-
الیکشن آتے ہی حکومت کو سی اے اے کی یاد آ گئی
- سیاسی
- گھر
الیکشن آتے ہی حکومت کو سی اے اے کی یاد آ گئی
242
M.U.H
10/01/2024
0
0
تحریر: سہیل انجم
اب جبکہ پارلیمانی انتخابات قریب آگئے ہیں اور حکومت کے رپورٹ کارڈ میں کوئی اہم کارنامہ نہیں ہے تو وہ ایک بار پھر جذباتی ایشوز کو بھنانے کی تیاری کر رہی ہے۔ ان میں سرفہرست ہے ایودھیا میں عظیم الشان رام مندر کا افتتاح۔ حالانکہ یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ کسی مندر میں پران پرتشٹھا دھارمک لوگوں یا کسی شنکر آچاریہ کے ذریعے نہیں بلکہ سیاسی لوگوں کے ذریعے یعنی وزیر اعظم مودی کے ہاتھوں کی جا رہی ہے۔ یہ بھی پہلی بار ہو رہا ہے کہ اونچی ذات کے کسی شخص کے بجائے کسی نچلی ذات کے ہاتھوں یہ کام ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے معاملات میں جو پہلی بار ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر رام نومی کے بجائے کسی اور دن رام اپنے مندر میں پرویش کر رہے ہیں۔ جبکہ ہندو مذہب کی روایات کے مطابق پران پرتشٹھا ہندی مہینے پوس میں نہیں ہونی چاہیے اور یہ پوس کا مہینہ ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مندر کی تعمیر مکمل ہونے سے قبل ہی رام جی کا گرہ پرویش کرایا جا رہا ہے جو کہ غلط ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے چاروں بڑے شنکرآچاریہ اس تقریب کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ لیکن آر ایس ایس پوری طرح وزیر اعظم نریندر مودی کی پشت پر کھڑا ہے۔ اس کی وجہ بہت صاف ہے کہ اس معاملے سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آر ایس ایس کو بھی پتہ ہے کہ اگر اس بار بی جے پی کی حکومت نہیں آئی تو اس کا ایجنڈہ ادھورا رہ جائے گا اور وہ اپنے عزائم میں ناکام ہو جائے گا۔ وزیر اعظم مودی اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی بھی اسی وجہ سے بہت زیادہ بڑھ چڑھ کر اس معاملے میں حصہ لے رہے ہیں۔ اسی مقصد کے تحت ایودھیا میں ایئرپورٹ اور ریلوے اسٹیشن کی تعمیر نو کی گئی ہے۔ سڑکوں کو چوڑا کیا گیا ہے اور متعدد ہوٹلوں کی تعمیر ہوئی ہے۔ پرانے اور جرجر مندروں کی مرمت ہوئی ہے۔ تاکہ ہندو عوام کو یہ بتایا جا سکے کہ پانچ سو سال سے جس کا انتظار تھا وہ لمحہ آگیا ہے۔ اور چونکہ یہ کارنامہ مودی حکومت میں ہوا ہے اس لیے انعام کے طور پر اس حکومت کو دوبارہ لایا جائے۔ شنکرآچاریوں نے اسی لیے اس کی مخالفت کی ہے کہ اس کا مقصد 2024 کے عام انتخابات میں فائدہ اٹھانا ہے۔ وہ رام اوررام مندر کے سیاسی استعمال کے خلاف ہیں۔ لیکن ان کے خلاف ہونے سے کچھ نہیں ہوگا۔ آر ایس ایس اور بی جے پی نے رام کو اور ہندو مذہب کو بھی ہائی جیک کر لیا ہے۔ ہوگا وہی جو وہ چاہیں گے۔
دوسری طرف شہریت کے ترمیمی قانون سی اے اے کو ایک بڑا ایشوبنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے وزارت داخلہ کے ایک اعلیٰ افسر کے حوالے سے یہ خبر شائع کی تھی کہ 2024 سے پہلے سی اے اے کے ضابطے بن جائیں گے اور اسے نافذ کر دیا جائے گا۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس خبر پر سخت اعتراض اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔ان کے مطابق یہ قانون آئین مخالف ہے اور اس کا مقصد 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں فائدہ اٹھانا ہے۔ بعض میڈیا رپوٹوں کے مطابق سی اے اے کے ضوابط تقریباً تیار ہیں اور انھیں 26 جنوری سے قبل نوٹی فائی کر دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی یہ متنازع قانون پورے ملک میں نافذ ہو جائے گا۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے 27 دسمبر کو مغربی بنگال میں بی جے پی کے ریاستی سوشل میڈیا اور آئی ٹی سیل کے ارکان کے ساتھ ایک میٹنگ میں کہا تھا کہ سی اے اے ملکی قانون ہے اور اس کے نفاذ کو کوئی روک نہیں سکتا۔
یاد رہے کہ سی اے اے 10 دسمبر 2019 کو لوک سبھا میں اور دو روز بعد راجیہ سبھا میں منظور کیا گیا تھا۔ اس کے مطابق پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے مبینہ طور پر مذہب کی بنیاد پر ستائے جانے کی وجہ سے ہندوستان آنے والے ہندو، سکھ، پارسی، بدھسٹ، عیسائی اور جین برادری کے لوگوں کو ہندوستان کی شہریت دی جائے گی۔ مسلمانوں کو اس کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے۔ اُس وقت اس قانون کے خلاف ملک گیر احتجاج ہوا تھا۔ جس کا آغاز جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ہوا تھا اور اگلے روز اوکھلا گاؤں کے شاہین باغ کی حواتین سڑکوں پر بیٹھ گئی تھیں اور اس احتجاج اور دھرنے نے پورے ملک میں ایک آگ لگا دی تھی۔
جگہ جگہ خواتین نے دھرنا شروع کر دیا تھا اور جگہ جگہ شاہین باغ بن گئے تھے۔ شاہین باغ میں تقریباً ایک سو دنوں تک دھرنا چلا۔ حکومت اور بی جے پی اور اس کے حامی عناصر نے ان دھرنوں کو ختم کرانے کی بہت کوشش کی تھی لیکن وہ اس میں ناکام رہے تھے۔ وہ تو ملک میں کرونا کی وبا پھیل گئی اور حکومت نے اس کی آڑ میں تام دھرنے ختم کرا دیے۔ نہ صرف دھرنے ختم کرا دیے بلکہ ان دھرنوں میں شامل متعدد افراد کے خلاف کیس قائم کر دیے گئے اور ان میں سے کئی اب بھی جیلوں میں بند ہیں۔
کانگریس کے ارکان پارلیمنٹ اور سینئر رہنما منیش تیواری اور جے رام رمیش نے حکومت کے اس قدم کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں کے آئین کی تمہید میں لفظ سیکولرزم موجود ہے مذہب کی بنیاد پر شہریت نہیں دی جا سکتی۔ منیش تیواری کے بقول جب میں نے 2019 میں اس پر ہونے والی بحث میں حصہ لیا تھا تو یہی نکتہ میری بحث کی بنیاد تھا۔ سپریم کورٹ میں اس قانون کے خلاف جو عرضداشتیں داخل ہیں ان میں بھی یہی بات کہی گئی ہے کہ مذہب شہریت کے حصول کی بنیاد نہیں بن سکتا۔
ان رہنماؤں کا مزید کہنا ہے کہ پارلیمانی ضوابط کے تحت کسی بھی قانون کو چھ ماہ کے اندر نافذ کر دیا جانا چاہیے۔ لیکن سی اے اے کے ضوابط طے کرنے کی مدت میں نو بار توسیع کی گئی۔ اب بتایا جا رہا ہے کہ ضوبط کو انتخابات سے قبل نوٹی فائی کر دیا جائے گا۔ اس سے واضح ہے کہ یہ انتخابات سے عین قبل رائے دہندگان کو صف بند کرنے کی کوشش ہے۔ آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے صدر اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی، سی پی ایم کے سیتا رام یچوری، بہار کے نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو، سماجوادی پارٹی کے شفیق الرحمن برق اور ٹی ایم سی کے متعدد رہنماؤں نے حکومت کے اس قدم کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
اویسی کے بقول سی اے اے کو این پی آر اور این آر سی کے ساتھ ملا کر دیکھا جانا چاہیے۔ اس کے تحت آپ کو اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی۔ اگر یہ قانون نافذ ہو گیا تو نہ صرف مسلمانوں بلکہ دلتوں، غریبوں اور پسماندہ طبقات کے ساتھ بھی زبردست ناانصافی ہوگی۔اپوزیشن کے مطابق حکومت پارلیمانی انتخابات سے قبل فرقہ واریت کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ اس کا مقصد صرف انتخابی فائدہ اٹھانا ہے۔ انھوں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ انتخابات سے قبل ہی ہندو مسلم مسائل کیوں اٹھائے جاتے ہیں۔ ان کے بقول اگر سی اے اے نافذ کیا گیا تو ملک کے حالات اور خراب ہو جائیں گے۔
دراصل پارلیمانی انتخابات سے قبل سی اے اے کے نفاذ کی بات کرنا مذہب کی بنیاد پر عوام کو خیمہ بند کرنا ہے تاکہ اکثریتی ہندوؤں کے ووٹ حاصل کیے جا سکیں۔ مبصرین کے مطابق چار سال گزر جانے کے باوجود حکومت ابھی تک اس کے ضوابط کیوں نہیں بنا سکی اور اب کیوں بنانے اور اسے نافذ کرنے جا رہی ہے۔ دراصل وزیر اعظم نریندر مودی پارلیمانی انتخابات کے سلسلے میں بہت مایوس ہیں اسی لیے ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کے ساتھ سی اے اے کے معاملے کو بھی اٹھایا جا رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی باتیں اس لیے کی جا رہی ہیں کہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ جائے۔
مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ جب سی اے اے نافذ کیا جائے گا تو ایک بار پھر انسانی حقوق کے کارکنوں، اپوزیشن اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے ساتھ انصاف پسند حلقوں کی جانب سے اس کی پرزور مخالفت کی جائے گی اور ممکن ہے کہ کچھ جگہوں پر لوگ دھرنے پر بیٹھ جائیں۔ اس بار اگر لوگ دھرنے پر بیٹھے تو حکومت یا تو انھیں اٹھائے گی نہیں بلکہ اس دھرنوں کی آڑ میں ہندووں کے ایک طبقے کو ان کے خلاف اکسایا جائے گا یا اگر حکومت کو لگے گا کہ ان کو اٹھانے سے ماحول پھر گرم ہو جائے گا اور اس کی بنیاد پر ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان ایک خلیج پیدا ہو جائے گی تو پھر ان کو زور زبردستی سے اٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔ بہرحال الیکشن سے قبل سی اے اے کے معاملے کو اٹھانے کا مقصد انتخابی فائدہ اٹھانا ہے اور کچھ نہیں۔