ارشد معراج
آزادئ اظہار انسانی حریت کے لیے پہلا اور آخری مورچہ ہے۔ آزادئ اظہار کے بارے میں مباحث روز بروز بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور اس کی ہمہ جہت توسیع ہوتی جا رہی ہے۔ اس میں انسانی ترقی کے پسِ پردہ عوامل درج ذیل ہیں۔
۱۔ تکنیکی ایجادات اور عالمی میڈیا
۲۔ اجتماعی کوششیں اور معیارات
۳۔ سیاسی و قانونی جدوجہد
آزادئ اظہار میں حقوق اور فرائض (فرد اور معاشرے دونوں کے) شامل ہیں لیکن ان کو بنیادی طور پر حقوق کے ذیل میں رکھ کر بحث کی گئی ہے۔ کسی بھی نفرت انگیز تقریر کے متاثرہ افراد کی کسی حد تک تلافی کی جا سکتی ہے۔ اگر یہ نفرت والی تقریر قانونی طور پر قابلِ مواخذہ سطح سے کم تر درجے پر ہو اور جدید معاشرہ آزادئ اظہار کے حوالے سے اس سماجی ذمہ داری سے کیسے عہدہ برآ ہو سکتا ہے؟
آزادئ اظہار کے ضمن میں سب سے مؤثر قانونی مآخذ بین الاقوامی انسانی حقوق کا اعلان نامہ ہے جس کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ آرٹیکل ۔۱۹ کی رُو سے:
۱۔ ہر شخص کو آراء رکھنے کا اختیار ہو گا اور اس سلسلے میں کوئی مداخلت نہ ہو گی۔
۲۔ ہر شخض کو آزادئ اظہار حاصل ہو گی۔ اس حق میں ہر طرح کے نظریات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے اور معلومات دوسروں تک پہنچانے کی آزادی شامل ہو گی۔ سرحدیں اس حق کی راہ میں حائل نہ ہوں گی۔ یہ معلومات تحریری شکل میں، زبانی شکل میں یا کسی آرٹ کی شکل یا کسی اور مطلوبہ ذریعے حاصل کی جا سکیں گی۔
۳۔ شق نمبر ۲ میں درج حق کی بجاآوری کے دوران خاص فرائض اور ذمہ داریاں لاگو ہوں گی لہٰذا اس ضمن میں کچھ پابندیاں بھی عائد ہو سکتی ہیں لیکن صرف وہ پابندیاں لاگو ہوں گی کہ جن کا قانون میں ذکر ہے اور ضروری سمجھی جائیں گی۔
الف۔ دوسروں کی عزت، شہرت اور حقوق سے متصادم نہ ہوں۔
ب۔ قومی سلامتی، امنِ عامہ، صحت عامہ یا اخلاقِ عامہ متاثر ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔
شق نمبر ۲ میں مذکورہ آزادئ اظہار کے سلسلے میں معلومات، خیالات او رآراء کو دوسروں تک بغیر کسی مداخلت کے پہنچانا، چاہے کسی بھی مواد پر مبنی ہوں۔ مواد کا غیرجانبدار ہونا، بالفاظ دیگر آزادئ اظہار ہر اساسی اصول کے طور پر کسی رائے، پیغام کی نوعیت کی بنیاد پر نہیں روکا جا سکتا۔
یہ حق نہ صرف نظریات کے مواد اور فراہم کردہ معلومات کو تحفظ دیتا ہے بلکہ اُن ذرائع کو بھی تحفظ دیتا ہے کہ جس کے توسط سے یہ نظریات اور معلومات دوسروں تک منتقل کی جائیں۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی اعلان نامہ کی رُو سے آزادئ اظہار کی ضمانت ہر ایک شخص کو حاصل ہے کہ وہ اپنے خیالات، اپنی آراء اور اپنے معتقدات چاہے وہ مذاقِ عامہ یا رائے عامہ سے متصادم ہوں، رکھ سکتا ہے اور پھیلا سکتا ہے۔
یہ آزادئ اظہار کا دوہرا پہلو ہے جو بیک وقت جہاں فرد کے حقوق کی توثیق کرتا ہے وہیں کہتا ہے کہ کوئی شخص کسی کی آزادی پر کوئی قدغن نہیں لگا سکتا اور ہر طرح کی معلومات ، نظریات جس کا دوسرے اظہار کریں، تک رسائی کا اجتماعی حق رکھتا ہے۔ اظہار صرف الفاظ تک محدود نہیں، اس میں علامتی اظہار بشمول جسمانی حرکات اور مخصوص رویّہ بھی شامل ہے۔
آزادئ اظہار کے زمرے میں قلیل تعداد رکھنے والے گروہ بھی اُسی طرح کے حقوق اور ذمہ داریاں رکھتے ہیں جس قدر کہ اکثریت کا حق ہے۔ سیاسی استصواب جابرانہ ریاستی طاقت اور تعلیمی نظام کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے اور ’’اتفاقِ رائے‘‘ تو بذاتِ خود اشرافیہ کا اقلیتی آراء کو دبانے کا ایک حربہ ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ (آراء) اکثریت کی ہے یا اقلیت کی۔
اس سلسلہ میں جمہوریت کو اہمیت حاصل ہے کیونکہ اکثریتی رائے ہی فیصلے کا تعین کرتی ہے لیکن جمہوریت اپنی اصل روح میں صرف اکثریت کے شاندار مظاہرے کا نام نہیں (جمہوریت میں) اقلیتی نکتہ نظر کے بارے میں بھی ہمدردانہ رویّہ پایا جاتا ہے۔ حالانکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ مختلف پلیٹ فارم پر اقلیتی آوازوں کو دبا دیا جاتا ہے اور ذرائع ابلاغ میں ایسے نکتہ نظر کو نمایاں نہیں کیا جاتا ۔ نیوزی لینڈ کے جسٹس گولٹ نے ہوسکنگ بنام رنٹنگ کے مقدمہ میں کہا ہے:
Although the right of freedom of expression is not in every case the ace of trumps, it is a powerful card to which the courts of this country must always pay appropriate respect.
اگرچہ آزادئ اظہار کا حق ہر مقدمے کی صورت میں ترپ کے پتے کی حیثیت نہیں رکھتا لیکن یہ ایک طاقتور پتہ ہے۔ ہمارے ملک کی عدالتوں کو چاہیے کہ ہمیشہ اس کا مناسب احترام کریں۔
اسی سلسلے میں برٹرینڈرسل اپنے مضمون ’’آزادی اور معاشرہ‘‘ میں لکھتے ہیں:فرد کی آزادی کا احترام وہاں ہونا چاہیے جہاں اُس کے اعمال سے دوسروں کو کوئی براہِ راست واضح اور غیر مشکوک نقصان نہیں پہنچتا۔۵
انسانی حقوق و فرائض کے وسیع تر تناظر میں اس برابری کے بنیادی خیال کو سامنے لانا چاہیے جو انسانی حقوق کے بنیادی ڈھانچے کے گرد گھومتا ہے۔ قانون ساز اداروں سے یہ مطالبہ کیا جانا چاہیئے کہ ریاست میں قومی، نسلی، مذہبی نفرت انگیزی جو انسانوں کے درمیان امتیاز اور تفریق معاندانہ رویے اور تشدد کا سبب بنتی ہے پر مکمل پابندی لگائیں۔ انسانی حقوق کے ایکٹ HRA مجریہ ۱۹۳۳ء کی دفعہ ۶۱اُس اظہار پر پابندی عائد کرتی ہے جو کسی کو خوفزدہ کرے جس میں ناشائستہ زبان استعمال ہو، جو کسی کے لیے توہین آمیز ہو، جس کے بارے میں یہ یقین ہو کہ وہ کسی شخص یا کسی گروہ کے لیے ان کے رنگ و نسل، مذہبی یا قومی بنیادوں پر ان کے لیے اشتعال انگیز ہو گا۔
سیکشن/ دفعہ ۱۳۱ دفعہ ۶۱کی طرح ہی مجرمانہ فعل کی تعریف کرتی ہے لیکن اس میں یہ اضافی الفاظ آتے ہیں کہ کسی کے بارے میں اشتعال انگیزی کا ارادہ یا کسی سے خلاف بدنیتی یا ارادہ توہین شامل ہیں۔ نسلی تعلقات کے ایکٹ مجریہ ۱۹۷۱ء کی رو سے نسلی عدم توازن کی طرف انگیخت دلانا مجرمانہ فعل قرار دیا گیا ہے۔
نیوزی لینڈ کے بروز (Burrows) کے مطابق آزادئ اظہار کے مہیا کرنے کے عمل میں توازن برقرار رکھنا مشکل ترین امر ہے۔ وہ کہتے ہیں:
If you don’t regulate enough, unquestionably people can be hurt, If you’re too free, you can damage society, you can damage individuals. At the other end, if you’re too regulated and too restricted, the public aren’t given the information they need. It is the most difficult area in the whole of the law to get right. There are just so many cross currents, so many important interests in it, that to strike the correct balance that will please everybody is virtually impossible.
اگر آپ معقول حد تک کنٹرول نہیں کرتے تو یقیناً لوگو ں کو صدمہ پہنچ سکتا ہے اور اگر آپ بہت زیادہ آزادی دیں تو آپ معاشرے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ آپ افراد کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ دوسری طرف اگر بہت سی پابندیوں کا شکار ہوں گے تو عوام کو مطلوبہ اطلاعات میّسر نہیں ہوں گی۔ اِس قانون کا یہ حصّہ بے اندازہ مشکلات رکھتا ہے جہاں اس توازن پر پہنچا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں بہت سے مخالف تموجات پائے جاتے ہیں۔ بہت سے اہم مفادات پیوستہ ہوتے ہیں، صحیح ترین توازن پر پہنچنا کہ جوہر ایک کو خوش کر سکے بدیہی طور پر ناممکن ہے۔
لیکن اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں ہے کہ آزادئ اظہار کے حق سے دستبردار ہو جائیں بلکہ اِس امر میں مزید غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی جکڑ بند معاشرے میں آزادئ اظہار ناممکن سا عمل ہے کیونکہ ایسے معاشرے میں نئے خیالات و افکار قائم نہیں ہو سکتے اور جاری و مروّجہ افکار کی بالادستی حکمران طبقہ قائم رکھنا چاہتاہے کیونکہ انہیں نئے افکار ناقبول ہوتے ہیں کیونکہ نئے افکار کے ساتھ ہی تبدیلی کا عمل بھی شروع ہو جاتا ہے اس لئے ایسا ماحول پیدا کیا جاتا ہے کہ لوگ بادشاہ کے خلاف سوچنا تک گناہ سمجھیں اس طرح یہ ادارہ ایک Taboo (تحریم)کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ یہ سلسلہ اس قدر طویل ہوتا ہے کہ لوگ نفسیاتی طور پر غلامی اختیار کر لیتے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں افکار کی آزادی کا یہ دروازہ کھولنا پڑتا ہے کیونکہ آبادیاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہیں اور وسائل بھی بڑھتے ہیں تو سماجی مسائل بھی بڑھتے ہیں۔ سماجی مسائل کا حل سیاسی تبدیلیوں سے ممکن ہو سکتا ہے۔ سیاسی تبدیلی کا براہِ راست تعلق معاشی تبدیلی سے ہے اس لئے افکار کی آزادی جمہوری بن جاتی ہے۔
لوگ ہر وہ چیز جو اُن کے مسائل کا سبب ہوتی ہے، اُن کی شعور سازی میں مدد دیتی ہے پھر یہ عمل صرف تجزیاتی صورت میں نہیں رہتا بلکہ افکار کا روپ دھارتا ہے اور اپنے افکار کے ذریعے سماج کی تبدیلی کے لئے سماج کو اپنے افکار سے آگاہ کرتا ہے۔ افکار و خیالات کی اِس آزادی کے بارے میں برٹرینڈرسل کہتے ہیں’’ہمارے خیالات کی آزادی سے فن اور فلسفے کی پوری دنیا ہی پیدا نہیں ہوتی بلکہ حُسن کا وژن بھی جنم لیتا ہے۔‘‘۷خیالات کی تازگی ہی افکار کی آبیاری کرتی ہے اور خیالات کی پنیری، فلسفہ و فکر، علم و دانش اور آگہی کے ساتھ مل کر حسنِ زندگی کی راہ پاتے ہیں۔
بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں جس میں ایک محدود پیمانے پر احرار کی قائم کی جا سکتی ہے۔ لوگو ں کو اپنے افکار کا ہم خیال بنایا جاسکتا ہے۔ بعض باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو افکار کی روایت کو چیلنج کرتی ہیں اِس سلسلے میں فکر کی آزادی سے پہلے اظہار کی آزادی کی ضرورت ہوتی ہے گویا فکر کی آزادی اظہار کی آزادی کے ساتھ مشروط ہے۔ آزادئ اظہار کے ذریعے فرد کی اصلاح کا مسئلہ اور اجتماعی ہمواری کا مسئلہ حل ہوتا ہے۔ اسی سلسلہ میں بنجمن این کارڈوز کہتے ہیں:
Freedom of expression is the matrix, the indispensable condition of nearly every other form of freedom.
اقدار اور روایات کے متوازی ایک نیا فکری جہان قائم کرنا لازمی جزو ہے کیونکہ اس کا مخاطب براہِ راست سماج ہوتا ہے۔ یہ معاشی تاریخی روایات کو چیلنج کرتی ہیں اور افکار و خیالات کی قبولیت کے لئے آمادگی پیدا کرتی ہیں۔ آمادگی اس لئے قائم ہوتی ہے کیونکہ مخصوص سیاسی سماجی نظام میں رہ کر مسائل کا حل نہیں نکلتا اسی لیے نئے فکری رجحان کے لیے آمادگی پیدا ہوتی ہے۔ اس جنگ میں پہلا مرحلہ سیاسی جدوجہد کے ذریعے معاشی اور سماجی مسائل کو نئی تفہیم دینا ہے۔ حکمران طبقات اِس سلسلہ میں شدید مزاحمت کا مظاہر کرتے ہیں لیکن قانون متحرک ہو تو لوگوں کو راستہ میّسر آ جاتا ہے سیاسی جدوجہد کے ذریعے وہ قربانیاں دیتے ہیں اور تبدیلی کے خواہاں ہوتے ہیں اور رسل کے مطابق یہ تقاضا کرتے ہیں’’ہماری خواہشیں اگر دوسروں کے لیے تباہ کن اور خطرناک نہ ہوں تو پھر انہیں آزادانہ اظہار کا موقع ملنا چاہیے۔ ‘‘ ۹
سماج کی فکری اور مادی نشوونما آزادئ اظہار کے بغیر ممکن نہیں۔ پوری انسانی تاریخ اِس امر کی گواہ ہے کسی بھی دور میں انسان خاموش تماشائی نہیں رہا۔۔۔وہ تاریخ کے منظرنامے کا سٹیریو ٹائپ کردار نہیں ہوتا کہ جس کی کہانی محض مروّجہ اخلاقیات، Taboos (تحریمات)اور روایات لکھتے ہیں بلکہ مسائل کے حوالے سے اِن کرداروں کا تجزیاتی ذہن خود اپنے کردار کی نوعیت کو بدل دینے کا شدید خواہش مند ہوتا ہے۔ یہ انفرادی اور قومی سطح پر تاریخی حوالوں سے ایک فرد یا افراد یا اقوام کا تاریخی مرحلہ ہوتا ہے۔ اس طرح افکار اپنے اظہار کی کامل آزادی کے بغیر اپنے اس تنقیدی، تجزیاتی اور تخلیقی شعور کی بیداری کو عمل میں نہیں لا سکتے۔ اگر عملی شکل نہ دی جا سکے تو انسان بے بسی اور مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ انسان کی سماجی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ وہ بہت عرصہ ذلّت اورمقہوری کی زندگی بسر نہیں کر سکتا لہٰذا نتائج کی پرواہ کئے بغیر سقراط، افلاطون، ارسطو، کارل مارکس، ڈارون اور فرائیڈ جیسے لوگ پیدا ہو جاتے ہیں۔ البرٹ آئن سٹائن لکھتے ہیں:
Everything that is really great and inspiring is created by the individual who can labour in freedom.
ہر تخلیق واقعتا عظیم ہے اور جوش و جذبے کو اُبھارتی ہے اگر تخلیق کار آزادی کے ساتھ تخلیقی مشق میں کوشاں رہتا ہے۔
خالص سیاسی طور پر حساّس شخصیت وہ ہوتی ہے جو اپنے اظہار میں کسی بھی اقلیت کا دِل نہ دکھائے یا ان کے تحفظات کا خیال رکھے۔ وہ ایسی رائے کا اظہار کرے جو سب کے لیے ممکن ہو۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ اپنی رائے کا اظہار کریں اور وہ سب کے لئے قابلِ قبول ہو۔ اس صورتِ حال میں آپ کی کوئی رائے نہیں ہو گی۔ اگر سچ بولنے کی نصیحت ایک آفاقی سچائی ہے اگر انفرادی طور پر یہ رائے دی جائے تو یہ ذاتی مسئلہ ہو گا لیکن اجتماعی طور پر اگر کسی خاص نقطے پر کچھ لوگ جمع ہوتے ہیں تو خاص قسم کی رائے رکھنے کے باوجود ان کی رائے کے مخالف رائے نہیں دیں گے۔
ایسی سوسائٹی جہاں لوگ سیاسی طور پر درست رہنا چاہتے ہیں وہاں ایک مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ سوسائٹی میں تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی کیونکہ موجودہ شکل کی تبدیلی ہی ارتقائی مراحل ہوتے ہیں تاکہ اپنے نقطۂ آغاز پیش کرنے کے عمل میں گرم جوشی کو ختم کرنا ضروری ہے۔ یہاں آپ کا ایک دائرہ ہے جس میں رہتے ہوئے آپ آزاد ہیں۔
سیاسی حساس شخصیت ایسے الفاظ، محاورات اور اسباب جن سے دوسرے گروہوں کی دِل آزاری ہو انہیں استعمال کرنے میں احتیاط برتتے ہیں۔ بہترین اخلاقیات وہ ہے جو دوسرے کو کم سے کم نقصان پہنچاتی ہیں اور آپ کی رائے بھی قائم رہتی ہے اس لیے انسان دوست اور ذاتی مفادات کو منہا کر کے ہی کسی کی رائے کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں حکومتِ وقت کے قائم کردہ حصار کے باوجود اُن کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے۔ جمیل جالبی لکھتے ہیں:
۔۔۔رہا سماجی ذمہ داری کے سلسلہ میں حکومت کا سوال تو یہاں اتنا عرض کر دینا کافی ہے کہ حکومتِ وقت سے اختلاف کرنا یا اس کا مذاق اڑانا یا اُس سے انحراف کرنا وطن دشمنی نہیں ہے اور نہ ہی غداری۔ یہی وہ چیز ہے جسے ہم اصطلاح میں ’’آزادئ اظہار‘‘ کا نام دیتے ہیں۔
آزادئ اظہار دراصل وہ بنیادی انسانی حق اور وسیلہ ہے کہ جس کے ذریعے ادب و فنون لطیفہ ترقی کرتے ہیں
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)