگ اور معتبر صوفیا نے ہندوئوں کا بھیس دھارلیاہواوران کے مذہبی عقائد و رسومات کو اپناکر اسلامی تشخص کا تمسخر کیاہو۔کسی مذہب اور مسلک کے عقاید و نظریات کا احترام اپنی جگہ ہے لیکن ان پر عمل کرنا اور اپنے تشخص کو مٹادینا الگ بات ہے ۔ہندوستان میں آج یہی صورت حال کارفرماہے کہ بعض مسلمان اپنے تشخص کو ختم کرنے کے درپے ہیں اوراتحاد بین المذاہب کا مطلب کسی دوسرے دین کے عقاید کو اپنانےاور ان کی رسومات پرعمل کرنے کو قرار دیتےہیں ۔یہ سراسر غلط ہے ،کیونکہ ہر انسان کو دوسرے مذاہب و مسالک کااحترام کرنا چاہیے لیکن وہ اپنے دینی تشخص فراموش کرنا گویا اپنی اعتقادی اورسماجی کمزور کا اظہارکرناہے ۔سرکاری عہدوں کی ہوس اور خود کو لبرل اور سیکولر منوانے کے لئے اپنے تشخص کو مٹانا ضروری نہیں ہے ۔آج جو لوگ مسلمانوں کو یرقانی اور زعفرانی تنظیموں کے آگے خودسپردگی اور غلامی کے مشورے دے رہے ہیں ،ان کی اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہے جو اسلامی تشخص سے سمجھوتے کرتےرہتے ہیں اور دینی روایات پرعمل کو حقارت سمجھتے ہیں ۔
کشمیر میں جب رنچن نے معروف صوفی بزرگ بلبل شاہ کی تعلیمات سے متاثرہوکر اسلام قبول کرلیا،اس وقت بلبل شاہ نے بادشاہ کو یہ صلاح نہیں دی کہ وہ اپنی رعیت کو بالجبردین اسلام کی ترغیب دے ۔بلکہ بادشاہ کے مسلمان ہونے کے باوجود اس کے دربار میں اعلیٰ عہدوں پر ہمیشہ ہندو فائز رہے ۔اس کے بعد جب حکومت شاہ میر اور اس کے جانشینوں کی طرف منتقل ہوئی ،جو ترکی الاصل تھے،انہوں نے بھی ہندوئوں کو بالجبر مسلمان بنانے کی کوشش نہیں کی ۔اس عہد میں میر سید علی ہمدانی ؒ وارد کشمیر ہوئے اور انہوں نے دیکھاکہ مسلمان بادشاہوں کا اپنا کوئی تشخص نہیں ہے بلکہ وہ مقامی باشندوں کی طرز پر لباس پہنتے ہیں ،ان کی طرح رہتے سہتے ہیں،ان کی تہذیب اور مسلمانوں کی تہذیب میں کوئی فرق نہیں ہے،اس وقت میر ہمدانی نے سلطان قطب الدین کو نصیحت کرتے ہوئے کہاکہ تمہیں اسلامی تشخص کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ تم میں اور دوسروں میں امتیاز ہوسکے ۔اس کے ساتھ انہوں نے ہندوئوں کےعقائد اور رسومات کو مٹانے یا انکی تضحیک سے منع کیاکیونکہ بالآخر کشمیر میں ہندوئوں کی اکثریت تھی ،جن پر مسلمان حکومت کررہے تھے ۔ہندوستان میں ہمیشہ ایسے صوفیا اور اولیاءکی قدر کی گئی جنہوں نے مذہبی ہم آہنگی اور بین الادیان رواداری کو فروغ دیا۔یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں اکثر بادشاہوں کی شادیاں ہندوئوں میں ہوئیں اور ان کے دربار میں ہمیشہ اعلیٰ مناصب پر ہندو فائز رہے ۔صوفیانے پسماندہ طبقات کی مخلصانہ پذیرائی کی اور انہیں اپنے دسترخوان پر جگہ دی،جس کا نتیجہ یہ ہواکہ وہ لوگ جوق درجوق حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔بعض وہ ذاتیں جنہیں ’اچھوت‘ سمجھاجاتاتھا،صوفیا نے انہیں گلے سے لگایااور اس طبقاتی نظام کوختم کرکے انہیں خودسے قریب کیا،جس کا اثر یہ ہواکہ ان کی خانقاہیں پسماندہ طبقات اور مزعومہ چھوٹی ذاتوں سے لبالب رہتی تھیں ۔انہوں نے ہمیشہ بادشاہوں کو بھی اس روایت کو اپنانے کی تاکیدکی،لیکن بادشاہوں اور صوفیوں کےکردار ایک جیسے نہیں ہوسکتے ۔اس تناظر میں یہ کہاجاسکتاہے کہ اگر صوفیا کی جماعت نہ ہوتی تو ہندوستان کے گوشۂ وکنارمیں مسلمان اتنی بڑی تعداد میں آباد نہ ہوتے ۔
اورنگ زیب جسےہندوئوں کی اکثریت سخت گیر اور راسخ العقیدہ مسلمان سمجھتی ہے وہ انتظامی امور میں علما کی مداخلت کو قطعی پسند نہیں کرتا تھا ۔اس نے ہمیشہ ’لکم دینکم ولی دین‘ کی روش پر عمل کیا۔ایک مرتبہ محمد امین خان نے اورنگ زیب کو درخواست لکھی اور مطالبہ کیاکہ’’ بخشی گری کو جو دونوکریاں ہیں ان پر بدمذہب ایرانی مقرر ہیں ،اگر ایک بخشی گری کی ملازمت مجھے مل جائے تو دین کی تقویت کا باعث ہوگااور اس طرح ایک سنّی کو ملازمت مل جائے گی‘‘۔اورنگ زیب نے اس کو لکھاکہ’’ دنیاوی اور انتظامی معاملات میں مذہبی اور مسلکی تعصب صحیح نہیں ہے ۔اگر اسی قاعدہ پر عمل کیاجائے تو پھر تمام راجائوں اور ان کے متعلقین کو موقوف کردیتے ہیں ۔یاد رکھو لائق لوگوں کی تبدیلی عقلا کے نزدیک مذموم عمل ہے‘‘ ۔اورنگ زیب کا یہ جملہ تمام حکمرانوں کے لئے نمونۂ عمل ہوناچاہیے ،کیونکہ نااہل افراد ملک کو تباہ کردیتے ہیں۔اسی طرح مرہٹوں پر فتح پانے کے بعد جب ایک افسر محرم خاں نے غیر مسلموںکو غیر معتبر اور دشمن بتاتے ہوئے انہیں اعلیٰ عہدوں سے ہٹانے کامطالبہ کیا ،تو اورنگ زیب برانگیختہ ہوگیا۔اس نے لکھاکہ’ حکومتی امور کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا،اگرتمہارا مشورہ قبول کرتے ہوئےاس پر عمل کیاجائے تو مجھ پر فرض ہوگاکہ تمام راجائوں اور ان کے ماتحتوں کی اینٹ سے اینٹ بجادوں،جو میرے بس کی بات نہیں ۔لائق افسروں کو عہدہ سے معزول کرنے کی بات سمجھ دار لوگ نہیں کرتے ۔‘اگر موجودہ ہندوستان میں حکومتی اداروں کاجائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگاکہ اب ان اداروں میں مسلمانوں کی تعداد’نا‘ کے برابر ہے ۔جبکہ مسلمانوں نے ہمیشہ غیر مسلموں کو حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رکھا ،کیونکہ حکومت لائق اور اہل افراد کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی۔مغلوں نے ہمیشہ’صلح کل‘ کی پالیسی پر عمل کیا،جس کو اکبر کے عہد میں نافذ کیا گیاتھا۔اگرایسا نہ ہوتا تو ان کے لئے ہندوستان پر حکومت کرنا ’دیوانے کا خواب‘ ثابت ہوتا۔البتہ اکبر بھی ’صلح کل‘ کے عقیدے پر عمل کرتے ہوئے اپنے تشخص کو بھلابیٹھاتھا ،لیکن اس کے بعض اقدامات قابل قدر ہیں جن میں ہندوئوں سے ’تیرتھ یاترامحصول ‘ کو معاف کرنا بھی شامل ہے ۔اورنگ زیب کے زمانے اس ٹیکس کو دوبارہ نافذ کردیاگیاتھا،جس کے پیچھے علما اورفقہا کی جماعت شامل تھی ،لیکن جب اورنگ زیب کو اس بات کا احساس ہواکہ یہ طریق کار غلط ہے تو اس نے ’تیرتھ یاترا محصول‘ معاف کردیا۔اس لئے جن بادشاہوں نے صوفیا کی سنت پر عمل کیاان کے دور اقتدار میں ہمیں ’صلح کل‘ کا نظریہ پوری آب وتاب کے ساتھ نظر آتاہے اور جو بادشاہ متشدد علما اور فقہا کے نظریاتی گرداب میں الجھ گئے ،وہ مذہبی اور مسلکی بنیادوں پر فیصلے کرتے نظر آتے ہیں ۔البتہ صوفیا نے ہمیشہ اسلامی تشخص کو اپنانے کی تاکید کی ،تاکہ مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کےدرمیان امتیاز ہوسکے ۔اس روش کو موجودہ حکومت نے یکسر نظر انداز کردیاہے اور انہیں یہ لگتاہے کہ عوام کو مذہبی جنون میں مبتلاکرکے اپنا سیاسی مفاد حاصل کرنا بہت آسان ہے ،جس کی وجہ سے آج پورے ہندوستان میں مذہبی منافرت شباب پر ہے ،جس کا مشاہدہ منی پور،دہلی ،گجرات اور اترپردیش جیسی ریاستوں میں کیاجارہاہے۔
اب جبکہ رام مندر کا افتتاح ہوچکاہے اور بی جی پی پوری طرح اس کامیابی کا سہرااپنے سر باندھنا چاہتی ہے ،ایسے حالات میں مسلمانوں کا فرض اولیں ہے کہ وہ اس روایت کو برقرار رکھیں ،جس کی بنیادوں میں صوفیا کاخون پسینہ شامل ہے۔بعض وہ لوگ جو اپنے دینی تشخص کو نظر انداز کرکے’ہندو‘بنے جارہے ہیں انہیں اس طر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔برادران وطن کی خوشیوں میں شامل ہونا ہماری مشترک تہذیبی روایت کا حصہ رہاہے ،لیکن اپنے تشخص کے برخلاف کسی عمل کا انجام دینا غیر عقلی اقدام ہے۔اس سے غیر مسلموں کے درمیان یہ پیغام عام ہوتاہے کہ مسلمان ڈرکر یا احساس کمتری کے نتیجے میں ایسی حرکتوں کے مرتکب ہورہے ہیں۔ہمیں چاہیے کہ اپنے برادران وطن کے درمیان جاکر دینی اخوت کا مظاہرہ کریں لیکن اپنے تشخص سے ہرگز سمجھوتہ نہ کریں ۔اس سے دنیا میں بھی بدنامی ہوتی ہے اور غیر مسلموں کے درمیان بھی ہماری ساکھ متاثر ہوتی ہے ۔
رام مندر کے افتتاحی اجلاس میں جن لوگوں نے شرکت کی ،ان کی شرکت کی الگ الگ توجیہات کی جاسکتی ہیں ،لیکن کیا انہوں نے ایک بار بھی یہ مطالبہ کیاکہ آیودھیا میں اب تک مسجد کی تعمیر کیوں شروع نہیں ہوسکی؟ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اتنی کم مدت میں اتنا شاندار مندر تعمیر ہوسکتاہے ،تو کیا اس مدت میں مسجد کی بنیاد بھی نہیں رکھی جاسکتی تھی ؟ ظاہر ہے جو لوگ عہدے کی ہوس میں ’بابوکیسریا‘ بنے گھوم رہےہیں ،ان کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہوگا۔