-
ہندوستان چین تنازعہ: نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن
- سیاسی
- گھر
ہندوستان چین تنازعہ: نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن
833
M.U.H
19/09/2020
0
0
تحریر: اعظم شہاب
تازہ خبر یہ ہے کہ ماسکو میں ہندوستان اور چین کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والی میٹنگ بھی اسی طرح بے نتیجہ ثابت ہوئی جس طرح وزیردفاع راج ناتھ سنگھ کی اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ ہوئی میٹنگ اور این ایس اے اجیت ڈووال کا چینی وزیردفاع کے ساتھ بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا۔ شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن میں دو روز قبل ہندوستانی وزیرخارجہ ایس جئے شنکر اور چینی وزیرخارجہ وانگ یی کے درمیان ہوئی میٹنگ میں یوں تو کئی نکات پر بات چیت کے ہونے کی خبریں ہیں، مگر ان میں سرحد پر کشیدگی کم کرنے کے لیے اپریل سے قبل کی صورت حال پر واپسی کی کوئی بات چیت شامل نہیں تھی۔ جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ سرحد پر کشیدگی ہنوز برقرار ہے اور صورت حال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ دونوں ملک لداخ کے جنوبی کے علاقے میں بالکل جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں اور فوجیں ایک دوسرے کے شوٹنگ رینج تک آگے بڑھ چکی ہیں۔
گزشتہ کل یعنی کہ سنیچر کو دونوں ممالک کے بریگڈیئر سطح کے افسران نے تقریباً ساڑھے تین گھنٹے تک کشیدگی کم کرنے کے لیے بات چیت کی مگر یہ ایک فضول سی ایکسرسائز معلوم ہوئی، کیونکہ اس کے باوجود صورت حال بگڑتی ہی جارہی ہے۔ تقریباً 6 مقامات پر دونوں ملکوں کی فوجیں 2 سو سے 9 سومیٹر کے فاصلے یعنی کہ شوٹنگ رینج میں آگئی ہیں۔ کالاپ، ہیلمیٹ ٹاپ پرکشیدگی حددرجہ بڑھ چکی ہے۔ روزی لاء، چوشول، فنگر4 کے پاس ڈیپ سانگ میں صورت حال انتہائی خراب بتائی جارہی ہے۔ خبروں کے مطابق ہندوستانی فوجیوں کو پیچھے ہٹانے کے لیے چین نے اپنے خصوصی تربیت یافتہ فوجیوں کو تعینات کر دیا ہے جو بغیراسلحہ کے جنگ لڑنے کے ماہر بتائے جاتے ہیں۔ اسے وہاں کا ملیشیا دستہ بھی کہا جاتا ہے اور جس کا استعمال جنگ کی صورت میں چینی فوجیوں کی مدد کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔ دونوں ملکوں کی فوجیوں میں بلندیوں اور جنگی نقطہ نظر سے اہم مقامات پرقبضہ کرنے کی ہوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ انہیں مقامات میں سے ایک اسپانگور جھیل اور اسپانگور گیپ بھی ہے جہاں پر ہندوستانی فوجیوں کا قبضہ ہے، جنہیں فوری طور پر پیچھے ہٹانے کے لیے چین وزرائے خارجہ کی میٹنگوں سے لے کر بریگیڈیئر سطح کی میٹنگوں تک میں اڑا ہوا ہے، مگر ہندوستانی فوجی جن کی بہادری پر کسی ہندوستانی کو کوئی شک نہیں ہے، وہ اپنی جگہ ڈٹے ہوئے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح ہندوستانی فوجیوں کی بہادری اور ہمت پر کوئی شک وشبہے کی گنجائش نہیں ہے، کیا اسی طرح ہم اپنے سیاسی قائدین پر بھی اعتماد کرسکتے ہیں؟ اگراس سوال پرغور کیا جائے تو معلوم نہیں کیوں جواب نفی میں سامنے آتا ہے۔ اس کی وجہ جاننے کے لیے ماسکو میں وزرائے خارجہ کے درمیان طے ہونے والے ان پانچ امور پر ایک نظر ڈال لینا کافی ہوگا، جس میں یہ پوائنٹ تو شامل تھے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید کیسے مضبوط کیا جائے اور متنازعہ امور سے بچتے ہوئے دونوں ملکوں کے فوجی افسران کے درمیان بات چیت کو کس طرح جاری رکھا جائے، مگر اس پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی کہ چین اپنی فوجیں پیچھے ہٹاکر اپریل سے قبل کی پوزیشن پر آجائے۔ جبکہ چین کی جانب سے ابھی تک کی تمام میٹنگوں میں ہندوستان پر یہ دباؤ ڈالے جانے کی خبر ہے کہ جب تک ہندوستان اپنی فوج کو پیچھے نہیں ہٹا لیتا، چین کسی بات چیت کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہونے دیگا۔ چین کی طرف سے اس دباؤ یا یوں کہیں کہ مطالبے کے پیچھے کی منطق یہ بتائی جارہی ہے کہ چونکہ ہمارے پردھان سیوک نے یہ اعتراف کیا تھا کہ ہماری سرحدوں میں نہ کوئی آیا ہے اور نہ ہی ہمارے کسی علاقے یا کسی پوسٹ پرکسی نے قبضہ کیا ہے، لہذا چین کا یہ موقف ہے کہ لداخ کی کشیدگی ہندوستانی فوجیوں کی دراندازی کے سبب ہوئی ہے جو چین کی سرحد کے اندر آگئے ہیں۔ اب چین اس بات پر بضد ہے کہ ہندوستان اپنی فوج کو پیچھے ہٹائے۔
سچائی یہ ہے کہ سرحد پر کشیدگی کم کرنے کے لیے ہمارے پردھان سیوک کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے۔ کورونا کی آڑ اور گودی میڈیا کی خاموشی کی سبب بھلے ہی ملک کے عوام لداخ میں اپنی سرحدوں پر قبضے کی سنگینی سے واقف نہ ہوسکے، مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ خطرے کی شدت کم ہو جائے گی۔ لداخ میں چین نے اپنے جتنے فوجی تعینات کیے ہیں، ان کے رہنے و رسد کے لیے اس نے اپریل سے قبل ہی سے انتظامات شروع کر دیئے تھے۔ ایل اوسی کے نہایت قریب چینی تعمیرات کی خبریں تو جنوری سے ہی آنی شروع ہوگئی تھیں، مگر ہمارے یہاں اس سے زیادہ اہم معاملہ مدھیہ پردیش میں کانگریس کی حکومت گراکر بی جے پی کی حکومت بنانا اورراجستھان میں کانگریس کی حکومت گرانا تھا۔ یہی حال کورونا کی وبا کی روک تھام میں بھی رہا کہ جب دسمبر کے اواخر میں کورونا نے ہمارے ملک میں دستک دے دی تھی تو اس کے ایک ماہ بعد بھی ہمارے پردھان سیوک کی ترجیحات میں امریکی صدر کو نمستے کرنا تھا۔
انہیں کالموں میں اس سے قبل بھی کہا گیا تھا کہ چین کی دراندازی اسی صورت پر موقوف ہوسکتی ہے کہ جب ہمارے پردھان سیوک خود چینی صدر سے بات کریں۔ اس ضمن میں ایک خوش آئند خبر یہ ہے کہ پردھان سیوک چینی صدر سے بات چیت کے لیے تیار ہوگئے ہیں، مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بات چیت ہوئی تو ہمارے پردھان سیوک کے پاس چین کے اس اعتراض کا کیا جواب ہوگا کہ ہندوستانی فوج چین کی سرحد میں داخل ہوئی ہے؟ یا پھر اگر چینی صدر نے پردھان سیوک کو وہ پرانا وعدہ یاد دلا دیا تو کیا ہوگا جس کے تحت ہندوستان نے چین کا ساتھی بننا منظور کیا تھا۔ جبکہ یہ بات نہ صرف پردھان سیوک بلکہ ملک کی تمام اعلیٰ قیادت تسلیم کرتی ہے کہ چین کی جانب سے دراندازی کا یہ معاملہ کشمیر سے آرٹیکل 370 اور 35 اے ہٹانے کی وجہ سے شروع ہوا ہے۔ ایسی صورت میں کیا یہ ممکن ہوگا کہ پردھان سیوک چین کو اپنے شرائط پر پیچھے ہٹنے پر مجبور کرسکیں؟ یہ سوال اس لیے بھی ضروری ہے کہ کشمیری لیڈران اب علانیہ اس بات کا مطالبہ کرنے لگے ہیں کہ کشمیر میں دوبارہ آرٹیکل 370 بحال کیا جائے۔
چین کی اس چال سے ہمارے وزیردفاع ووزیرخارجہ سے لے کر فوج کے اعلیٰ افسران تک جانتے ہیں کہ چین صرف وقت گزار رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ محض آٹھ دنوں بعد سے ہی لداخ میں برف باری شروع ہوجائے گی، اور وہاں پارہ منفی 20 تک پہنچ جائے گا۔ اس صورت حال میں وہاں بغیر کسی تیاری کے ہندوستانی فوجیوں کو اپنا قبضہ برقرار رکھنا مشکل ہوسکتا ہے۔ خاص طور ایسی صورت میں جب ہندوستانی فوجیوں کے پاس اس موسم سے لڑنے کے لیے مناسب انتظامات تک نہ ہوں۔ اس لیے ہمارے پردھان سیوک کو اپنی خارجہ پالیسی کی اس مہارت کو چین میں استعمال کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے جس کی بنیاد پر انہوں نے چینی صدر کو اپنا روحانی دوست تک قرار دے دیا تھا۔ اب یہ ہمارے پردھان سیوک کی صوابدید پر ہے کہ وہ ملک کی سالمیت کو فوقیت دیتے ہیں یا بہار الیکشن کو۔ ہم دیش واسی ملک کی سالمیت کے لیے بس دعا کرسکتے ہیں سو کر رہے ہیں۔