-
انهدام جنت البقیع عالمِ اسلام کی غیرت پہ سوالیہ نشان؟؟
- سیاسی
- گھر
انهدام جنت البقیع عالمِ اسلام کی غیرت پہ سوالیہ نشان؟؟
1912
M.U.H
21/06/2018
1
0
سید علی هاشم عابدی
قم مقدس ایران
اسلام نے انسان کو وہ ساری اخلاقی تعلیم دی جو انسانیت کے لئے حسن اور انکا ترک کرنا قبیح اور اخلاق انسانی کے خلاف ہے۔ انھیں اخلاقیات میں سے ایک "غیرت" ہے۔
غیرت و حمیت ایک ایسی مثبت صفت ہے جس کے ذریعہ انسان دنیا و آخرت کی کامیابی و سعادت سے ہمکنار ہوتا ھے اور جس کا فقدان انسان کو شقاوت و بدبختی کے اندھیرے میں جھونک دیتا ہے۔ اسی لئے اسلام نے غیرت مند کی مدح اور بے غیرت کی قدح فرمائی ہے۔
غیرت کے مختلف اقسام و مقامات اور اسباب ہیں۔ جیسے دینی غیرت، مذھبی غیرت، قومی و ملی غیرت، انسان اپنی عزت و آبرو و ناموس کے سلسلہ میں غیرت مند ہو۔
تاریخ شاہد ہے آج تک جتنی بھی خلوص کے ساتھ دینی و مذھبی تحریکیں چلی ہیں انکی بنیاد دینی و مذھبی غیرت پہ ہی ہیں۔ جتنے بھی ملکی انقلابات وجود میں آئے ان سب کا سر چشمہ قومی و ملی غیرت ہی رہی ہے، اسی طرح انسان کی عزت و آبرو و ناموس کے سلسلہ میں جتنے افراد کامیاب و کامران ہوئے وہ اپنی غیرت ہی کے سبب۔
اسی لئے اسلام نے ان غذا و لباس و رھن سھن پہ پابندی عائد کی ہے جو بے غیرتی کے اسباب و وجوھات اور بنیاد ہیں جیسے سور کا گوشت و بے پردگی وغیرہ
جنت البقیع مدینہ منورہ میں عالم اسلام کا وہ عظیم قبرستان ہے جسمیں سب سے پہلے صحابی رسول جناب عثمان بن مظعون دفن ہوئے۔ اسکے بعد جب فرزند رسول جناب ابراھیم نے انتقال فرمایا تو حکم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے آپ کو بھی وہیں دفن کیا گیا۔ دفن ابراہیم کے بعد مدینہ اور اسکے اطراف میں جو بھی اس دنیا سے کوچ کرتا وہ جنت البقیع میں ہی دفن ہوتا۔ اللہ کے نبی اکثر یہاں تشریف لاتے اور وہاں مدفون افراد کو سلام کرتے اور انکے لئے دعا کرتے اور فرمایا: "جنت البقیع سے ۷۰ هزار افراد محشور ہوں گے جو بغیر کسی حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے"۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد جب اہل مدینہ کو آپ کی اکلوتی یادگار بیٹی کے گریہ و عزا سے پریشانی ہوئی اور کمال بے غیرتی سے اس کا شکوہ کیا تو بی بی سلام اللہ علیھا اسی جنت البقیع میں تشریف لاتیں اور اپنے بابا پہ گریہ و عزا فرماتی تھیں یہاں تک کہ اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ آپ کی مظلومانہ شھادت کے بعد حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اس غرض سے کہ آپ کی قبر پوشیدہ رہے اسی جنت البقیع میں چالیس یا ستر قبریں بنائیں تا کہ اصل قبر کا پتہ نہ چل سکے۔ (واضح رہے کہ صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی قبر مبارک آپ کی قدر و منزلت کی طرح اسرار الہی میں سے ہے جسکا علم صرف معصومین علیھم السلام کو ہی ہے۔ جب تیونس کے مومنین نے آل سعود سے جنت البقیع میں جناب شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے حرم مطھر تعمیر کرنے کی اجازت مانگی تو آل سعود نے کہا کہ آپ ایران میں اپنے مراجع سے حرم کے حدود کا پتہ کرلیں تا کہ وہاں روضہ تعمیر ہو سکے تو جب وہ مومنین ایران آئے اور رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی قدس سرہ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: آپ حضرات اس سلسلہ میں مرجع عالی قدر آیت اللہ العظمی سید محمد رضا گلپائگانی قدس سرہ سے رجوع کریں جو اس وقت حیات تھے۔ جب یہ لوگ مرحوم آیت اللہ العظمی گلپائگانی رہ کی خدمت میں پہنچے اور مسئلہ بیان کیا تو آپ سر جھکائے تھے پھر اپنا سر بلند کیا اور فرمایا: اگر میں اس راہ میں قتل بھی کر دیا جاوں تب بھی اسکی اجازت نہیں دوں گا۔ کیوں کہ خدا وند عالم نے آپ کی قدر و منزلت اور قبر کو اپنے راز و اسرار میں قرار دیا ہے۔ اگر آپ کا روضہ تعمیر ہونا مقصود ہوتا تو امام سجاد علیہ السلام یہ کام کرتے۔ امام باقر علیہ السلام تعمیر فرماتے۔ لیکن کسی امام نے قبر مطھر ظاہر نھیں فرمائی۔ آل سعود چاہتے ہیں اس طرح ہماری تمام روایات کو غلط ثابت کریں کہ شیعوں کی اب تک تمام روایات و کتاب میں ہے کہ صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیھا کی قبر پوشیدہ اور اسرار الہی ہے لیکن اب شیعہ مرجعیت نے حدود معین کر کے تمام شیعہ روایات و کتب کی تکذیب کر دی ہے۔) جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سبط اکبر حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کی شھادت ہوئی تو آپ کے بھای امام حسین علیہ السلام نے حسب وصیت آپ کو اسی جنت البقیع میں دفن فرمایا۔ واقعہ کربلا کے بعد اہل حرم اسی بیت الحزن جنت البقیع میں شھدائے کربلا کی عزاداری فرماتے یعنی جو بیت الحزن دختر رسول ع۔ کی شھادت پہ تعطیل ہو گیا تھا وہ دوبارہ کربلا کے بعد آباد ہوا۔ اسی طرح امام سجاد امام محمد باقر امام جعفرصادق علیھم السلام کو بھی بعد شھادت جنت البقیع میں سبط اکبر امام حسن علیہ السلام کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ ائمہ مظلوم بقیع علیھم السلام کے علاوہ ازواج و اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، والدہ امیرالمومنین علیہھما السلام، صدف وفا حضرت ام البنین سلام اللہ علیھا، اسماعیل بن امام صادق علیہ السلام اور عالم اسلام کی عظیم و نامور شخصیات جیسے امام اھلسنت امام مالک جنت البقیع میں دفن ہیں اور آج تک جو بھی مدینہ و اسکے اطراف میں انتقال کرتا ہے وہ بھی یہیں دفن ھوتا ہے۔
بنی امیہ کے بعد جب بنی عباس برسر اقتدار ہوئے تو یہاں قبروں پہ گنبد و بارگاہ تعمیر ہوئے چونکہ ان کے جد عباس بن عبدالمطلب بھی یہیں دفن ہیں۔ ہمارے چاروں امام کی قبریں ایک ضریح میں تھیں عظیم الشان گنبد و بارگاہ، خدام و زوار کا ہجوم ہوتا تھا۔
لیکن افسوس صد افسوس آج سے ۹۵ برس پهلے آل سعود نجدی نے ۸ شوال ۱۳۴۴ هجری کو جنت البقیع منھدم کر دیا۔ اور تقریبا ایک صدی سے رسول اللہ کے پیاروں کی قبریں دن کی دھوپ اور رات کی اوس میں ہیں۔ پورا مدینہ جگمگا رہا لیکن ولایت و امامت کے سورجوں کی قبریں ویران و تاریک ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ ویرانی کی خبر سن کے کوئی کچھ نہ بولا ہو بلکہ عراق، ایران، مصر، ترکی اور ھندوستان میں عظیم الشان احتجاجات بھی ہوئے لیکن مرور زمان اور دشمن کی سازشوں کے نتیجہ میں یہ مسئلہ کم توجھی و طاق نسیاں کا شکار ہو گیا۔
مسلمان کو جس نبی ص۔ نے توحید کے آب زلال سے سیراب کر کے قیامت تک کے لئے عزت و شرف بخشا، مسلمان جس رسول کا کلمہ پڑھتا ھے اور انکی محبت و اطاعت کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتا ہے، آج اسی نبی و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب مقام کہ جہاں آپ اکثر تشریف لے جاتے اور وہاں مدفون افراد کو سلام اور انکے لئے دعا کرتے اور اس مقام کی فضیلت بتاتے۔ جہاں آپ کے دل کے ٹکرے، آنکھوں کی ٹھندھک، اصحاب کبار و ازواج کرام دفن ہوں، جہاں آپ کی اکلوتی یادگار بیٹی آپ کی وفات پہ آپ کے فراق میں عزاداری فرماتی تھیں یعنی جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عزاداری و سوگواری کا مرکز ہو اسے ویران و منھدم کر دیا جائے اور تقریبا ایک صدی سے بے چراغ و تاریک ہو، اور مسلمان اس سلسلہ میں سستی و سردمہری کا مظاہرہ کرے تو کیا یہ عالم اسلام کی غیرت پہ سوالیہ نشان نہیں ہے؟؟یقینا ہے۔
دینی غیرت یہ ہے کہ انسان حق، عدالت اور حکم خدا کی جب مخالفت ہو تو اسکا مقابلہ کرے، اور یہ مخالفت جتنی شدید ہو انسان کو چاہئیے اسی شدت سے مقابلہ کرے، اگر عملاً مقابلہ نہ کر سکے تو قلباً اس برے عمل سے راضی نہ ہو، اسلام میں کسی بھی انسان کے جنازہ و قبر کی بے حرمتی کی کوئی اجازت نہیں ہے۔ کسی لاش کے ہاتھ پیر یا ناک کان کاٹنا حرام ہے، رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاریخ گواہ ہے آپ نے اپنی مدنی حیات میں تقریبا ۸۰ جنگیں لڑیں۔ لیکن کسی بھی جنگ میں کسی دشمن کی لاش کی بھی بے حرمتی کی اجازت نہیں دی، اسی طرح کسی قبر کی بھی بے حرمتی کی اجازت نہیں فرمائی، رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد حضرت امیرالمومنین امام علی بن ابی طالب علیہ السلام نے بھی سنت نبوی کا احیاء اور اس پہ عمل کیا، تاریخ کہتی ہے جب صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ کی مظلومانہ شھادت ہوئی تو حسب وصیت رات کے سناٹے میں آپ کی تدفین ہوئی۔ صبح جب لوگ قبر کھودنے آئے تو امیرالمومنین علیہ السلام جیسے صابر امام نے سنت نبوی پہ عمل کرتے ہوئے دینی غیرت کا وہ ثبوت پیش کیا اور قبر مطھر کی بے حرمتی سے روکا۔
آل سعود نے تمام اسلامی آثار کو ختم کردیا اور مسجد الحرام و مسجد النبوی کی وسعت کے نام پر باقی بچے ہوئے آثار بھی ختم کرتے جا رہے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ مسلمان مسجد کی خوبصورتی اور اسکے خوبصورت میناروں میں محو ہے اور اسکی تعریف کرتے نھیں تھکتا، کہ مسجد النبوی کافی وسیع اور اس میں دس خوبصورت مینار تعمیر ہو گئے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مسجد کو اتنی وسعت دی انکے والد جناب عبداللہ کی قبر کو کیوں بنام وسعت مسجد بے نشاں کر دیا گیا کہ لوگوں کو پتہ ہی نہ چلے کہ اللہ کے نبی کے والد کی قبر کہاں ہے؟
اگر مسلمان اس اسلامی غیرت کی جانب متوجہ نہیں ہے تو اپنا محاسبہ کرے، اور دقت و توجہ کرے کہ آخر وہ کیا اسباب ہیں جن کی بدولت متوجہ نہیں ہے۔ قرآن کریم اور احادیث شریف نے محاسبہ کا حکم دیا ہے۔ توجہ کریں آخر وہ کون سی وجوھات ہیں جنکے سبب ہم سے ہماری اسلامی غیرت سلب ہو گئی؟؟
شائد کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات