عمر فراہی
کسی نے تقریباً چھ مہینے پہلے اپریل کے مہینے؟میں ہمیں یہ اطلاع دی تھی کہ این ڈی ٹی وی چینل بند ہونے کے کگار پر ہے۔ میں نے پوچھا اس کی وجہ تو کہنے لگے کہ جب سے بی جے پی حکومت آئی ہے اس کے سرکاری اشتہارات کو بہت ہی کم کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے این ڈی ٹی وی کے عملہ کو تین مہینے سے تنخواہیں نہیں دی گئی ہیں۔ اس وقت چونکہ اس خبر کی دوسرے کسی معتبر ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی تھی اس لئےمضمون لکھ کر بھی ادھورا چھوڑنا پڑا لیکن جون کے مہینے میں جب ہم نے یہ خبر پڑھی کہ سی بی آئی نے این ڈی ٹی وی کے ایک ڈائریکٹر پرنے رائے کےگھر پر چھاپا مارا تو ہمارا شک یقین میں بدل گیا کہ جدید سرمایہ دارانہ نظام میں اخبارات اور ٹی وی چینل کو چلانے کیلئے سیاست دانوں کی جی حضوری بھی لازمی ہے۔
این ڈی ٹی وی کے بارے میں مشہور ہے کہ اس چینل نے اپنے انصاف پسند اور روادارانہ کردار کو قائم رکھا ہوا ہے۔ خاص طور سے حالات حاضرہ پر رویش کمار کے بے لاگ تبصرے سے ریاستی دہشت گردی کا جو انکشاف ہوتا رہا ہے حکومت اسے کبھی برداشت نہیں کرسکتی۔ روہت وومیلا، کنہیا کمار، اخلاق ، بھوپال فرضی انکاؤنٹر اور نجیب کے خلاف ناانصافی اور زیادتی کو رویش کمار نے جس بے باکی سے اٹھایا ہندوستانی میڈیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔شاید اسی جرات مندانہ قدم کی وجہ سے موجودہ حکومت نےاین ڈی ٹی وی کے ایک دن کے نشریات پر پابندی بھی لگانے کی کوشس کی تھی لیکن سرکار کو اپنے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا۔ بہت ہی افسوس کی بات ہے 1947 سے قبل جب ہم نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کی تھی تو اس تحریک کا اصل نصب العین ہی یہ تھا کہ سرکاریں جو عوام پر ظلم کرتی ہیں عوام آزادانہ طور پر اس کے خلاف احتجاج اور مظاہرہ کر سکیں ۔
شروع کے دور میں ایسا محسوس بھی ہوا کہ جمہوریت کے عروج میں آنے کے بعد عوام رفتہ رفتہ اپنے اس نصب العین کو حاصل بھی کرلے گی۔ لیکن اندرا گاندھی نے ستر کی دہائی میں ایمرجنسی نافذ کرکے جمہوریت کی دیوی پر داغ لگا دیا۔ہندوستانی جمہوریت میں ایمرجنسی کا دور ہی ایک ایسا سنگ میل ہے جس کے بعد بدعنوانی اور لاقانونیت کا دور شروع ہوگیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔
1947 اور 1980 کے دوران ہندوستان جس طرح تبدیل ہوتا رہا اس تبدیلی سے ملک کا جو نقصان ہوا اور ہورہا ہے وہ ایک الگ گفتگو کا موضوع ہے۔ پندرہ سے بیس کروڑ مسلمان جنھوں نے آزادی کے بعد پاکستان پر ایک ہندو اکثریت والی ریاست ہندوستان کو ترجیح دی اس کا اپنامستقبل بھی دھندلا نظر آنے لگا اور اب 2017 میں ملک کا مسلمان اس پس وپیش میں ہے کہ کیااس کی آنے والی نسل اپنے ایمان اور عقیدے کو بھی محفوظ رکھ پائےگی ؟ دنیا کے حالات خاص طور سے پاکستان افغانستان اورمشرق وسطیٰ کے مسلمانوں میں جو احیاء اسلام کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں ہر طرف سے گھرا ہوا ہندوستان کا مسلمان اپنا سارا وقت ان تحریکوں کی مذمت میں سرف کر رہا ہے تاکہ ملک میں وہ آرایس ایس اور اسلام مخالف لبر ل طاقتوں کے عتاب کا شکار نہ ہو۔مشکل یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے مذمت کرنے سے کسی علاقے کا مسلمان اپنے حق کی جدوجہد تو نہیں ختم کردےگا، ہاں مسلمانوں کو خود آگے بڑھ کر برادران وطن میں اپنے طور پر اپنے رابطے سے بہتر اخلاق اورصالح کردار کا مظاہرہ ہی اس کا حل ہے۔ بدقسمتی سے اخلاق و کردار اور ایمان و یقین کے جس سرمائے سے وہ برادران وطن کو متاثر کرسکتا تھا اس نے خود کو قومی دھارے کی مادی سوچ اور فکر میں شامل کرکے خود کو اسلامی غیرت اور حمیت سے بھی محروم کر لیا ہے۔
ہم بات کر رہے تھے میڈیا کی کہ جب ایک ہندو اور سیکولر چینل حق بات کہنے کی وجہ سے خطرات سے دوچار ہوسکتا ہے تو یہی بات مسلمانوں کے کسی میڈیا کی طرف سے کیسے برداشت کی جائے گی۔ پہلی بات تو یہ کہ مسلمانوں کا کوئی الیکٹرانک چینل نہیں ہے اور اب ہو بھی نہیں سکتا۔ آپ کہیں گے کیوں ؟ تو ہمارا جواب یہ ہے کہ چندوں کی رقومات سے مدرسے تو سنبھل نہیں رہے ہیں الیکٹرانک میڈیا نےتو اب ایک چھوٹی موٹی ریاست کا درجہ حاصل کرلیا ہے، جسے منظم طریقے سے چلانے کیلئے ہر سال سیکڑوں کروڑ کے بجٹ کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اور اب لیجئے این ڈی ٹی وی کے اسی فیصد شیئر دو سو کروڑ روپئےمیں فروخت ہو گئے ہیں ۔
کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ بہت سارے مسلم سرمایہ دار کے پاس بھی اتنی رقم تھی چاہتے تو خرید لیتے۔ بات تو صحیح ہے خریدا جاسکتا تھا لیکن پھر تو وہی لو جہاد کا بکھیڑاہوجاتا کہ این ڈی ٹی وی کو مسلمان بنا لیا گیا ہے اور یہ ایک دہشت گرد چینل ہے۔ پھر کون اس مسلمان میڈیا کی بات پر اعتبار کرتا۔ سچ تو یہ ہے کہ ملک کے موجودہ ماحول میں مسلمانوں کی اصلی طاقت ہندو صحافی ہی ہیں ۔ رویش کمار جب تک ہندو رہ کر آواز اٹھاتے ہیں لوگوں میں سنے جاتے رہیں گے۔ کنہیا کمار ہندو ہے اس لیے اس کی باتوں کو اہمیت دی جاتی ہے مگر اتنی ہی دلچسپی سے شہلا رشید اور عمر خالد کو نہیں سنا جاتا۔ یہ بات کنہیاکمار نے بھی اپنی ایک تقریر میں کہی ہے کہ ملک کو اس قدر فرقہ وارانہ ماحول میں تبدیل کر دیا گیا ہے کہ وہی بات جو میں کہہ رہا ہوں خالد عمر اس لیے کہنے کی جرات نہیں کرسکتا کیونکہ وہ مسلمان ہے۔
بھائی ایس ایم مشرف کو آخر ہیمنت کرکرے پر اور کتنی جامع تحقیق پیش کرنےکی ضرورت تھی ؟لیکن الیکٹرانک اور قومی میڈ یا میں اس کتاب کو اس لیے موضوع نہیں بنایا گیاکیونکہ مشرف مسلمان ہیں ۔ اب سوال یہ اٹھتا ہےکہ ہندوستان میں مسلمان اگر ایک الیکٹرانک میڈیا قائم بھی کر لیتے ہیں تو بھی اس مسلمان میڈیا کے شور شرابے پر یقین کون کرے گا اور کیا یہ میڈیا اتنا آزاد ہوگا کہ وہ اپنی آزادانہ تحقیقی رپورٹ پیش کر سکے۔