-
یو پی چناؤ اب چھ ماہ ملتوی ہونے کے آثار
- سیاسی
- گھر
یو پی چناؤ اب چھ ماہ ملتوی ہونے کے آثار
510
M.U.H
27/12/2021
0
0
تحریر:ظفر آغا
اتر پردیش میں بی جے پی کی حالت پتلی ہے اور گھبرائی ہوئی پارٹی دو ماہ بعد ہونے والے اسمبلی چناؤ چھ ماہ کے لیے ٹالنے پر آمادہ نظر آ رہی ہے۔ اس کالم کے لکھے جاتے وقت مرکزی حکومت کے ہیلتھ سکریٹری الیکشن کمیشن کو ملک میں تیزی سے اومیکرون وبا کے بارے میں تفصیلات پیش کرنے جا چکے تھے۔ اس سے قبل الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج جسٹس شیکھر یادو نے مودی حکومت کو رائے دی کہ ملک اور ریاست میں تیزی سے پھیلتی کووڈ کی تیسری لہر کے مدنظر حکومت ہند کو دو ماہ بعد ہونے والے چناؤ ملتوی کر دینے چاہئیں۔ فاضل جج یادو صاحب وہی جج ہیں جو گائے کے بارے میں دیئے اپنے بیان کے بارے میں سرخیوں میں رہ چکے ہیں۔ حضرت کے مطابق گائے وہ واحد جانور ہے جو سانس چھوڑتے وقت آکسیجن کا اخراج کرتا ہے۔ الغرض جسٹس یادو کی فاضل رائے کے فوراً بعد سرگرمیاں تیز ہو گئیں۔ خود چیف الیکشن کمشنر نے بیان دیا کہ وہ ہفتہ بھر بعد حالات کا جائزہ لینے اتر پردیش کا دورہ کریں گے، اور اس کے بعد دیکھتے دیکھتے مرکزی ہیلتھ سکریٹری ملک میں اومیکرون وبا پھیلنے کے حالات سے الیکشن کمیشن کو آگاہ کرنے پہنچ گئے۔
آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جج صاحب کے بیان کے بعد یہاں سے لے کر اب تک جو چناؤ کے سلسلے میں سرکاری سرگرمیاں ہیں وہ یوں ہی نہیں ہو رہی ہیں۔ دراصل بھارتیہ جنتا پارٹی یو پی کے زمینی حالات سے خائف نظر آ رہی ہے۔ اس کا پہلا اشارہ اس وقت ملا جب کہ پچھلے ہفتے سماجوادی پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو کے نزدیکی ساتھیوں پر انکم ٹیکس ریڈ ہوئی۔ اکھلیش کی چناوی ریلیوں میں زبردست بھیڑ اکٹھا ہو رہی ہے۔ بی جے پی ظاہر ہے کہ اس بھیڑ سے گھبرا گئی اور بس اس کے بعد اکھلیش کے ساتھیوں کے گھروں پر لکھنؤ میں ریڈ ہو گئی۔ لیکن پھر جج صاحب نے یکایک بغیر مانگی رائے دے کر کورٹ میں سنوائی کے دوران یہ فرمایا کہ چناؤ ملتوی کر دیئے جائیں۔ اور اس رائے پر الیکشن کمیشن کا بھی جو رد عمل تھا اس سے واضح ہے کہ بی جے پی بہت زیادہ گھبرائی ہوئی ہے۔ اور اب اومیکرون کی آڑ میں چناؤ ملتوی کرنے پر آمادہ ہے۔
فروری کے آخر میں ہونے والے پانچ ریاستی چناؤ میں بی جے پی کی حالت نازک ہوتی چلی جا رہی ہے۔ چناؤ ہونے والی پانچ میں سے چار ریاستوں یعنی اتر پردیش، اتراکھنڈ، گوا اور پنجاب سے یہ خبریں آ رہی ہیں کہ وہاں بی جے پی چناؤ ہار سکتی ہے۔ مسئلہ صرف ریاستی چناؤ ہارنے کا نہیں ہے، بات یہ ہے کہ اگر بی جے پی ریاستی چناؤ ہاری تو بس پھر ہندوتوا سیاست کی ہوا نکل جائے گی اور سنہ 2024 میں ہونے والے لوک سبھا چناؤ بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔ یہ بات نریندر مودی کو منظور نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے مودی حکومت اب گھبراہٹ میں اومیکرون کا سہارا لے کر محض یو پی ہی نہیں، پانچوں ریاستوں میں چناؤ ملتوی کرنے پر آمادہ نظر آ رہی ہے۔
بی جے پی کی گھبراہٹ، مسلمانوں کو غصہ کیوں نہیں آتا
بی جے پی ان دنوں اس بات سے سخت پریشان ہے کہ آخر ہندوستانی مسلمان جوش سے نہیں بلکہ ہوش سے کیوں کام لینے لگا ہے۔ بی جے پی کے لیے یہ سخت گھبراہٹ کی بات ہے، کیونکہ جب تک مسلمان کسی مذہبی معاملے پر جذبات میں نعرہ تکبیر کے ساتھ سڑکوں پر نہیں نکلتا ہے تب تک ملک میں ہندو رد عمل پیدا نہیں ہوتا۔ اگر ہندو رد عمل نہیں پیدا ہوگا تو پھر بی جے پی کی سیاست بھی نہیں چمکے گی۔ سنگھ کی سیاست کا دارومدار ہی مسلم مخالفت پر مبنی ہے۔ بابری مسجد اور تین طلاق مسئلہ کو فوکس بنا کر ہی پچھلی تین دہائیوں میں بی جے پی زیرو سے ہیرو بن گئی اور اب مودی کے زیر سایہ ملک ہندو راشٹر کا رنگ لے رہا ہے۔
سنگھ اور بی جے پی کی اس زبردست کامیابی میں نام نہاد مسلم لیڈر شپ کا بھی بہت اہم رول رہا ہے۔ راقم الحروف اکثر یہ لکھتا رہا ہے کہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے بابری مسجد تحفظ اور مسلم پرسنل لا بورڈ نے تین طلاق معاملے پر جس طرح جذباتی خالص مسلم تحریکیں چلائیں اس سے ملک میں زبردست ہندو رد عمل پیدا ہوا جس نے بی جے پی کو مرکزی اقتدار تک پہنچا دیا۔ ظاہر ہے کہ اگر ملک میں مسلمان، علماء کی زیر نگرانی نعرہ تکبیر کی صداؤں کے ساتھ سڑکوں پر نکلیں گے تو سنگھ-وی ایچ پی کے زیر سایہ سادھوؤں کی قیادت میں ’جے شری رام‘ کے نعروں کے ساتھ ہندوؤں کو سڑکوں پر نکالنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ سنہ 1986 میں بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد سے تین طلاق کے معاملے تک ہندوستان کی کٹر مسلم قیادت جس طرح کی جذباتی سیاست کرتی رہی ہے، اس نے سنگھ اور بی جے پی کو مندر کی سیاست کا موقع دے دیا۔ اگر مسلمان مسجد تحفظ کے لیے سڑکوں پر نکلے گا تو ہندو رام مندر تعمیر کے لیے سڑکوں پر نکلے گا۔ اگر مسلمان نعرۂ تکبیر لگائے گا تو ہندو بھی جے شری رام کا نعرہ لگائے گا۔ اگر مسلم پرسنل لاء بورڈ تین طلاق کے لیے لڑے گی تو وی ایچ پی کو یہ موقع ملے گا کہ وہ ہندوؤں کو یہ باور کروائے کہ مسلمان چار شادیاں کر آئے دن طلاق دے کر اس ملک میں ہندوؤں کو اقلیت میں پہنچانا چاہتا ہے۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کو آیا یہ بات سمجھ میں نہیں آئی یا پھر ان دونوں جماعتوں کی قیادت سنگھ کے اشارے پر کام کرتی رہی، اس بات کا فیصلہ تو تاریخ کرے گی۔ لیکن یہ اب صاف ہے کہ تین دہائیوں کی مسلم قیادت کی کم عقلی سے ہندوستانی مسلمان اس وقت دوسرے درجے کا شہری بن چکا ہے اور ملک ہندو راشٹر کا رنگ لے چکا ہے۔
لیکن مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے اور بابری مسجد و تین طلاق مسئلہ پر شکست کے بعد ہندوستانی مسلمان کو یہ سمجھ میں آنے لگا ہے کہ جذبات کی سیاست اس کے مفاد میں نہیں ہے۔ وہ اب جوش سے نہیں بلکہ ہوش سے کام لینے لگا ہے۔ اور بس ان دنوں یہی بی جے پی کی پریشانی کا سبب ہے۔ آپ دیکھیے نا گروگرام میں پارکوں اور کھلی جگہوں پر جمعہ کی نماز پر پابندی لگا دی گئی، لیکن مسلمان اشتعال میں نہیں آیا۔ بی جے پی کو امید رہی ہوگی کہ مسلمان نعرۂ تکبیر کے ساتھ سڑکوں پر اتر آئے گا اور پھر اس کو یو پی میں کاشی و متھرا مندر معاملوں پر ہندو رد عمل پیدا کرنے کا موقع مل جائے گا۔ لیکن گروگرام معاملے پر صبر سے کام لے کر مسلمانوں نے عقلمندی اور ہوش مندی کا ثبوت دے کر بی جے پی کی سیاست پر پانی پھیر دیا۔ ظاہر ہے کہ اس بات سے بی جے پی پریشان ہے، کیونکہ جب تک مسلمان جوش میں جذباتی سیاست نہیں کرے گا تب تک ہندو جذبات بھی جوش میں نہیں آئیں گے اور بی جے پی کو ہندو ووٹ بینک بنانے کا موقع نہیں ملے گا۔ اس لیے اب ہندوستانی مسلمانوں کے لیے دو سبق ہیں، اولاً جذباتی اور مذہبی سیاست سے دور رہیں۔ دوئم اگر کوئی شخص یا تنظیم مذہبی معاملات میں مسلمانوں کو جوش دلوا کر سیاست کرنا چاہتی ہے تو وہ مسلم حمایت میں نہیں بلکہ سنگھ حمایت میں کارگر ہے۔ لگتا ہے کہ مسلمان کو یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے۔ اسی لیے بی جے پی پریشان ہے کہ آخر اب مسلمانوں کو غصہ کیوں نہیں آتا!
(یہ مصنف کا ذاتی نظریہ ہے ،ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)