-
اتراکھنڈ کے مسلمان نقل مکانی پر مجبور
- سیاسی
- گھر
اتراکھنڈ کے مسلمان نقل مکانی پر مجبور
374
m.u.h
23/06/2023
0
0
تحریر: سہیل انجم
پہلے گجرات کو ہندوتوا کی تجربہ گاہ بنایا گیا پھر کرناٹک کو بنانے کی کوشش کی گئی اور اب اتراکھنڈ کے مسلمان ہندوتوا وادیوں کے نشانے پر ہیں۔ وہ اس ریاست میں مسلمانوں کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ مختلف علاقوں میں انھیں پریشان کیا جا رہا ہے اور لو جہاد، لینڈ جہاد اور اسی قسم کے دیگر بے بنیاد پروپیگنڈوں کا سہارا لے کر انھیں اتراکھنڈ سے بھگانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ تازہ حملہ ضلع اترکاشی کے قصبے پرولا کے مسلمانوں پر کیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پرولا کی مجموعی آبادی دس ہزار کے آس پاس ہے۔ جن میں مسلمانوں کی آبادی بے حد کم یعنی ایک ہزار سے بھی کم ہے۔ وہاں دکانوں کی مجموعی تعداد ایک ہزار ہے جن میں مسلمانوں کی 45 دکانیں ہیں۔ مسلمان عام طور پر گارمینٹ اور فرنیچر کے کاروبار میں ہیں اور کسی طرح اپنی روزی روٹی چلاتے ہیں۔
لیکن اب ان شرپسندوں کو یہ گوارہ نہیں کہ مسلمان وہاں رہیں اور اپنا کاروبار کریں۔ اس کے لیے انھوں نے 26 مئی کو پیش آنے والے ایک واقعہ کو بہانہ بنایا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق اس روز دو افراد نے جن میں ایک مسلمان اور ایک ہندو تھا، ایک 14 سالہ ہندو لڑکی کو اغوا کرنے کی کوشش کی تھی۔ مقامی باشندوں نے ان دونوں کو پکڑ لیا اور انھیں پولیس کے حوالے کر دیا۔ معاملہ رفعہ دفع ہو گیا لیکن اسی درمیان وشو ہندو پریشد اور بجرنگ نامی تنظیمیں کود پڑیں اور انھوں نے مسلمانوں پر لو جہاد کا الزام لگا کر دھمکی دی کہ وہ پرولا سے پندرہ جون تک چلے جائیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انھوں نے مسلمانوں کے خلاف ریلی نکالی اور علاقہ خالی کر دینے کے حکم کے ساتھ ان کے گھروں اور دکانوں پر نوٹس چسپاں کر دیا۔ انھوں نے ان کے مکانوں اور دکانوں پر کراس کا نشان بھی لگا دیا۔
اس صورت حال نے مسلمانوں کو خوف زدہ کر دیا۔ مسلم دکانداروں نے مقامی انتظامیہ سے ملاقات کرکے دھمکیوں کی شکایت کی اور تحفظ فراہم کرنے کی اپیل کی لیکن مسلمانوں کے مطابق انتظامیہ کی جانب سے تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ جب کوئی کارروائی نہیں ہوئی تو مسلمانوں نے علاقے کو چھوڑنا شروع کر دیا۔ رپورٹوں کے مطابق 26 مئی کے بعد سے اب تک کم از کم ایک درجن مسلم خاندان وہاں سے جا چکے ہیں۔ جب کہ ان کی کم از کم 42 دکانیں بند ہو چکی ہیں۔
پرولا سے انخلا کرنے والوں میں 45 سالہ محمد زاہد بھی ہیں جو کہ بی جے پی کے اقلیتی سیل کی ضلعی شاخ کے صدر ہیں۔ وہ سات جون کو اپنے گھر کا سامان پیک کرکے بذریعہ کار دہرہ دون میں اپنے ایک رشتے دار کے گھر چلے گئے۔ انھوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہاں میری جان کو خطرہ تھا اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ ان کا گارمینٹ کا بزنس ہے۔ ان کے اہل خانہ ان کے جانے سے پانچ چھ روز قبل ہی دہرہ دون چلے گئے تھے۔ زاہد کا کہنا ہے کہ وہ سات آٹھ سال سے بی جے پی سے وابستہ ہیں۔ ضلعی صدر بننے سے قبل وہ کئی عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ فروری میں ضلعی صدر منتخب ہوئے تھے۔ ان کے مطابق جب بی جے پی کے ایک عہدے دار کو خطرات لاحق ہیں تو بھلا اور کون محفوظ ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ میں نے پیسے یا عہدے کے لیے بی جے میں شمولیت اختیار نہیں کی تھی بلکہ اس لیے کی تھی کہ اگر میرے ساتھ کچھ غلط ہوگا تو وہ لوگ میرے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مبینہ اغوا کی کوشش میں ایک غیر مسلم بھی شامل تھا۔ اگر مسلمانوں سے قصبہ چھوڑنے کو کہا جا رہا ہے تو غیر مسلموں سے بھی کہا جائے۔ تمام مجرموں کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے۔ قابل ذکر ہے کہ محمد زاہد پسماندہ مسلمانوں کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور بی جے پی آجکل پسماندہ مسلمانوں کے مسائل اٹھا رہی ہے۔ وہ خود کو پسماندہ مسلمانوں کا مسیحا ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن اسی پسماندہ مسلمانوں کے طبقے کا ایک شخص جو کہ بی جے پی کا عہدے دار بھی ہے خوف زدہ ہے اور پرولا کو خیرباد کہہ چکا ہے۔
لیکن بی جے پی اپنا رٹا رٹایا جملہ دوہرا رہی ہے کہ وہ کسی کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف ہے۔ لیکن جو امتیازی سلوک ہو رہا ہے اس کے تدارک کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتی۔ بی جے پی اقلیتی سیل کے ریاستی صدر انتظار حسین کا کہنا ہے کہ کسی پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔ وہ لوگ از خود جا رہے ہیں۔ بقول ان کے ہماری پارٹی کسی بھی برادری کے ساتھ زیادتی کے خلاف ہے۔ حالانکہ ایک معمر دکاندار شکیل احمد نے جو کہ پرولا سے دہرہ دون جا چکے ہیں، کہا کہ مقامی ہندو باشندوں سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں۔ لیکن یہ سیاست ہے جس نے ماحول کو خراب کر دیا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور تنظیموں نے اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مقامی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مقامی مسلمانوں کا تحفظ کیا جائے۔ دہلی یونیورسٹی میں ہندی کے استاد پروفیسر اپوروانند اور معروف ہندی ادیب اشوک واجپئی نے مسلمانوں کو دی جانے والی دھمکیوں کے خلاف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے نام ایک لیٹر پٹیشن دائر کی۔ جبکہ انسانی حقوق کی تنظیم پی یو سی ایل نے بھی سپریم کورٹ میں ایک عرضی داحل کی۔ ان لوگوں نے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ سے اپیل کی کہ پندرہ جون کی ریلی پر پابندی لگائی جائے کیونکہ اس سے بڑے پیمانے پر کشیدگی اور تشدد کا خطرہ ہے۔ لیکن انھوں نے اس اپیل پر سماعت کرنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے ریاستی ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کو کہا۔ ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو پھٹکار لگائی ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ اور مہاراشٹرا کی حکومتوں کو ہیٹ اسپیچ کے خلاف قانونی کارروائی کی ہدایت کی تھی اور کہا تھا کہ حکومتیں شکایت کا انتظار نہ کریں بلکہ اگر کہیں ہیٹ اسپیچ ہوئی ہے تو اس کے خلاف از خود کارروائی کریں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گی تو اسے توہین عدالت سمجھا جائے گا۔ لیکن سپریم کورٹ نے پھر یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اس کے حکم پر عمل کیا گیا یا نہیں۔ انسانی حقوق کے کاکنوں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا کام صرف حکم دینا نہیں ہے بلکہ اسے اپنے حکم کو نافذ بھی کرانا بھی چاہیے۔ ریاستی حکومتیں اس کے حکم پر عمل نہیں کر رہی ہیں لیکن وہ کوئی کارروائی نہیں کر رہا۔ ان کے بقول اتراکھنڈ سے مسلمانوں کو بھگانے کی کوششیں ایک عرصے سے جاری ہیں۔ لیکن نہ تو انتظامیہ کی جانب سے کوئی کارروائی کی جا رہی ہے اور نہ ہی عدالت کی جانب سے۔
مسلمانوں کی جانب سے ریاستی حکومت سے اپیل کی جا رہی ہے لیکن کوئی سنوائی نہیں ہے۔ اتراکھنڈ وقف بورڈ اور ریاستی حج کمیٹی کے ذمہ داروں نے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی سے ملاقات کی اور مسلمانوں کو ہراساں کیے جانے کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور پشکر سنگھ دھامی کے نام خط میں موجودہ صورت حال پر اظہار تشویش کیا۔ بعض دیگر مسلم تنظیموں نے بھی پرولا سے مسلمانوں کے مبینہ انخلا پر اظہار تشویش کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں ضروری اقدامات اٹھائے۔
یاد رہے کہ ریاست اترا کھنڈ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریروں کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں۔ 2021 میں 17 سے 19 دسمبر کے درمیان ہریدوار میں سادھوؤں کی دھرم سنسد منعقد ہوئی تھی جس میں ہندوؤں سے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور ان کی نسل کشی کی اپیل کی گئی تھی۔ اس کے بعد ایسے کئی واقعات پیش آئے تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2018 سے اب تک اتراکھنڈ میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور بڑی ریلیوں کے 23 مصدقہ واقعات پیش آچکے ہیں۔ اس طرح سیاسی فائدہ اٹھانے کی غرض سے اتراکھنڈ کو مسلمانوں کے لیے ناقابل رہائش بنایا جا رہا ہے۔ جو مسلمان گزشتہ پچاس برسوں سے پرولا میں رہائش پذیر ہیں اور وہ وہاں اپنا کاروبار کر رہے ہیں وہ اب کہاں جائیں۔ کیا اس سازش کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔