-
آرامکو پر حملے، امریکی ڈیفنس سسٹم کیا کر رہا تھا؟
- سیاسی
- گھر
آرامکو پر حملے، امریکی ڈیفنس سسٹم کیا کر رہا تھا؟
1071
M.U.H
21/09/2019
0
0
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
سعودی عرب پچھلے کئی سالوں سے مسلسل یمن پر بمباری کر رہا ہے، سعودی جہاز نہتے یمنیوں کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں۔ ہسپتال، مساجد، شادی کی تقریبات، عوامی اجتماعات، سکول غرض کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ دوسری طرف یمن کی مکمل ناکہ بندی کی ہوئی ہے، یمن کے ائیر پورٹس بند ہیں، کوئی چیز بائی ائیر یمنیوں تک نہیں پہنچائی جا سکتی۔ سمندری ناکہ بندی جاری ہے اور یہ اتنی شدید ہے کہ کوئی چیز یمن منتقل کرنا ایک خواب ہی ہے۔ اسی طرح تمام بارڈرز پر سعودی اتحاد کے پہرے ہیں۔ اس پر اضافہ ٹیکنالوجی کی مدد سے ڈرونز کے ذریعے ہر جگہ کی نگرانی کی جا رہی ہے، جن کی موجودگی میں کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ اس سب کے باوجود یمن کے غیور عوام مقاومت کی عظیم الشان مثالیں قائم کر رہے ہیں، دیو ھیکل ٹینکوں کے مقابل قوت ایمانی سے بند باندھے کھڑے ہیں۔ عرب دنیا کے اس غریب ترین ملک کے یہ سر پھرے اب صرف سعودی عرب، امریکہ اور اس کے تمام اتحادیوں کے لے سر درد بنتے جا رہے ہیں۔ شروع شروع میں انہوں نے نجران اور آس پاس کے علاقوں پر ڈرون حملے شروع کیے، جو آہستہ آہستہ بڑھتے چلے گئے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ یمنی ڈرون سات آٹھ سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے سعودی عرب کے اندر اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
جب سعودی طیارے مسلسل کئی سال تک یمنیوں کو نشانہ بناتے رہے تو سب خاموش تھے۔ نہ دنیا کے امن کو خطرہ تھا، نہ عالم اسلام خطرے میں تھا، اب جب یمنیوں نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر ڈرون صلاحیت حاصل کر لی اور تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں تو اب ہر چیز خطرے میں ہے۔ ابھی آخری حملے کو ہی دیکھ لیں، جو آرامکو کی بقیق اور خریص آئل فیلڈز میں کیے گئے ہیں، یہ حملے اس قدر شدید تھے کہ آرامکو کی پیداوار پچاس فیصد تک گر گئی اور دنیا کو کی جانے والی کل سپلائی بھی پانچ فیصد کم ہوئی۔ اس کا اثر فوری طور پر تیل کی قیمتوں پر ہوا، جو ایک ہی دن میں 19 فیصد تک بڑھ گئیں۔ یہ 1988ء کے بعد ایک دن میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ تھا۔ حسب عادت امریکی وزیر خارجہ نے ایران پر الزام لگا دیا، بغیر تحقیق کے لگائے اس الزام کو دنیا نے سنجیدہ نہیں لیا۔ امریکی صدر نے حسب عادت دھمکی آمیز لہجہ جس سے سعودی بادشاہت خوش ہو، اپنائے رکھا اور بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکہ ایران پر حملے کا خرچہ اور جواز سعودی عرب سے لینا چاہتا ہے۔
اس حملے کی ذمہ داری یمن کی حوثی افواج نے فوراً قبول کر لی اور اسے اپنے نہتے شہریوں پر ہونے والی بمباری کا ردعمل قرار دیا۔ امریکی اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ یہ حملہ ایران نے کیا ہے اور اب ایک نقشہ بھی جاری کیا ہے کہ کس طرح ایران سے یہ ڈرون اڑے اور اپنے اہداف تک پہنچے۔ سیانے لوگ کہتے ہیں کہ جو ہتھیار میدان میں نہ چل سکے، گھر میں چلے تو اسے اپنے سر پر چلا لینا چاہیئے۔ یہ جو اب نقشے جاری ہو رہے ہیں اور تجزیئے کیے جا رہے ہیں کہ ڈرون یہاں سے اڑے اور وہاں سے اڑے، اس کا کیا فائدہ؟ تمہاری ٹیکنالوجی اتنی تیز ہے تو ڈرون کو حملہ ہی نہ کرنے دیتے اور تباہ کرتے، وہ مشرق سے اڑے یا مغرب اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ امریکیوں نے عجیب لاجک دی ہے کہ ہمارے دفاعی نظام کا رخ یمن کی طرف تھا اور یہ ڈرون دوسرے طرف سے آگئے، اگر یہ یمن کی طرف سے آتے تو یہ حملہ کبھی کامیاب نہ ہوتا۔
سعودی عرب کو سمجھنا ہوگا کہ جو ڈیفنس سسٹم انہیں اربوں ڈالر کا چونا لگا کر بیچا گیا ہے، ایک بیکار سسٹم ہے، جو اس کا دفاع کرنے میں ناکام رہا۔ لہذا امریکہ پر اعتماد چھوڑ کر دوسرے آپشنز پر غور کرے۔ امریکیوں کی چالاکی دیکھیں، وہ اس موقع سے بھی کاروباری فائد اٹھانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے کہا کہ اس ڈیفنس سسٹم کا رخ یمن کی طرف یعنی اب خطرہ دوسری طرف سے ہے تو ایک اور ڈیفنس سسٹم کی ضرورت ہے، جو سعودی پیسے سے امریکہ فراہم کر دے گا۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ حملہ حوثیوں نے نہیں کیا، اب امریکہ تو ایران پر الزام عائد کر رہا ہے، جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر یہ حملے حوثیوں نے نہیں کیے تو کون کرسکتا ہے؟ اس حوالے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ تیل مافیا بہت پریشان تھا کہ تیل کی قیمتیں بہت نیچے جا چکی تھیں اور مزید جا رہی تھیں، کیونکہ ماہرین نے موجود قیمتوں کو بھی بازار کے اصول کے مطابق زیادہ قرار دیا تھا۔ اس مافیا کو ایک ڈالر قیمت کم ہونے سے اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے اور اسی طرح زیادہ ہونے سے فائدہ ہوتا ہے،اس لیے یہ گروہ اپنے مالی مفادات کے لیے مافیا کی مدد لے سکتا ہے۔
کیا امریکہ یہ حملے کروا سکتا ہے؟ اگر عسکری تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو بڑے مقاصد کے حصول کے لیے اتحادیوں کیا، اپنے ہی ملک پر حملے کروانے کے واقعات مل جاتے ہیں۔ عسکری ماہرین کے مطابق جب فضائی نگرانی کا پورا نظام امریکی سرپرستی میں چل رہا ہے اور امریکہ نے جدید ترین وسائل مہیا کیے ہیں، خلیج میں ہر چوک پر امریکی بحری بیڑے کھڑے ہیں، جو خطے میں جنگی ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ڈرونز کا پورا جتھہ سینکڑوں کلومیٹر سعودیہ کے اندر جا کر حملہ کر دے اور امریکیوں کو پتہ ہی نہ چلے۔ اگر یہ امریکہ نے نہیں کرائے تو امریکہ ڈیفنس سسٹم ایک ناکارہ سسٹم ہے اور امریکی ٹیکنالوجی ایک ناکام ٹیکنالوجی ہے۔ ویسے سعودی عرب کو سوچنا ہوگا کہ کہیں اس کے ساتھ ہاتھ تو ہو رہا؟ اسرائیل کو جو ڈیفنس سسٹم ملا ہے، وہ اس قدر طاقتور ہے کہ جہاز تو چھوڑیں فلسطینی پتنگ بھی بارڈر پر چھوڑتے ہیں تو وہ الرٹ ہو جاتا ہے، مگر یہاں تو انیس ڈرون میزائلوں سے لیس ہو کر آئے اور تباہی کر دی، مگر امریکہ بہادر کو پتہ ہی نہیں چلا۔
عبدالمالک الحوثی نے درست کہا تھا کہ سمندر تمہارے پاس ہے، ہوا تمہارے پاس ہے، بارڈرز تمہارے پاس ہیں، اسلحہ اور دنیا کی بڑی طاقتیں تمہارے ساتھ ہیں، مگر اس سب کے باوجود تم ناکام ہو تو جان لو کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اس واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر ایک کمپین بالکل درست چلائی گئی کہ سعودی عرب پر حملہ یمنیوں اور سعودی عرب کا داخلی معاملہ ہے، اسے امت کا مسئلہ نہ بنایا جائے۔ جب کشمیر کے مسئلہ پر سعودی اور اماراتی ہمیں لیکچر دینے آجاتے ہیں کہ امت کا مسئلہ نہیں ہے تو سعودی عرب پر حملہ بھی امت کا مسئلہ نہیں ہے، اگر امت کو کچھ کرنا چاہیئے تو وہ یمن میں سعودی مظالم کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)