صابر کربلائی
سرزمین فلسطین کہ جوہمیشہ سے ہی انبیاء علیہم السلام کی آمد کا مرکز و محور بنی رہی اور آج بھی اس سرزمین مقدس پر نہ صرف مسلمانوں کا قبلہ اول موجود ہے بلکہ مسیحی مقدس مقامات اور چرچ بھی موجود ہیں، اسی سرزمین مقدس کے ساتھ ایک سو سال قبل ایک ایسی گھناؤنی سازش کی گئی کہ جس کے نتیجہ میں برطانوی سامراج نے اس سرزمین مقدس پر ایک جعلی ریاست بنام اسرائیل وجود میں لا کر نہ صرف مسلمانوں کے قلب میں خنجر گھونپ ڈالا بلکہ دنیا بھر کے مسیحیوں کے خلاف بھی ایک ایسی سازش تیار کی جس کو آج تک جھیلا جا رہا ہے۔
صہیونیوں نے فلسطین پر اپنے غاصبانہ تسلط کےلیے انیسوی صدی کے وسط میں ہی منصوبہ بندی کر لی تھی اور صہیونی ناجائز ریاست کے قیام کےلیے زمینہ سازی کرنے لکےلیے دنیا کو دو عالمی جنگوں کا سامنا کرنا پڑا جس میں نہ صرف بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا بلکہ صہیونیوں نے ایسا ماحول بھی بنایا کہ دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین ہجرت کروائی جائے جس میں اہم ترین واقعات ہمیں جرمنی کی تاریخ میں ملتے ہیں کہ جہاں ان صہیونیوں کی شر انگیزیوں سے نمٹنے کےلیے ہٹلر کو اقدامات کرنا پڑے جسے آج صہیونی ہولو کاسٹ کا نام دیتے ہیں جو کہ ایک افسانہ سے بڑھ کر نہیں۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہودی محفلوں کا اہم رکن لارڈ جارج برطانیہ کا وزیر اعظم بن گیا اور 1922 تک اس عہدے پر فائض رہا۔ اس نے جیمز بالفور کو وزیر خارجہ مقرر کیا۔ یہی وہ شخص تھا جس نے بالفور اعلامیہ کے ذریعہ صہیونیت کو سرکاری سطح پر شروع کیا۔اس سال میں جب جنگ کی کامیابی کا یقین ہوگیا تو امریکہ بھی جنگ میں شامل ہوگیا تاکہ بعد میں اپنے مطالبات کو پیش کر سکے۔ یہی طریقہ اس نے دوسری عالمی جنگ میں بھی اپنایا۔
سنہ 1917ء سب سے اہم اور تقدیروں کو تبدیل کرنے والا سال تھا۔ اسی سال میں امریکہ نے آئندہ یہودی شوریٰ کےلیے راہ ہموار کی۔ اس شوریٰ نے یہودیوں کےلیے بہت بڑے بڑے پروگرام بنائے۔ اس کا نام شوریٰ روابط خارجی تھا۔ اس شوریٰ میں دو سو امریکی یہودی سرمایہ دار شامل تھے۔ بیسویں صدی کے آخر تک اس شوریٰ کے اراکین کی تعداد 2500 تک پہنچ گئی۔ سب مل کر امریکہ کو چلا رہے تھے۔ ابتدا میں اس شوریٰ پر مورگان خاندان کا قبضہ تھا لیکن بعد میں راکفلر خاندان اس پر قابض ہوگیا۔ 1972 میں تین کمیٹیاں بنائی گئیں جن کے ذمہ نیو ورلڈ آرڈر تیار کرنے اور اسے قابل عمل بنانے کی ذمہ داری لگائی گئی۔
سال 1917 میں روس کی داخلی صورت حال خراب تھی، حکومت اور فوج کمزور پڑ چکی تھی۔ جنوبی روس میں مسلمان بھی تحریک چلا رہے تھے۔ یہودیوں اور کیمونسٹوں نے اس خراب صورتحال سے فائدہ اٹھایا اور بعض واقعات کے بعد اپنی سازش میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے روس میں مارکسی اور کمیونیزم کا نظام نافذ کر دیا۔ نزار روس کا نام تبدیل کرکے سوشلسٹ سوویت یونین رکھ دیا گیا اور جنگ میں شرکت پر پابندی عائد کر دی گئی۔ یہ تمام واقعات اور ان کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں یہودیوں اور برطانیہ کے فائدے میں تھیں۔ اس میں سب سے اہم بالفور اعلامیہ تھا جسے برطانیہ کے وزیر خارجہ نے اعلان کیا اور اس کے بعد عملی طور پر فلسطین پر قبضہ شروع ہوگیا۔
بالفور اعلامیہ یوں تھا:
لارڈ روچیلڈ عزیز انتہائی مسرت کے ساتھ اعلیٰ حضرت کی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے، صہیونی یہودیوں کی حمایت میں کابینہ اور پارلیمنٹ میں منظور ہونے والی قرارداد پیش کر رہا ہوں:
اعلیٰ حضرت کی حکومت ، فلسطین میں قوم یہود کےلیے ایک قومی وطن کی تشکیل کو اچھی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کی خاطر حکومت ہر طرح کا تعاون کرے گی۔ البتہ غیر یہودی افراد جو فلسطین میں رہ رہے ہیں ان کے سماجی اور مذہبی حقوق کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔ دوسرے ممالک میں رہنے والے یہودیوں کے حقوق اور ان کی سیاسی حیثیت کو ہر چیز پر ترجیح دی جائے گی۔ صہیونی فیڈریشن میں اس اعلامیہ کو بیان کرنے پر ہم آپ کے مشکور ہونگے۔ آپ کا عقیدت مند ۔آرتھرر جیمز بالفور ۔
یہ وہ اعلان بالفور ہے کہ جس کی بنیاد پر بالآخر فلسطین کی سرزمین پر غاصب صہیونی ناجائز ریاست کو وجود دیا گیا۔ یہ وہ منحوس اعلامیہ تھا جس کے باعث سنہ 1948ء میں لاکھوں فلسطینیوں کو تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑا، آج بھی فلسطینیوں کی تیسری نسلیں ملک بدر ہیں اور وطن واپس جانے کی منتظر ہیں۔ یہ اعلان بالفور اس بات کی کلید بنا تھا کہ صہیونیوں نے دوسری جنگ عظیم کا ماحول بنایا، اس کے بعد فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کرتے ہی ایک ہی دن میں 15 مئی سنہ 1948ء کو لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کیا اور جبری جلا وطنی پر مجبور کیا جس کے بعد یہ ہجرت پر مجبور فلسطینی شام، لبنان، اردن اور مصر کی طرف چلے گئے جہاں آج بھی ان کی نسل نو مہاجر بستیوں میں زندگی گذار رہی ہے۔
حالیہ دور میں فلسطین کے مسئلہ پر دنیا کو ایک اور بالفور جیسے خطرناک اور سفاک اعلان کا سامنا ہے کہ جس طرح لاکھوں فلسطینیوں کو برطانوی استعمار نے صہیونیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔ اسی طرح امریکی صدر نے حال ہی میں اپنے ایک اعلان میں فلسطین کے شہر یروشلم کہ جو نہ صرف مسلمانوں کا مقدس شہر ہے بلکہ مسیحی عوام کےلیے مقدس ہے ، اس شہر کو غاصب صہیونی جعلی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت بنانے کا اعلان کیا۔ حیرت اس بات کی ہے کہ ایک سو سال قبل برطانوی حکومت نے فلسطین کے عوام کی تباہی اور بربادی کا پروانہ جاری کیا تھا اورآج دور حاضر کا شیطان بزرگ امریکا بھی اسی نقش قدم پر چلتے ہوئے فلسطین کے مستقبل اور اس کے عوام کے حقوق پر ایک اور شب خون مار رہا ہے۔
سال 1917ء میں فلسطینیوں کے خلاف پیش کیا جانے والا ’’اعلان بالفور‘‘ ایک ناقابل رحم اور ناقابل معافی جرم ہے۔ اسی طرح امریکی صدر کا اعلان 2017ء بھی ناقابل معافی جرم ہے جبکہ اس اعلان کو دنیا بھر نے مسترد کر دیا ہے۔ اس کے باوجود امریکا اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور اس فیصلہ کو واپس لینے کے بجائے ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لے کر دنیا کو باور کروا رہا ہے کہ دنیا کے بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادیں اورانسانی حقوق کا تحفظ امریکی حکومت کے فیصلوں کے سامنے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ دراصل امریکی ہٹ دھرمی نہ صرف فلسطین کاز کے خلاف جارحیت ہے بلکہ پوری دنیا کی اقوام کی تذلیل و توہین کے مترادف بھی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اعلان بالفور ہو یا اعلان ٹرمپ، دراصل دونوں ہی غیر قانونی اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں۔ آخر کس نے برطانوی سرکار کو یہ حق دیا تھا کہ وہ فلسطین میں صہیونی غاصب ریاست قائم کرے؟ اگر چہ برطانوی حکومت اس وقت علاقے میں ایک فلسطین کی کفالت پرست ریاست بھی تھی لیکن اس کو یہ حق حاصل نہ تھا کہ وہ کسی اور سرزمین پر کہ جس کی وہ خود مالک بھی نہیں وہاں پر کسی تیسرے کو نئی ریاست قائم کرنے کی اجازت دے۔ اور اب امریکی صدر کو کس نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ فلسطین کے ابدی دارلحکومت القدس کو غاصب صہیونیوں کی گود میں ڈال دے؟
فلسطین کی قسمت کا فیصلہ فلسطینیوں کا حق ہے نہ کہ امریکا ، برطانیہ یا کسی اور استعماری قوتوں کا کہ وہ فلسطین سے متعلق جو چاہیں فیصلہ کریں۔ اگر برطانیہ اور امریکا کو صہیونیو ں سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو کیوں نہیں برطانیہ میں ایک زمین کا ٹکڑا انہیں دے کر یہودی ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں لاتے؟ کیوں امریکی صدر واشنگٹن کو اسرائیل کا دارلحکومت قرار نہیں دیتے۔ اگر برطانیہ او ر امریکا یہ اقدام اٹھا لیں تو یقیناً دنیا کے کسی بھی ملک کو اس فعل پر اعتراض نہ ہو گا۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)