-
دستور کی تبدیلی یقینی علاقائی تصادم کا امکان
- سیاسی
- گھر
دستور کی تبدیلی یقینی علاقائی تصادم کا امکان
230
m.u.h
01/10/2023
0
0
تحریر: اروندھتی رائے
آجکل یہ سوال بہت زیادہ گردش کررہا ہے کہ آیا ہندوستان اب بھی ایک جمہوریت ہے؟ کیا یہاں اب بھی جمہوریت بقید حیات ہے؟ اور جن لوگوں کو اس بات پر یقین ہے کہ ہمارا ملک اب بھی ایک جمہوری ملک ہے ، یہاں جمہوریت ہنوز زندہ ہے تو انہیں پچھلے چند ماہ کے دوران منی پور سے لیکر مظفر نگر تک پیش آئے کئی ایک ناخوشگوار واقعات پر نظر ڈالنی چاہیئے۔ میرے خیال میں ملک کے جو موجودہ حالات ہیں انہیں دیکھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ وارننگ کا وقت ختم ہوچکا ہے اور ہم عوام کے ایک گوشہ ( فرقہ پرستوں ) سے اس قدر خوفزدہ ہیں جتنے اپنے سیاسی رہنماؤں سے خوفزدہ ہیں۔ میں نے گذشتہ 25برسوں سے میں جو لکھا ، جو مضامین تحریر کئے اس کیلئے میری پذیرائی بھی کی گئی ( مصنفہ کو پچھلے ہفتہ لوزان سوئٹزر لینڈ میں 2023 کے یوروپین ایسسے پر ائز فار لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ عطا کیا گیا اور اس موقع پر انہوں نے خطاب کیا ، اسی خطاب کو یہاں پیش کیا جارہا ہے) میں نے ربع صدی کے دوران جو مضامین قلمبند کئے ہیں وہ قدم بہ قدم ہندوستان کی جمہوریت کے روبہ زوال ہونے کا نقشہ پیش کرتے ہیں اور نہ صرف ہندوستانی شہریوں بلکہ دنیا کو یہ بتاتے ہیں کہ ہندوستان فاشزم سے بہت زیادہ متاثر ہوا، اور یہاں کے جمہوری اقدار مسلسل پامال ہوتے رہے جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
حیرت اس بات کی ہے کہ جمہوری اقدار کی پامالی فاشزم کے فروغ کو کچھ عناصر ترقی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ بات ضرور ہے کہ ہندوستان میں حکمراں جماعت بی جے پی نے ہندوبالا دستی کے عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے اس بالا دستی کے پیغام کو 140 کروڑ آبادی میں بڑی بے رحمی سے پہنچایا ہے۔ اگر ہم ہمارے ملک میں ہونے والے الیکشن یا انتخابات کی بات کرتے ہیں تو بلا جھجھک یہ کہا جاسکتا ہے کہ الیکشن دراصل ہمارے ملک میں ایک موسم ہے قتل و غارت گری کا موسم، بے قصور و نہتے لوگوں کو سڑکوں ، بازاروں ، گلیوں میں پیٹ پیٹ کر موت کی نیند سلائے جانے کا موسم، اشاروں کنایوں میں فرقہ پرستی کے زہر سے آلودہ پیغامات، بیانات ، خطابات کی تشہیر اور پروپگنڈہ کا موسم ، جھوٹ و دروغ گوئی کا موسم۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انتخابات جب بھی آتے ہیں یا الیکشن کا موسم جب بھی آتا ہے یہ موسم ہمارے ملک میں اقلیتوں خاص کر مسلمانوں اور عیسائیوں کیلئے سب سے خطرناک وقت ہوتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب ہمارا یہ حال ہوگیا ہے کہ ہم صرف سیاسی لیڈران سے ہی نہیں بلکہ اپنی آبادی کے ایک پورے حصہ سے ڈرتے ہیں‘ اس سے خوف و دہشت میں مبتلاء ہیں جسکیثبوت‘ جس کے شواہد ہمیں ہماری سڑکوں، بازاروں، گلیوں، اسکولس، کلاس رومس ( جماعتوں ) اور دوسرے کئی عام مقامات پر وقفہ وقفہ سے نظر آتے ہیں اور اس زہر کو ایسے عام کردیا گیا جیسے یہ کوئی روز مرہ کی چیز ہو۔
مذہب عقیدہ اور ذات پات کے نام پر بے بس و مجبور انسانوں کا قتل روز کا معمول بن گیا ہے یا بنادیا گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ قومی میڈیا جسے ہم باالفاظ دیگر مین اسٹریم میڈیا بھی کہتے ہیں ( یہ اور بات ہے کہ محب وطن‘ انصاف پسند‘ انسانیت نواز ہندوستانی اسے گودی میڈیا کہتے ہیں )24 گھنٹے چلنے والے ان بے شمار ٹی وی چیانلوں کو فاشسٹ اکثریت پسندی کی مہم میں شامل کرلیا گیا ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو ان میڈیا چیانلوں نے خود کو فاشسٹ اکثریت پسندی کے فروغ کا ایک ذریعہ بنادیا ہے اور 24 گھنٹے اسی فاشست نظریہ کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔ دراصل دستور ہند کو ان عناصر نے مذہب کے نام پر ایک طرف رکھ دیا ہے۔ اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ آئی پی سی کو از سرِ نو مدون کیا جارہا ہے اور اسے فرسودہ قرار دے کر اپنے مفادات و مقاصد کے تحت از سرِ نو لکھا جارہا ہے اور یہ کام کھلم کھلا کیا جارہا ہے۔ ان فاشسٹ طاقتوں کا ایجنڈہ کوئی خفیہ نہیں رہا۔ بہر حال گذشتہ چند برسوں کے دوران ہم نے اپنے ملک میں جن بدلے ہوئے حالات کا مشاہدہ کیا ہے ، دستور اور جمہوری اداروں کی پامالی دیکھی ہے اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ حکومت ( نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت ) آئندہ سال 2024 کے ہونے والے عام انتخابات میں بھی اکثریت حاصل کرتی ہے تو اس بات کے قوی امکانات پائے جاتے ہیں کہ دستور بدل دیا جائے گا اور ہم ایک نئے دستور کا مشاہدہ کریں گے۔یہ بھی عین ممکن ہے کہ پارلیمانی حلقوں کی حد بندی کے نام پر شمالی ہند کی ریاستوں ( ہندی پٹی ) میں زیادہ پارلیمانی نشستیں دی جائیں‘ یہ وہ ریاستیں جہاں بی جے پی کا ووٹ بینک ہے۔اگر بی جے پی حد بندی کے نام پر ایسا کرتی ہے تو پھر ملک کی تعلیمی، معاشی، سائنسی اور ٹکنالوجی کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والی جنوبی ہند کی ریاستوں میں شدید ناراضگی اور برہمی پیدا ہوسکتی ہے اور یہ ایسا قدم ثابت ہوگا جو مختلف مذاہب، ذات پات، زبانوں، تہذیبوں کی نمائندگی کرنے والے ہندوستان کو ایک ایسے ملک میں تبدیل کرسکتا ہے جہاں مختلف علاقوں ( علاقائی تعصب و جانبداری ) کے درمیان اختلافات اور تصادم کے حالات پیدا ہوں گے اور اس کا نقصان صرف اور صرف ہمارے وطنِ عزیز ہندوستان کو ہوگا۔
موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو اس بات کے بہت کم امکانات دکھائی دیتے ہیں کہ بی جے پی کو ناکامی ہوگی، عام انتخابات 2024 میں بی جے پی کی ناکامی یا شکست کے امکانات بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ بالفرض اگر بی جے پی کو شکست بھی ہوجاتی ہے تب بھی احساس برتری کا جو زہر معاشرہ میں گہرائی تک سرایت کرچکا ہے اس پر قابو پانا بہت مشکل ہے کیونکہ اس پر کنٹرول کرنے اس پر لگام لگانے والے ہر ادارہ کو کھوکھلا کردیا گیا ہے۔ابھی تو نگرانی اور کنٹرول برقرار رکھنے کیلئے کوئی ادارہ نہیں بچا ہے سوائے ایک کمزور اور کھوکھلی کردی گئی سپریم کورٹ کے۔ آپ کو بتاؤں کہ میری پہلی کتاب ’’ دِی گِلڈ آف اسمال تھنگ ‘‘ ناول کی شکل میں 1997 کو منظرِ عام پر آئی ، حسنِ اتفاق دیکھئے کہ اُسی سال برطانوی سامراج سے ہندوستان کی آزادی کی پچاسویں سالگرہ بھی منائی جارہی تھی، وہ دور ایسا تھا جب سرد جنگ کو ختم ہوئے 8 سال ہوچکے تھے ، اگر دیکھا جائے تو وہ امریکہ کے زیر تسلط ایک قطبی دنیا کی شروعات تھی جس میں امریکہ کے سامنے اس کی مخالفت کرنے والی یا اسے چیلنج کرنے والی کوئی حکومت، کوئی طاقت نہیں تھی ایسے میں ہندوستان نے اپنا موقف بدلا اور امریکی کیمپ میں شامل ہوگیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کارپوریٹ سرمائے کیلئے اپنا مارکٹ کھول دیا، خانگیانے کا عمل شروع کیا گیا اور آزادانہ مارکٹ کے نعرے بلند ہونے لگے۔
دنیا بھر میں فراخدلانہ معاشی پالیسی کو لیکر ہندوستان کی ستائش کی جارہی تھی تاہم1998 میں بی جے پی کی زیر قیادت ہندو قوم پرست حکومت آئی اور اس نے سب سے پہلے نیوکلیئر تجربات کئے اور زہریلی اور اندھی عقیدت رکھنے والوں نے اس کا خیرمقدم کیا، ان میں ہر کوئی شامل تھا، مصنف ، فنکار اور صحافی سب کے سب شامل تھے۔ میں نے اپنے قلم کی بقاء کو یقینی بنانے ایسے مضامین تحریر کئے جس سے یہ عناصر چراغ پا ہوگئے اور مجھے غدار اور ملک دشمن کے القاب سے نوازا گیا لیکن میں نے ان توہین آمیز کلمات کو تعریف و تحسین کی طرح قبول کیا۔ آج کے حالات پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں قومی دھارے کا کوئی میڈیا ہاؤس ایسا نہیں ہے جو ماضی کے میرے مضامین کو شائع کرے۔ اب میڈیا صنعتی گھرانوں کے اشتہارات پر زندہ ہے، خیر آزاد بازاروں، فاشزم اور نام نہاد آزاد صحافت نے ملکر ہندوستان کو اس مقام پر پہنچادیا ہے جہاں اسے کسی بھی طرح ایک جمہوریت نہیں کہا جاسکتا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ آج ہندوستان میں مودی اور اڈانی ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں باالفاظ دیگر جس طرح مودی کی ضرورت کے وقت اڈانی اُن کے ساتھ کھڑے تھے ہنڈنبرگ کی رپورٹ اور دیانتدار میڈیا نے اڈانی گروپ پر بدعنوانیوں کے الزامات عائد کئے تب سے مودی اڈانی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ملک میں غریبوں کا برا حال ہے، ملک کی صرف 10 فیصد آبادی کے پاس ملک کی 77 فیصد دولت ہے جبکہ 67 کروڑ ہندوستانی غریب ہیں اور ان کی دولت یا آمدنی میں صرف ایک فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان غریب عوام کا بہت امیر ملک ہے، ہندوستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ہلکے پھلکے انداز کا انٹرنٹ فاشزم نہیں ہے بلکہ حقیقت میں ہم نازی بن چکے ہیں۔
( نوٹ: ادارہ کا مضمون نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں )