-
ہندوستانی مسلمان اور مودی حکومت
- سیاسی
- گھر
ہندوستانی مسلمان اور مودی حکومت
387
M.U.H
28/02/2024
0
0
تحریر:رام پنیانی
ایک ایسے وقت جبکہ 2024 کے عام انتخابات کا بہت جلد انعقاد عمل میں آنے والا ہے بعض اہم مسلم شخصیتیں جنہیں اشرافیہ کہا جاسکتا ہے مسلمانوں سے اپیل کرنے لگے ہیں کہ بی جے پی سے متعلق اپنا نظریہ اور اپنا موقف تبدیل کریں ۔ ان لوگوں کا دعوی ہیکہ مودی حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ کسی تعصب و جانبداری اور امتیازی سلوک کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا ہے ۔ اس قسم کے مسلم دانشور پرزور انداز میں دلائل پیش کررہے ہیں کہ بی جے پی پسماندہ مسلمانوں اور صوفی مسلمانوں پر خصوصی توجہ مرکوز کررہی ہے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمان سماجی بہبود ، تغذیہ ، امکنہ ، گیس ، پانی کے بشمول بی جے پی کی سماجی بہبود سے متعلق اسکیمات کے استفادہ کنندگان میں شامل ہیں ان لوگوں کا یہ بھی دعوی ہیکہ 2014 سے جب سے نریندر مودی کی زیرقیادت بی جے پی اقتدار میں آئی ملک میں کوئی بڑا فرقہ وارانہ تشدد کا واقعہ پیش نہیں آیا اور ہندوستان میں گزشتہ 50 برسوں کے دوران امن ہی امن رہا ۔ اگر ان دانشور مسلمانوں کی ملک کے دوسرے مسلمانوں سے کی گئی درخواستوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی یہ درخواستیں آدھے سچ پر مبنی ہیں وہ لوگ اس اہم مسئلہ یا مسائل کو نظرانداز کررہے ہیں جو ہندوستان میں مسلمانوں کی زندگیوں پر اثرانداز ہورہے ہیں ۔ یہ بھی پوری طرح سچ ہیکہ اشرافیہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے بعض مسلمان ہوسکتا ہے کہ سنگین مسائل کا سامنا نہیں کررہے ہوں لیکن ہندوستانی مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے انہیں اس بات کا بھی اچھی طرح اندازہ ہیکہ انہیں حاشیہ پر پہنچادیا گیا ہے اور ایک طرح سے مسلمانوں کو الگ تھلگ کردیا گیا ہے ، ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے جانبداری اور تعصب برتا جارہا ہے ۔ بی جے پی کی تائید و حمایت میں اتر کر مسلمانوں کو بھی بی جے پی کی تائید کرنے کا مشورہ دینے والے ان نام نہاد مسلم دانشوروں کا یہ کہنا کہ سال 2014 کے بعد سے ملک میں کوئی بڑا فرقہ وارانہ فساد کا واقعہ پیش نہیں آیا ایک بہت بڑی جھوٹ ہے شائد ان میں فرقہ وارانہ فسادات و تشدد کی سنگینی کا احساس ختم ہوچکا ہے وہ شائد یہ بھی بھول گئے ہوں گے کہ سی اے اے کے خلاف ہندوستان میں اپنی نوعیت کے منفرد شاہین باغ تحریک کے بعد دہلی میں خوفناک فرقہ وارانہ فسادات بھڑک اٹھے تھے جس میں بی جے پی قائدین نے لوگوں کو تشدد پر اکسایا ( جیسے کہ بی جے پی قائدین بشمول ایک مرکزی وزیر نے گولی مارو … کو دیش کے غداروں کو اور ہم انہیں دھرنا کے مقام سے ہٹائیں گے جیسے اشتعال انگیز نعرے لگائے ۔ جس کے نتیجہ میں دارالحکومت دہلی میں بھیانک فساد پھوٹ پڑا جس میں 51 بے قصور لوگوں کی جانیں گئیں جن میں سے 37 مسلمان تھے ۔ ان فسادات میں کئی گھرانے تباہ و برباد ہوگئے بے شمار عورتیں بیوہ ، کئی بچے بچیاں یتیم ہوئے کئی ماؤں کی گودیں اجڑگئیں ۔ ان فسادات کے ساتھ ساتھ بلڈوزر کے ذریعہ مختلف بہانوں سے صرف اور صرف مسلمانوں کی جائیدادوں ( گھروں اور دکانات ) کو نشانہ بنایا جانے لگا ۔ ہر دن کسی نہ کسی بہانے سے اس قسم کی جانبدارانہ کارروائی کی جاتی رہی ۔ اب بھی اس کا سلسلہ جاری ہے خاص طور پر بی جے پی زیراقتدار ریاستوں میں تو ایسا لگتا ہے کہ اس بات کا مقابلہ چل رہا ہے کہ کون مسلمانوں کی جائیدادوں کو سب سے زیادہ نشانہ بناسکتا ہے ان کے مکانات اور دکانات یہاں تک کہ مساجد اور مدرسوں کو کون زیادہ زمین دوز کرسکتا ہے؟ دہلی ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس اے پی شاہ نے ایک نیوز پورٹل سے بات کرتے ہوئے پرزور انداز میں کہا ہیکہ صرف مجرمانہ سرگرمی میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر کسی کی بھی جائیداد پر بلڈوزر چلا کر اسے منہدم نہیں کیا جاسکتا ۔ دوسری طرف گائے کے گوشت پر شروع کی گئی سیاست سڑکوں پر جانوروں کے حادثات اور کھیتوں میں کھڑی فصلوں کی تباہی و بربادی کا باعث بنے اس طرح گائے کے گوشت کی سیاست کے نتیجہ میں ہندوستانی سڑکوں پر ہجومی تشدد کے دردناک واقعات منظر عام پر آئے ۔ آپ سب جانتے ہیں کہ ہجومی تشدد کا آغاز دادری میںمحمد اخلاق کے قتل کے واقعہ سے ہوا دادری میں انہیں عین بقر عید کے موقع پر یہ بہانہ بناتے ہوئے ہجومی تشدد کے ذریعہ موت کی نیند سلادیا گیا کہ ان کے گھر کے فریج میں بڑے جانور کا گوشت رکھا ہوا تھا ۔ اس واقعہ کے بعد تو ہجومی تشدد کے واقعات کا سلسلہ چل پڑا جس میں مسلمان ( اور دلتوں کو بھی ) نشانہ بنایا گیا ۔ مسلمان اور دلت ایسے ہجوموں کا نشانہ بنے جنہیں تشدد کیلئے اُکسایا گیا تھا ۔ میوات میں جہاں مسلمان ڈیری بزنس سے وابستہ ہیں انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ ایک دو ایسے بھی واقعات پیش آئے جن سے نہ صرف عام ہندوستانیوں پر کپکپی طاری ہوگئی بلکہ ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ گئی اس قسم کے واقعات میں راجستھان میں سمبھولال ریگار کے ہاتھوں پیش آئے افرازل کے قتل کے واقعہ نے تو لوگوں کو حیران اور انسانیت کو شرمسار کردیا اس ظالم نے نہ صرف ایک نہتے مسلمان افرازل کا قتل کیا بلکہ قتل کے مناظر کی فلمبندی بھی کی ۔ ہم نے کلیم الدین انصاری کے قتل کرنے والے ملزمین کی تہنیت کا منظر بھی دیکھا اس وقت مرکزی وزارت میں شامل رہے جنپت سنہا نے کلیم الدین انصاری کے قتل میں ملوث ملزمین کو پھول مالائیں پہناکر انہیں تہنیت پیش کی ( ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یشونت سنہا جیسی شخصیت کا بیٹا ایک مسلمان کے قتل پر قاتلوں کی پیٹ تھپھاکر انہیں شاباشی دے رہا ہو ) اس قسم کے واقعات اب تو ایک نیا معمول بن گئے ہیں ۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح لوجہاد کے بہانے خوف و دہشت پیدا کی گئی اور پھر کیسے جہاد کے کئی اقسام سے متعلق اصطلاحات گھڑی گئیں جس میں یو پی ایس سی جہاد ، لینڈ جہاد اور دیگر قسم کے جہاد شامل ہیں حیرت کی بات ہیکہ فرقہ پرستی کو ہوا دینے والوں نے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران کورونا جہاد کی اصطلاح بھی گھڑلی اور ملک میں کورونا وائرس پھیلنے کیلئے تبلیغی جماعت کے اجتماع کو ذمہ دار قرار دیا گیا اور اسی بہانے ( کورونا جہاد کے بہانہ ) مسلم میوہ اور سبزی فروشوں کو رہائشی سوسائٹیز میں داخل ہونے نہیں دیا گیا ۔ فرقہ پرستوں کی کوششوں کے کامیاب ہونے کا ثبوت یہ ہیکہ اب ملک میں اسلامیہ فوبیا دن بہ دن کئی بلندیوں پر پہنچ رہا ہے ۔ یہ خوفناک ماحول شہروں میں مسلمانوں کی الگ تھلگ بستیاں بسانے کے عمل میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے ۔ زیادہ تر جگہوں پر محفوظ علاقوں میں مسلمانوں کو رہائش سے محروم کیا جارہا ہے یہ مسلمانوں کے تعلیمی اور اقتصادی موقف میں گراوٹ کے ساتھ ہے ۔ اس کی ایک روشن مثال مولانا آزاد فیلوشپ کو ختم کرنا ہے اس فیلو شپ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے والوں میں مسلم طلبہ شامل ہیں جو اعلی تعلیم کے حصول کی کوشش کررہے ہیں اس اقدام سے مسلم طلبا و طالبات ہی متاثر ہوئے ہیں ۔ حالیہ عرصہ کے دوران گیالپ ڈیٹا میں دکھایا گیا ہے کہ مسلم برادری کی معاشی حالت میں گراوٹ کا سلسلہ جاری ہے ۔ دونوں گروپوں کیلئے ( ہندووں اور مسلمانوں ) کی معیار زندگی کے بارے میں جو تاثر منظر عام پر آیا ہے وہ یہی ہیکہ وہ 2018 اور 2019 کے درمیان اس میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے کیونکہ ہندوستانی معیشت شدید سست روی کے دور میں داخل ہوئی ہے ۔ ہندوستانی مسلمانوں میں 2019 میں یہ شرح 25 فیصد سے بڑھ کر 45 فیصد ہوگئی اور ہندوستان کے ہندووں میں یہ فیصد 37 فیصد تک پہنچ گئی جو 2018 کی بہ نسبت 19 فیصد پوائنٹس زیادہ ہے ۔ اگر ہم ملک کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کی حالت زار کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ این آر سی اور سی اے اے ( شہریت ترمیمی قانون ) کے ذریعہ مسلم آبادی کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کا خطرہ بہت زیادہ ہے ۔ آسام میں این آر سی کی جو مشق کی گئی اس سے یہ بات سامنے آئی کہ جن 19 لوگوں کے پاس شہریت ثابت کرنے کیلئے مناسب دستاویزات نہیں تھے ان میں ہندووں کی اکثریت ہے ان حالات میں ہندووں کو شہریت ترمیمی قانون کی مختلف دفعات کے ذریعہ تحفظ فراہم کیا گیا ہے اس کے برعکس مسلمانوں کیلئے مراکز حراست بنائے جارہے ہیں ( اس کا مطلب یہی ہے کہ جن مسلمانوں کے پاس شہریت ثابت کرنے کیلئے مناسب دستاویزات نہیں ہیں انہیں ہر حال میں حق رائے دہی سے محروم کردیا جائے گا ) بہرحال فی الوقت پسماندہ مسلمانوں کے تئیں جس ہمدردی کا اظہار کیا جارہا ہے وہ صرف دکھاوا ہے جھوٹی ہمدردی ہے ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں اکثریتی سیاست کے ذریعہ جو تشدد برپا کیا جاتا ہے اس تشدد کا شکار ہونے والوں کی اکثر پسماندہ مسلمان ہی ہوتے ہیں ایسے میں مسلم اشرافیہ طبقہ کو پسماندہ مسلمانوں کے ساتھ بہتر سلوک روا رکھنے کی ضرورت ہے لیکن کمیونٹی کیلئے بحیثیت مجموعی جو سب سے بڑا خطرہ ہے وہ احساس عدم تحفظ ہے اور یہ وہ احساس ہے جو اشرافیہ طبقہ اور پسماندہ مسلمانوں دونوں کو متاثر کرتا ہے اور قدامت پسند عناصر کیلئے ایک زرخیز زمین تیار کرتا ہے ان حالات میں مسلمانوں میں اصلاح کی بہت ضرورت ہے تاہم اصلاحات کا نکتہ اس وقت تک پیچھے ہی رہے گا جب تک مسلمانوں میں اپنی بقاء اور اپنی شہریت کا خطرہ لاحق رہے گا ۔ مختلف ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں اب ایسی چیزوں کی منصوبہ بندی کررہی ہے جو مسلمانوں کے خلاف امتیازی اور متعصبانہ سلوک کے امکانات کو مزید بڑھاوا دیتی ہیں ۔ رام مندر کی افتتاحی تقریب کے ساتھ آر ایس ایس بی جے پی کی اکثریتی سیاست کو مزید تقویت حاصل ہوئی ہے ویسے بھی پہلے سے ہی سیاسی اداروں میں مسلمان نمائندگی سے محروم ہوتے جارہے ہیں ہمیں یہ یاد رکھنا اور دوسروں کو یاد دلانا ضروری ہے کہ خود کے ہندو قوم پرست پارٹی ہونے کا دعوی کرنے والی بی جے پی کا ایک بھی رکن پارلیمنٹ چاہے وہ لوک سبھا کا ہو یا راجیہ سبھا کا مسلمان نہیں ہے یہاں تک کہ ماضی کی حکومتیں بھی مسلمانوں کی حالت زار تبدیل نہیں کرسکی اور اس میں آر ایس ایس ۔ بی جے پی کی مخالفت سب سے بڑی رکاوٹ رہی ۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ اس کی بہترین مثال ہے جس کی رپورٹ کے بعد اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے پر زور انداز میں کہا تھا کہ محروم اور حاشیہ پر لائی گئی برادریوں کا قومی وسائل پر سب سے زیادہ اور پہلا حق ہے سنگھ پریوار نے ان کے بیان پر ایسے پروپگنڈہ کیا ہے انہوں نے کہا ہیکہ قومی مسائل پر مسلمانوں کا سب سے پہلا حق ہے اور اس کے بعد مسلمانوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا عمل رک گیا ۔