-
ہلدوانی میں مسلمانوں کے گھروں کی تباہی پر خوشی ،جوشی مٹھ پر غم
- سیاسی
- گھر
ہلدوانی میں مسلمانوں کے گھروں کی تباہی پر خوشی ،جوشی مٹھ پر غم
443
m.u.h
15/01/2023
0
0
تحریر:روش کمار
اُتراکھنڈ کے شہر ہلدوانی (Haldwani) کے بعد اب جوشی مٹھ کا نمبر آیا ہے ،سپریم کورٹ کی وجہ سے ہلدوانی میں ہزاروں مکانات کو منہدم کئے جانے پر روک لگ گئی ہے۔ یہ آپ کی کوشش اور آپ کی جدوجہد ہے۔ اگر آپ (عوام) اس مسئلہ کو لے کر لوگوں کے درمیان نہیں گئے ہوتے تو گودی میڈیا اس مسئلہ پر توجہ دینا تو دور وہاں جھانکنے بھی نہیں آتا۔ آپ کی وجہ سے ہلدوانی کے لوگوں کے گھر بچ گئے۔ اب بات کرتے ہیں اُتراکھنڈ کے جوشی مٹھ کی۔ جوشی مٹھ میں سینکڑوں مکانات میں دراڑیں پیدا ہوگئی ہیں، شگاف پڑگئے ہیں، وہاں کے لوگ اپنے مکانات کو تباہ ہوتے دیکھ کر اسی طرح پریشان ہیں جس طرح ہلدوانی کے لوگ اپنے گھروں کو منہدم کئے جانے سے متعلق نوٹسوں سے پریشان ہوگئے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب ایسا کیا ہوگیا ہے کہ ایک سال سے جوشی مٹھ بچاؤ آندولن (تحریک)چل رہا ہے۔ مذہبی اہمیت کے حامل مقام کو لے کر حکومت چوکس کیوں نظر نہیں آتی؟ جوشی مٹھ کے انتظامیہ نے چاردھام اور این ٹی پی سی کے پروگرام و پراجیکٹس پر روک لگا دی ہے لیکن کیا اس سے وہاں اٹھ رہے سوالات کے جواب ملیں گے اور یہ سنگین مسئلہ حل ہوگا۔ ہلدوانی کی کہانی اور جوشی مٹھ کی کہانی الگ نہیں ہے۔ دونوں ہی ’’ترقی کی سیاست ‘‘کے شکار ہیں۔ بھلے دونوں دو کناروں پر ہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ جوشی مٹھ کے لوگ ہلدوانی کے لوگوں کے ساتھ ہیں یا نہیں یا ہلدوانی کے لوگ جوشی مٹھ کے لوگوں کے ساتھ ہیں یا نہیں؟ مگر ایک چیز معلوم ہے، آپ کا ایک دوسرے کے ساتھ نہ ہونا ہی تباہی کی سیاست کی ترقی کا راز ہے۔ تباہی کی سیاست کی ترقی کیا ہوتی ہے؟ وہ ہمیں آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ جوشی مٹھ کے سینکڑوں لوگوں نے بدری ناتھ قومی شاہراہ نمبر 58 جام کردی۔ عوام سڑکوں پر آگئے تو انتظامیہ نے NTPC پراجیکٹ اور چاردھام پروگرام کے کاموں پر روک لگا دی۔ یہ تو انتظامیہ کا فیصلہ ہے مگر جن مکانات میں شگاف پڑ رہے ہیں، ان کا کیا ہوگا؟ گزشتہ سال 24 ڈسمبر کو بھی جوشی مٹھ کے لوگوں نے زبردست احتجاج کیا تھا، لیکن تب ان کی بات کیوں نہیں سنی گئی۔ ڈسمبر سے پہلے اکتوبر کے ماہ میں بھی جوشی مٹھ کے عوام نے بازار بند کئے تھے تاکہ حکومت کی توجہ ان کے مکانات میں پڑ رہے شگاف و دراڑوں پر جائے۔ یہاں چل رہی اسکیموں ، پراجیکٹس اور پروگرامس پر روک لگے ، اگر لوگ سڑکوں پر نہ آتے تو تھوڑے وقت کیلئے ہی سہی ان پراجیکٹس پر روک نہیں لگتی، پر یہ روک ہمیشہ کیلئے نہیں ہے۔ شمالی ہند کے لوگ جوشی مٹھ کے مکانات کو اچھی طرح سے دیکھ لیں۔ آپ کے گھروں میں بجلی آئے، اسی لئے ان کے گھروں میں اندھیرا آرہا ہے۔ کسی کی گلی میں دراڑیں پیدا ہوگئی ہیں تو کسی کے مکان کے اندر شگاف ہیں۔ کسی کی چھت پھٹ رہی ہے تو کسی کی دیوار میں شگاف پڑ گئے ہیں۔ لوگ اپنے اپنے مکانات میں آرہی دراڑوں کو دکھا رہے ہیں۔ ان حالات میں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ ایسی ترقی چاہیں گے جس کی وجہ سے آپ کے گھروں میں شگاف پیدا ہورہے ہیں، ایک گھر بنانے میں کتنے سال لگ جاتے ہیں، کتنا پیسہ لگتا ہے، عوام کہہ رہے ہیں ، حکومت سن بھی رہی ہے لیکن کچھ کر نہیں رہی ہے۔ حکومت نے کچھ کیا ہوتا تو جوشی مٹھ کے لوگ سڑکوں پر نہیں آتے۔ ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ میں شیوانی آزاد اور گورو تلوار کی رپورٹ پڑھ رہا تھا جن کے مطابق اگست 2019ء میں روی چوپڑا کمیٹی نے چاردھام سڑک پراجیکٹ کو لے کر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا اور انتباہ دیا تھا، اس کے بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا۔ عدالت نے 2021ء میں اس پراجیکٹ کو سبز جھنڈی دکھادی۔ اخبار کی رپورٹ میں روی چوپڑا کا بیان ہے کہ بارڈر روڈ آرگنائزیشن کو علاقہ کا جغرافیائی جیو فزیکل اور جیو ٹیکنیکل سروے کرنا چاہئے تھا جو نہیں کیا گیا۔ ذرا تصور کیجئے! اگر آپ کے گھروں میں اس قسم کے شگاف پڑتے اور سرکاری پراجیکٹ کی وجہ سے منہدم ہورہے ہوتے اور آپ دہلی میں ہوتے تو میڈیا کیا کرتا؟
جوشی مٹھ کو لے کر کئی رپورٹس ہیں 1976ء میں مشرا کمیٹی کی رپورٹ ہے، اس کے بعد بھی اس علاقہ میں بے شمار بھون تعمیر کئے گئے اور ترقیاتی پراجیکٹس پر کام ہورہا ہے۔ فروری 2021ء میں رشی گنگا اور دھولی گنگا میں اچانک سیلاب آیا جس کی وجہ سے NTPC کی ایک سرنگ کے حصہ میں شگاف پڑگئی اور 200 لوگ مرگئے، ہمیں نہیں معلوم کے ان 200 افراد کے خاندانوں کی زندگی کیسے گذر رہی ہے۔ ایسی خبریں کتنی جلدی بھلا دی جاتی ہیں۔ اس واقعہ کے کچھ ہی مہینوں کے بعد یعنی ڈسمبر 2021ء میں سپریم کورٹ نے چاردھام پراجیکٹ کو منظوری دی۔ عدالت نے کہا کہ چین کے ساتھ سرحد پر کشیدگی کو دیکھتے ہوئے فوج کے آنے جانے کیلئے پراجیکٹ بہت ضروری ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ماحولیاتی قواعد پر بھی سختی سے عمل آوری کی جائے۔ اس پر کتنی عمل آوری ہوئی، اس کی تحقیقات آپ کس بنیاد پر کریں گے۔ آج اسی چاردھام پراجیکٹ کا کام انتظامیہ نے بند کردیا۔ جوشی مٹھ کی کہانی صرف جوشی مٹھ ہی نہیں یہ کہانی ملک کے کئی حصوں میں دہرائی جارہی ہے مگر ترقی کے نام پر دبایا جارہا ہے۔ 20 تا 25 ہزار کی آبادی کے جوشی مٹھ میں جوشی مٹھ بچاؤ سنگھرش سمیتی کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ نقصاندہ ترقی کی نذر ہورہا ہے۔ یہاں کے سینکڑوں گھر، دواخانے ، فوجی خیموں، منادر ، سڑکیں ہر روز تباہی کی زد میں ہیں اور خطرہ ہر دن بڑھتا جارہا ہے۔ ایک طرف پتوون وشنو اسکیم کے تحت جو سرنگ بنائی جارہی ہے، اس نے زمین کو اندر سے کھوکھلا کردیا ہے۔ دوسری طرف بائی باس سڑک جوشی مٹھ کی کھدائی کے نتیجہ میں سارا شہر نیچے سے ہلنے لگا ہے۔ جوشی مٹھ کے مقامی انتظامیہ نے ایک سال میں بار بار لکھنے کے باوجود بھی گھروں کا سروے نہیں کیا۔ اس علاقہ میں لوگ ٹوٹے پھوٹے گھروں میں زندگی گذار رہے ہیں لیکن حکومت مجرمانہ غفلت برت رہی ہے۔ اگر زلزلہ کا ہلکا جھٹکا بھی آیا تو وہ علاقہ (زون 5 میں واقع ہے) بڑی تباہی ہوگی، اس علاقہ میں 5,000 ، 6,000 خاندان مقیم ہیں، جس کا گھر ٹوٹنے والا ہو، اس کا درد کیا ہوگا، آپ ہلدوانی کے لوگوں سے پوچھئے اور جس کا گھر دھنسنے والا ہو، اُس کا درد کیا ہوتا ہے۔ آپ جوشی مٹھ کے لوگوں سے پوچھئے پھر ٹوئٹر پر ان لوگوں کا کلیجہ دیکھئے جو پتھر کا ہوچکا ہے جہاں کے لوگ ہلدوانی کے لوگوں کے گھر منہدم کئے جانے پر مذہب کے نام پر جشن منا رہے ہیں۔ ان سبھی لوگوں کو جوشی مٹھ لے جایئے۔ مذہب کے نام پر ہی سہی اور دکھایئے کہ دیکھو ان دراڑوں کو بتایئے انہیں کہ کسی کے گھر ٹوٹنے بکھرنے پر ہنسی آرہی ہے؟ جوشی مٹھ ساتویں صدی میں بسا ، وہاں سے آدی شنکر چاریہ نے وہاں ایک مٹھ قائم کیا۔ ایک عام گاؤں سے یہ ایک بڑے شہر میں تبدیل ہوگیا، اسے بچانا ضروری ہے لیکن گودی میڈیا بس یہی کہے گا کہ یہ لوگ تو ترقی کے دشمن ہیں۔ بہرحال آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اتراکھنڈ ہائیکورٹ نے ہلدوانی میں چار ہزار سے زائد خاندانوں کو بے دخل کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ ہائیکورٹ کے اس فیصلے پر فی الحال روک لگا دی ہے۔ ہلدوانی کے اکثر مکانات مسلمانوں کے ہیں۔