حسنین اشرف ایڈووکیٹ
شام کی جنگ میں بہت سے فریق ہیں۔ امریکا وہاں جماعت اسلامی قسم کے لوگوں کو لانا چاہتا ہے جنھیں بعد میں مرسی کی طرح ہٹا کر کوئی اسرائیل نواز ڈکٹیٹر لایا جاۓ، کیونکہ شام کا اسد خاندان واحد پڑوسی حکومت ہے جس نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے۔جی ہاں واحد، مرسی اور سیسی کے مصر، شاہ عبدللہ کے اردن اور طیب اردگان کے ترکی نے اسرائیل سے نہ صرف سفارتی تعلقات رکھ کر اسکو قانونی ریاست مانا ہے بلکہ تجارتی تعلقات رکھ کر اسکی معیشت کو سہارا دیا ہوا ہے۔روس کا مفاد یہ ہے کہ روس شام کی سرحد سے پانچ سو کلومیٹر دور ہے، اگر شام میں جماعت اسلامی قسم کے لوگ آتے ہیں تو روس میں دھماکے شروع ہوں گے کیونکہ وہاں چیچنیا میں خلافت کا نعرہ لگتا رہا ہے۔ ایران شام میں بشار کا حمایتی ہے، کیوں کہ شام کے سوا اس علاقے میں ایران کا کوئی قابل بھروسہ دوست نہیں ہے اور شام میں جنرل سیسی جیسا حکمران آیا تو ایران فلسطین کے مسئلےسے کٹ جاۓ گا۔ اسرائیل شام میں امریکا کا ساتھی ہے۔ ترکی شام میں امریکا سے مل کر جماعت اسلامی کی مرسی قسم کی حکومت بنانے کے بعد امریکا کا ساتھ چھوڑنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ لیکن یہ شیخ چلی والی حماقت ہے جو مصر میں ناکام ہو چکی ہے۔امریکا کا ایک اور مقصد غیر سنی علاقوں کو الگ ملک بنانا ہے۔ اس سے شام کے چار ٹکڑے ہوں گے اور وہ اسرائیل کے خلاف کچھ کرنے کے قابل نہیں رہے گا بلکہ چاروں ٹکڑے پانی، تیل او زراعت کیلئے آپس میں لڑتے رہیں گے۔ یہاں ترکی امریکا کے خلاف ہے لہٰذا وہ کردوں پر حملہ کر رہا ہے تاکہ کردستان کا منصوبہ ناکام ہو۔
البتہ چونکہ شام ستر سال سے امریکا اور اسرائیل کے مقابلے میں مسلح جنگ کے علاوہ سفارت کاری کی جنگ کرتا رہا ہے۔ حافظ الاسد ہمارے ذولفقار علی بھٹو کی طرح ایک سیاسی جینیس تھا۔اس لیے شام کے پاس اعلی تعلیم یافتہ سٹریٹیجک اور سیاسی منصوبہ ساز موجود ہیں۔ بشار ایک فرد کا نام نہیں بلکہ ایک ٹیم کا نام ہے جسکی تربیت حافظ الاسد نے کی تھی۔ان میں اکثر سنی ہیں۔ لہٰذا ابھی تک شامی حکومت نے نہایت کامیابی سے میدان جنگ اور مذاکرات کی میز پر لوہا منوایا ہے۔ شامی حکومت لیبیا کی طرح کھوکھلی ثابت نہیں ہوئی بلکہ لوہے کا چنا بن چکی ہے_
الله بشار الاسد کے ساتھ ہے۔ قرآن کی آیت ہے: جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں، ہم ان کو راستہ دکھاتے ہیں۔الله نے اپنے وعدے کے مطابق بشار الاسد کو جنگ اور مذاکرات میں صحیح راستے دکھاۓ ہیں۔
سیدھا سا سوال ہے، اگر اسد اس طرح ظلم کر رہا ہے تو باغی شہر سے باہر نکل کر جنگ کیوں نہیں کرتے؟ شام کے جنگلوں میں جنگ کیوں نہیں کرتے؟ عوام کو یرغمال بنانے کی ضرورت کیا ہے؟ سنت رسول(ص) تو میدان میں نکلنا ہے، آپ نے کوئی جنگ مدینے کی گلیوں میں نہیں لڑی۔ اگر شامی باغی سچے مسلمان ہیں تو میدان میں کیوں نہیں نکلتے؟ نیزاگر شامی عوام بشار الاسد کے خلاف ہیں تو سرکاری نوکریوں میں ہڑتال کر کے حکومت کو مفلوج کیوں نہیں کرتے؟ آج تک مرنے والے دو لاکھ فوجی سب شامی ہی تھے۔ پولیس، محکمہ تعلیم، محکمہ صحت، سول سروس، عدالتیں، یہ سب شامی عوام کیوں چلا رہے ہیں؟ ان حالات میں ایک ملک گیر ہڑتال اسد کی حکومت کے خاتمے کیلئے کافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شام کی جنگ میں عوام اسد کے ساتھ ہیں اور وہ طالبانی انقلاب کو مسترد کر چکے ہیں۔وہ اپنے ملک کو نہ لیبیا بنانا چاہتے ہیں نہ اس کے چار ٹکڑے ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔
آنکھیں کھولو بھائیو!! ان لوگوں کو پہچانو جو تمھارے ملک میں طالبانی انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں بشار الاسد کے خلاف جھوٹے پروپگنڈے اور غزہ اور یمن کی ویڈیوز شام کے نام سے شیر کرنے کا مقصد پاکستان میں طالبانی انقلاب کی راہ ہموار کرنا ہے۔ یہ لوگ ہر شہر میں مدرسوں میں اسلحہ ذخیرہ کر رہے ہیں تاکہ جونہی عوام غافل ہوں، یہ فوج اور پولیس پر حملہ کر کے پاکستان کو شام بنا دیں۔ان جھوٹوں کے خلاف انفارمیشن وار لڑنا اور اس امریکی جہاد کی اصلیت سامنے لانا آپکا فرض ہے۔
(بہ شکریہ : ابلاغ)
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)