کانسٹی ٹیوشن کلب آف انڈیا میں حال ہی میں ہونے والے ایک غیر معمولی جلسے میں دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروا نند نے درست کہا ہے کہ” ملک اپنے سب سے خطرناک دور سے گزر رہا ہے البتہ خوشی کی بات ہے کہ دانشوروں ،ادیبوں اور طلبا میں ابھی ایسے لوگ بھی کم نہیں ہیں جو اس صورتحال کو درست کرنے کے لیے اپنے امکان بھر سب کچھ کرنے کو تیار ہیں‘‘ ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ملک جس تیز رفتاری سے ’’غنڈا اسٹیٹ ‘‘ ،پولیس اسٹیٹ‘‘ ’’ایمر جنسی اسٹیٹ ‘‘اور’’ نسل پرست ،غیر روادار ،متعصب اور فرقہ پرست آمریت ‘‘میں تبدیل ہوتا جا رہا ہےاُس کے خلاف اُٹھنے والی آوازوں اور تحریکوں میں کسی اثر پذیری کی صلاحیت دور دور نظر نہیں آتی ،اس میں ابھی وہ تیزی اور شدت بھی نہیں جس کی ضرورت ہے ۔ جو چیز اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہے وہ ،محمد اخلاق ،زاہد رسول بھٹ ،محمد مظلوم ،محمدآزاد،ابو حنیفہ ،ریاض الدین ،پہلو خان ،غلام محمد ،ظفر حسین ،جنید ،منہاج انصاری سے لے کر علیم الدین انصاری تک یرقانی دہشت گردی کے کسی بھی شکار کا اپنے حق ِ دفاع کا استعمال نہ کرنا ہے! اسلام کے احکامات کی بات تو ہم ابھی کریں گے ہی لیکن اس سے پہلے یہ بھی بتا دیں کہ اس دنیا کا بھی ہر قانون ،بلا مبالغہ اور بلا استثنا ہر قانون ،نہتے انسانوں کو ’’حفاظت خود اختیاری Self Defence میں حملہ آور ،دشمن، ڈاکو اور دہشت گرد سے اپنی حفاظت کا حق دیتا ہے اور اگر اس حق کے استعمال کے دوران اس کے ہاتھوں کسی کی جان بھی چلی جائے تو اسے سزا نہیں ہوتی ۔تعزیرات ہند دفعہ ۳۰۰ کے مستثنیات میں لکھا ہے کہ
Culpable homicide is not murder if the offender ,in the exercise of good faith of the right of private defence of a person or property ,exceeds the power given to him by law and cause the death of that person against whom he is exercising such right of defence without premeditation ,and without any intention of doing more harm than is necessary for the purpose of such defence . یہ اور بات ہے کہ سامراج کے سابق غلام ممالک کا یہ قانون حفاظت خود اختیاری اور اپنے دفاع کے لیے ہر شہری کو اسلحہ رکھنے کا غیر مشروط حق نہیں دیتا ۔بر صغیر کے ایک سابق ڈپٹی کمشنر نے تین سال قبل شایع اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’’ میں نے اپنے چھے سالہ ڈپٹی کمشنری کے زمانے میں کسی ڈاکو ،چور ،لٹیرے ،مفرور مجرم یا تخریب کار (دہشت گرد ) کو اسلحہ لائسنس کی درخواست دیتے ہوئے نہیں دیکھا ۔وہ اپنا یہ حق بزور بازو خود حاصل کر لیتے ہیں اور ہم محض ملک کے شریف شہریوں کو اسلحہ لائسنس کے لیے پولیس تھانوں اور کچہریوں کے چکر لگوا کر رُسوا اور ذلیل کرتے ہیں ۔۔‘‘
جب سے انگریزوں نے یہ اسلحہ ایکٹ ۱۸۷۸ میں بنایا ہے ،شریفوں ،کمزوروں ،اقلیتوں اور
با لخصوص شرفا کا جینا دوبھر ہو گیا ہے ۔اور اب تو جب سے سامراج کے دوستوں ،غلاموں اور چاکروں کی حکومت آئی ہے ، عام دنوں اور عوامی جگہوں پر بھی وہ ہونے لگا ہے جو اس سے قبل صرف فساد ات کے دوران ہوا کرتا تھا ۔ اسی سابق ڈپٹی کمشنر کے لفظوں میں
امریکہ برطانیہ ،سوئیزر لینڈ ،نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا اور امریکہ وغیرہ میں ہزاروں لفنگوں ،غنڈوں اورنسل پرستوں کا جلوس بھی کسی گھر کی کھڑکی یا دروازہ توڑ کر اندر گھسنے کی جرئت نہیں کرتا کہ اسے اندر موجود اسلحے کا خوف ہوتا ہے لیکن صہیونی نصرانی سامراج کا بنایا ہوا ڈیڑھ سو سال پرانا یہ قانون اُس اُمت پر بھی با لجبر نافذ ہے جس کے رسول ﷺ کےوصال کے بعد ان کے گھر میں مال دنیا سے صرف آٹھ تلواریں نکلی تھیں ۔ سید ا لا نبیاﷺ کے اس اصول پر جن قوموں نے عمل کیا وہاں آج امن و آشتی کا راج ہے اور جنہوں نے اسے ترک کر دیا اور اپنے اس نقصان کے احساس سے بھی محروم ہو گئے وہاں آج غنڈوں ،بدمعاشوں ،دبنگوں ،نسل پرستوں ،فرقہ پرستوں ،جاہلوں ،ظالموں اور گھمنڈیوں کا قبضہ ہے ۔
قرآن کریم کے آٹھویں سورے انفال کی ساٹھویں آیت میں حفاظت خود اختیاری کا وہ زَرِّیں اُصول درج ہے جسے ترک کردینے کا بدترین نتیجہ آج بھارت سمیت پوری دنیا میں ہمارے سامنے ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ ’’اور تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ قوت (طاقت حاصل کرو)اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلے کے لیے مُہَیَّا رکھو تاکہ اُس کے ذریعے سے اللہ کے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو اور اُن دوسرے دشمنوں کو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے ( کہ وہ تمہارے دشمن ہیں )خوف زدہ رکھ سکو اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کروگے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹا دیا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہو گا ۔‘‘اس آیہ کریمہ میں ہرگز کسی جارحیت یا جارحانہ اقدامی کارروائی کا حکم نہیں ۔ اس میں صرف حصول قوت کا حکم ہے ۔یہ(امپاورمنٹ Empowerment )جسمانی ،معاشی ،تعلیمی اور اسلحے کی ،سبھی قوتوں کے یکساں اور حسبِ استظاعت حصول پر محیط ہے ۔
گجرات ۲۰۰۲ قتل عام کے دوران ایسے کئی علاقوں اور گاؤں کا تذکرہ ہماری اس زمانے کی تحریروں میں تمام حوالوں کے ساتھ موجود ہے ، جو نسلی صفائے کی اُس یرقانی مہم کے دوران بھی پوری طرح محفوظ رہے تھے ۔صرف اِس لیے کہ اُنہوں نے اپنے گھر گاؤں کو چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کرنے کے بجائے اپنے گھر گاؤں میں رہ کر اپنی حفاظت خود کرنے کا تہیہ کر لیا تھا ۔ نتیجے میں ظالم فسادی ٹولے کی ہمت ہی نہیں پڑی کہ اُدھر کا رُخ کرتا ۔ اُسی دوران چلنے والے ایک مقدمے کی کارروائی ہمارے اُن ہی سابقہ کالموں میں محفوظ ہے کہ کس طرح گجرات کے ایک شہر میں اُن ہی دنوں ایک باپ بیٹے نے حفاظت خود اختیاری میں گولی چلاکر اپنی جان اور اپنی املاک دونوں کو بچا لیا ۔لیکن پولیس نے گرفتار کر کے ان پر دفعہ ۳۰۲ کے تحت مقدمہ ٹھونک دیا ۔ حیرت انگیز تیز رفتاری سے (جو بیشتر مقدمات میں مفقود رہتی ہے ) نچلی عدالتوں نے انہیں سزائے موت دی اور گجرات ہائی کورٹ تک نے اس فیصلے کو برقرار رکھا لیکن مقدمہ سپریم کورٹ پہنچا اور وہ دونوں باپ بیٹے با عزت بری ہو گئے ۔ عدالت عظمیٰ نے اسے قتل عَمَد نہیں حفاظت خود اختیاری میں کیا جانے والا قتل قرار دیا اور قانون میں اس کی کوئی سزا نہیں ہے ۔
آج بھارت سمیت پوری دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ اور مسلمانوں کے خلاف جو انسانیت سوز مظالم ہورہے ہیں اُس کا بنیادی سبب مسلمانوں کی قرآن و سنت سے دوری اور دونوں کو مہجور بنا دینا ہے ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’ جو شخص اپنے اہل و عیال کا دفاع کرتے ہوئے ظلم کے ساتھ مارا جائے وہ شہید ہے ۔جو شخص اپنے ہمسائے کا دفاع کرتے ہوئے ظلم کے ساتھ مارا جائے وہ شہید ہے اور جو شخص خدا کی ذات کے لیے قتل کیا جائے (یعنی صرف اس لیے کہ وہ الہِ واحد و لا شریک کو اللہ مانتا ہے ) وہ بھی شہید ہے ۔(کنز ا لعمال حدیث ۱۱۲۳۸)آپ ﷺ نے فرمایا ’’جو شخص اپنا دفاع کرتے ہوئے جنگ کرے اور مارا جائے وہ شہید ہے (کنز ا لعمال حدیث ۱۱۲۳۶)آپ ﷺنے فرمایا ’’ جو شخص اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا دفاع کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے (کنز العمال حدیث ۱۱۲۰۵) اور صرف یہی نہیں آپ ﷺنے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’ جو شخص اپنے مال کا دفاع کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے (کنز ا لعمال ۱۱۹۷)آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ اپنے مال کا دفاع کرنے کے لیے لڑو یا تو اپنے مال کو بچا لوگے یا پھر قتل کر دیے جاؤ گے ایسی صورت میں آخرت میں شہدا میں شمار ہو گے ( میزان ا لحکمت ج ۵ حدیث ۹۷۹۶) آپ ﷺنے فرمایا’’ جو ظلم کا مقابلہ کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے (میزان ا لحکمت ج ۵ حدیث ۳۱۱۹) آپ ﷺ نے فرمایا کہ بہترین موت یہی ہے کہ انسان اپنے حق کا دفاع کرتے ہوئے مارا جائے (کنز ا لعمال ،علاالدین علی المتقی ابن حسام الدین ۔حدیث نمبر ۱۱۲۰۹)
ہمارے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اور محمد اخلاق سے لے کر علیم الدین انصاری تک ہمارے جو بارہ جوان فرقہ پرستوں اور نسل پرستوں کی یرقانی بھیڑ کے حملے میں ا پنی جان سے گئے ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی کہیں یہ لکھا ہوا نہیں دیکھا کہ اُن میں سے کسی نے بھی اپنی جان و مال کے دفاع میں حملہ آوروں کا مقابلہ کیا ہو یا قاتلوں کے ظالم ٹولے میں سے کسی کو کوئی نقصان پہنچایا ہو !وہ سب کے سب اپنی اپنی جگہ پر اپنے حملہ آوروں کے مقابلے میں صرف مار کھانے کے بجائے اگر اپنے دفاع کا شرعی و قانونی حق ادا کرتے تو بہت ممکن تھا کہ اُن میں سے کچھ بچ بھی جاتے اور جو مارے جاتے وہ یقینی طور پر درجہ شہادت پر فائز ہوتے ۔
ہمارے نزدیک موجودہ حالات کا حل اِس کے سوا اور کچھ نہیں کہ قرآن صرف ہمارے حلق میں نہ اَٹکا رہے بلکہ ہمارے دلوں میں اُتر کر ہمارے عمل میں ڈھل جائے اور رسول کریم ﷺ کا اُسوَہِ حسنہ ہمارے کردار کا زیور بن جائے ! فھل من مدکر ؟