-
تیستا کے ساتھ انصاف
- سیاسی
- گھر
تیستا کے ساتھ انصاف
357
m.u.h
05/09/2022
0
0
تحریر:روش کمار
سماجی جہدکار اور صحافی تیستا سیتلواد فی الوقت گجرات میں محروس ہیں۔ حکومت گجرات کی پولیس نے ان پر وزیراعظم نریندر مودی کو اس وقت بدنام کرنے کا الزام عائد کیا جب وہ عہدہ چیف منسٹری پر فائز تھے۔ تیستا کی گرفتاری کیسے ہوئی ، ہم آپ کو بتاتے ہیں:وزیر داخلہ امیت شاہ کا انٹرویو منظر عام پر آتا ہے جس میں وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ تیستا سیتلواد نے کسی بڑے اپوزیشن لیڈر کی ایماء پر گجرات فسادات کے حوالے سے اس وقت کی مودی حکومت کو بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ امیت شاہ کے انٹرویو کے چند گھنٹوں بعد ہی گجرات پولیس نے ممبئی پہنچ کر تیستا سیتلواد کو گرفتار کرلیا اور کافی عرصہ سے وہ گجرات کی ایک جیل میں بند ہیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ سپریم کورٹ نے تیستا سیتلواد کی گرفتاری اور ضمانت نہ دیئے جانے اور درخواست ِ ضمانت کی سماعت کیلئے گجرات ہائیکورٹ کی جانب سے دی گئی تاریخ پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور سالیسیٹر جنرل تشار مہتا کو لاجواب کردیا۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کے سوالات اور تیستا کے وکیل کپل سبل کے دلائل پر تشار مہتا بے بس ہوگئے۔ تشار مہتا کے پاس صرف ایک دلیل تھی اور وہ یہ کہ اس کیس کی سماعت ہائیکورٹ میں ہورہی ہے تو وہیں ہونی چاہئے۔ سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کی جانب سے دی گئی تاریخ سماعت کو لے کر سوالات اٹھائے۔ چیف جسٹس یو یو للت نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ کیا ہم اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ سپریم کورٹ کی بینچ نے جس طرح تیستا کی گرفتاری اور مقدمہ پر سوالات اُٹھائے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تیستا سیتلواد جیسی بیباک و نڈر سماجی جہدکار و صحافی کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا گیا، وہ قانون کی تمام حدود پھلانگتے ہوئے اورحدود کو توڑتے ہوئے کیا گیا۔ چیف جسٹس کا یہ ریمارک بھی قابل غور رہا کہ کیا گجرات ہائیکورٹ میں یہی روایت اور پریکٹس ہے۔ دراصل جسٹس یویو للتا کی زیرقیادت بینچ اس بات کو لے کر ناراض تھا کہ ایک خاتون کی ضمانت کے معاملے میں 6 ہفتے بعد کی تاریخ دی گئی۔ آخر ایسا کیوں کیا گیا؟ سپریم کورٹ بینچ نے حکومت گجرات کو ہدایت دی کہ وہ اس طرح کے معاملات سے متعلق معلومات فراہم کرے اور یہ بتائے کہ گجرات ہائیکورٹ کی جانب سے تیستا کی درخواست ضمانت کی سماعت 6 ہفتوں تک ملتوی کیوں کی گئی ، اب حکومت کو یہ بتانا ضروری ہے کہ آیا ایسا صرف اور صرف تیستا سیتلواد کو زیادہ سے زیادہ عرصہ تک جیل میں محروس رکھنے کیلئے کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ صرف سپریم کورٹ ہی نہیں بلکہ شہری و انسانی حقوق کی تنظیمیں ، ملک کے ممتاز وکلاء، ماہرین قانون اور سماجی جہدکار یہ سوال کررہے ہیں کہ آخر حکومت گجرات تیستا سیتلواد کی درخواست ضمانت کی مخالفت کیوں کررہی ہے۔ گجرات حکومت کا الزام ہے کہ تیستا نے ایک سینئر اپوزیشن لیڈر کی ایماء پر رقم لے کر اُس وقت کے چیف منسٹر نریندر مودی کے خلاف سازش کی تھی۔ انہیں بدنام کیا۔ خود گجرات حکومت کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ایسے بے شمار ثبوت ملے ہیں کہ تیستا نے مودی اور ان کی حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کے تلخ سوالات پر سالیسیٹر جنرل تلملا کر رہ گئے۔ ایک مرحلہ پر تو عدالت عظمی نے سالیسیٹر جنرل سے دریافت کیا کہ تیستا کے خلاف پوٹا کا کیس درج ہے اور نہ ہی ان پر یو اے پی اے کا اطلاق عمل میں لایا گیا ہے، اس کے باوجود 2 ماہ سے زائد عرصہ سے انہیں حراست میں رکھا گیا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہہ دیا کہ تیستا قانونی راحت کی مستحق ہے۔ بہرحال تیستا سیتلواد کی جس انداز میں گرفتاری عمل میں آئی، اس سے حکومت گجرات کی نیت و ارادوں کا پتہ چلتا ہے۔ تیستا سیتلواد نے گجرات فسادات کے درجنوں ملزمین کو عدالتوں کے ذریعہ سزائیں دلائیں۔ متاثرین کو انصاف دلایا۔ کانگریس کے مقتول لیڈر احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جغفری کو انصاف دلانے انتھک جدوجہد کی لیکن انہیں حراست میں لے کر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے پیسے لے کر مودی کو بدنام کیا۔ حکومت گجرات اور گجرات پولیس نے اسی لئے تیستا کے خلاف کارروائی کی۔ اگرچہ روش کمار نے اپنے اس مضمون میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ ملک میں قانون سے کس طرح کھلواڑ کیا جارہا ہے لیکن سپریم کورٹ نے تیستا کو عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے بتادیا ہے کہ ہمارے ملک میں جہاں سیاست داں اور ان کی حکومتیں قانون سے لاکھ کھلواڑ کرلیں لیکن جیت سچائی کی ہی ہوگی اور عدالت عظمیٰ نے تیستا سیتلواد کو عبوری ضمانت دے کر یہ ثابت بھی کردیا ۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ تیستا سے پولیس سات دنوں میں پوچھ گچھ کرسکتی تھی لیکن دو ماہ سے زائد عرصہ سے انہیں محروس رکھا گیا۔ ایسے میں وہ عبوری ضمانت کی حقدار ہے۔ واضح رہے کہ تیستا 7 دنوں تک پولیس تحویل میں تھیں اور پھر انہیں عدالتی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔ ان کی جاریہ سال 26 جون کو گرفتاری عمل میں آئی تھی۔ بہرحال سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلہ نے امید کی کرن پیدا کردی کہ حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہو، ہمارے ملک میں عدالتیں ہی قانون کی حکمرانی کو یقینی بناسکتی ہیں۔