-
اردو اخبارات کے مدیران سے کچھ کھری کھری باتیں
- سیاسی
- گھر
اردو اخبارات کے مدیران سے کچھ کھری کھری باتیں
1828
m.u.h
12/03/2019
1
0
محمد علم اللہ
ہندوستان کی اردو صحافت پر مایوسی اور نا امیدی کا غبار چھایا ہے، اب تو اردو اخبار دیکھ کر واقعی گھن آنے لگی ہے۔ وقفے وقفے سے دردمند احباب اس کا شکوہ کرتے رہتے ہیں ، ہر روز ایک نیا جہان تعمیر کرنے کے دعوے کے ساتھ کوئی نہ کوئی اخبار نکلتا ہے لیکن وہی ڈھاک کے تین پات والی بات ہے۔ مجھے نہیں پتہ یہ اردو کے قارئین کی وجہ سے ایسا ہے یا اخبار والوں نے اپنے قارئین کو واقعی احمق سمجھ رکھا ہے؟ بلا شبہ اردو اخبارات صحافت کی آبرو ہیں۔ وقت کے لحاظ سے ان میں تنوع بھی آیا ہے اور مثبت تبدیلی بھی، لیکن معیار کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ترقی کی بجائے تنزلی کا احساس ہوتا ہے۔
اس حوالہ سے متعدد مرتبہ میں نے اپنے مضامین اور کالم کے علاوہ براہ راست فون پر بھی اس حوالہ سے جملہ ذمہ داران کو توجہ دلاتا رہا ہوں۔ شاید ان لوگوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ اپنی خو نہیں بدلیں گے چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ شاید اسی لئے اُردو کے ایک بزرگ ادیب نے کہا تھا کہ اردو اخبارات دیکھ کر اب متلی آتی ہے۔جب کبھی میں اردو کا کوئی بھی اخبار دیکھتا ہوں تو سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ کیا یہ وہی اردو اخبارات ہیں جن کا ایک شاندار و یادگار ماضی رہا ہے۔ اسی احساس کے تحت میں یہ مضمون رقم کر رہا ہوں۔ اپنے قارئین سے تو میں روزانہ بات کرتا ہوں ، مگر آج میرے مخاطب اردو اخبارات کے مدیران ہیں ، امید کہ وہ اس جانب توجہ فرمائیں گے اور یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اردو کا ایک قاری ان سے کیا توقع رکھتا ہے۔ میری رائے کے مطابق چند اصلاحات ازحد و ازبس ضروری ہیں جن کی طرف توجہ مرکوز کی جانی چاہیے۔
*****
(**) اس وقت مسلمانوں میں بے چینی، اضطراب اور بے قراری کا عالم ہے، مسلمان کافی پریشان ہیں۔ ایسے نازک اور پیچیدہ ماحول میں صحافت کو کافی سوجھ بوجھ کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ عام طور پر اردو اخبارات جذباتیت کے جلد اور زیادہ شکار ہو جاتے ہیں،جس کی وجہ سے معروضیت کا گلا گھٹنے کا احساس بھی عام ہو جاتا ہے۔ بڑی تمنا ہے کہ اردو اخبارات کے مدیران سنجیدہ اور دانشمندانہ صحافتی مواد کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔
(**) ماضی قریب میں شدت کے ساتھ میں نے محسوس کیا ہے کہ اردو اخبارات سے رپورٹنگ غائب ہوتی جا رہی ہے۔ اردو اخبارات کے ذمہ داران اُن تجزیوں اور تبصروں کو ہی بدقسمتی سے اصل صحافت سمجھ بیٹھے ہیں، جن میں احوال و واقعات کی یک رُخی تصویر پیش کرتے ہوئے مفاداتِ خصوصی کے حصول کی کوشش کی اور کروائی جاتی ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ مدیران رپورٹنگ پر توجہ دیں اور زمینی حقائق پر مشتمل رپورٹوں کو اپنے اخبارات میں جگہ دیں۔
مکمل مضمون:
https://www.taemeernews.com/2019/03/salient-ideas-for-urdu-newspapers.html
(**) آج کل اردو اخبارات صرف پریس نوٹس اور جلسے/ جلوس کی یکطرفہ رپورٹوں کوبنا پڑھے اور ادارتی عمل سے گذارے شائع کر رہے ہیں۔ خصوصی اسٹوریز کے زیرِعنوان بھی سیاسی قائدین کے بیانات یا پھر سیاسی جماعتوں سے جڑی خبروں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ماضی میں اردو اخبارات پڑھ کر امیدوار سیول سرویسز کے امتحانات میں کامیاب ہوتے تھے، کیونکہ انہیں اردو اخبارات کے ذریعے وہ خزانہ فراہم کیا جاتا تھا جو دیگر زبانوں میں نہیں ملتا تھا۔ (اب عالم یہ ہے کہ سول سروس کے امتحان میں کامیابی کی تمنا رکھنے والے اگر اردو اخبارات کی قرات تک خود کو محدود رکھیں تو ان کی ناکامی کی ضمانت دی جا سکتی ہے)۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ ماضی کے اس پیشہ ورانہ معمول کا احیا ہو جاتا۔
(**) اردو اخبارات کی خبریں، خبر کم اور تبصرہ زیادہ معلوم ہوتی ہیں۔ گویا نمائندہ یا مدیر پہلی نظر میں ہی خبر کو تنقیدی نگاہ سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ جبکہ تبصرہ یا تنقید کیلئے اداریہ کا صفحہ موجود ہے یا مضامین کا سیکشن۔ اکثر اردو اخبارات بے بنیاد موضوعات و مضامین قارئین پر تھوپ دیتے ہیں، جبکہ ادارہ یا انتظامیہ کو چاہیے کہ اپنی مرضی مسلط کرنے کے بجائے قارئین کو اختیار دیں کہ وہ موضوعات کا انتخاب کر سکیں، اپنی رائے دے سکیں۔
(**) خبروں کو زبردستی کلمہ پڑھوا کر مسلمان بنانے کے مزاج کو ختم کیا جانا چاہیے، ساتھ ہی خبروں اور دیگر مواد کی اشاعت میں سرقہ کے کلچر کو ختم کر کے تخلیقیت اور محنت کا رجحان، اخبار سے وابستہ ہر صحافی میں پیدا کرنے کی ضرورت درپیش ہے۔
(**) بیشتر اردو اخبارات کا مواد اور بطور خاص ادارتی صفحہ پاکستانی نقطۂ نظر والے متن کا سرقہ یا چربہ ہوتا ہے۔ جبکہ ضروری امر یہ ہے کہ ہندوستان اور ہندوستانیوں کے معاملات و مسائل سے قاری کو زیادہ اور بہتر طورپر واقف کرایا جائے۔ جن قارئین کو پڑوسی ملک کے نقطہ نظر یا وہاں کے مسائل سے واقفیت میں دلچسپی ہو گی؛ وہ وہاں کے اخبارات کے ویب ایڈیشن سے خود استفادہ کر لیں گے۔
(**) ان دنوں اردو اخبارات کی زبان بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے۔ الم غلم مواد شائع کیا جا رہا ہے۔ نہ کوئی معیار ہے اور نہ کوئی پیمانہ۔ انگریزی الفاظ اور ہندی لہجے کے استعمال کی کثرت سے اہل زبان کا ذائقہ بگڑ رہا ہے۔ جملوں کی ساخت کو درست کرنے کے ساتھ ساتھ ہندی الفاظ و تراکیب کے استعمال سے پرہیز کی سخت ضرورت ہے۔ ترجمہ شدہ خبروں کی تعداد میں کمی اور ترجمہ کے معیارکو بلند کرنے پر بھی خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔
(**) جن اردو داں احباب کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے، وہی لوگ اپنی کمیونٹی/ادارہ سے وابستہ افراد کا ہر سطح پر استحصال کرتے نظر آتے ہیں۔ یعنی اردو سے متعلقہ اداروں میں ملازمین پر سختی اور ان سے ناانصافی کی روایت بڑی پرانی ہے۔ ذمہ دارانِ ادارہ اپنے ہی ملازمین کے حقوق کو اپنی جوتیوں تلے روند دیا کرتے ہیں، ان کے مسائل کے حل کی کوشش نہیں کرتے، کم اجرت پر زیادہ کام کرانا چاہتے ہیں جب کہ اسی کام کیلئے دوسری زبانوں اور کمیونٹی کے افراد کو زیادہ اجرت اور سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ کاش ہمارے مدیران اس پر بھی سنجیدگی سے سوچتے۔
(**) عمدہ اور پیشہ ورانہ مضامین لکھنے والے قلمکاروں کی ٹیم بنائیں، اس ٹیم کے ارکان مناسب معاوضہ کی ادائیگی کے عوض ایسے تحقیقی و تجزیاتی مضامین ادارہ کو فراہم کریں کہ جن کی اشاعت سے روزنامہ اخبار کی قدر و منزلت بڑھنا یقینی ہو۔ بالخصوص مفت میں لکھوانے کے کلچر کو ختم کیا جانا چاہیے۔ اس سے نہ صرف معیاری صحافت کو فروغ ملے گا بلکہ جو صحافی سنجیدگی سے لکھ رہے ہیں اور جو کچھ بھی لکھ رہے ہیں، حقیقتاً خلوص اور دیانتداری سے لکھیں گے اورنتیجتاً قابل تحسین اردو صحافت تخلیق پائے گی۔
(**) عمومی طور پر یہ مشہور ہے کہ اردو اخبارات مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جبکہ اس طرزِ فکر سے ہٹ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ اُردو اخبارات کو کیسے غیر مسلم اردو داں طبقہ تک پہنچایا جائے؟ اس کیلئے جن وسائل کی ضرورت ہو انہیں کو بروئے کار لایا جائے۔ ہفتہ وار 'اسلامی سپلیمنٹ' کا عنوان تبدیل کیا جانا چاہیے۔ مذہب و روحانیت یا مذہب و اخلاقیات جیسے عنوانات کے ذریعے غیرمسلم طبقے تک پہنچنا زیادہ بہتر اور موثر حکمت عملی ہوگی۔ علاوہ ازیں دیگر مذاہب کی اچھائیوں، ان کی کتب اور شخصیات و رہنماؤں کا مختصر و مفید تعارف بھی ہر طبقے کے قاری کے لیے کارآمد ثابت ہوگا۔
(**) اردو اخبارات کا مزاج بن چکا ہے کہ وہ ہر معاملے میں ملت، ملی قائدین، نام نہاد مذہبی پیشواؤں اور مولویوں کی یکطرفہ حمایت کرتے ہیں نیز ان کی کمیوں اور کوتاہیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف کسی ایک مخصوص حصے کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
کسی بھی فرد یا ادارہ کے ہر جائز و ناجائز اقدامات کی جانے انجانے طریقے سے تعریف اور حوصلہ افزائی کا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے خامیاں یا لغزشیں سامنے نہیں آ پاتیں اور نتیجتاً متعلقہ فرد یا ادارہ اور قاری کسی غلط کام کو بھی درست سمجھ بیٹھتا ہے۔
اس رویے کی درستگی کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو دوسرے رخ کے بارے میں بھی بتایا جائے اور اس حوالے سے خصوصاً ملی تنظیموں، مدرسوں، مسلم اداروں کا دیانتدارانہ احتساب کیا جائے، ان سے سوال پوچھے جائیں۔ زکوۃ، فطرے، خم اور وقف املاک کے اسراف کے بارے میں بھی ان سے دریافت کیا جائے۔ ملت کے اندر پائی جانے والی کمیوں اور خامیوں کی نشاندہی اور بازپرس وقت کا اولین تقاضا بھی ہے۔
(**) برقی و مواصلاتی ہوشربا ترقی کے موجودہ عہد میں، اپنی ویب سائٹ پر اکثر اردو اخبارات، اخباری صفحات کی امیج فائل ہی پیش کر رہے ہیں۔ ای۔پیپر کی اشاعت اپنی جگہ اہم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اخبار کی ویب سائٹ کے اردو یونیکوڈ ورژن کا اجرا بھی یقینی اہمیت رکھتا ہے جس کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر اردو داں قارئین و صارفین کے ایک وسیع حلقے تک رسائی ممکن ہے۔
(**) علمی، ادبی، سماجی، سائنسی، برقی و مواصلاتی شعبہ جات میں سنجیدگی سے برسرکار قابل مگر گمنام شخصیات کے انٹرویوز کی اشاعت کو ترجیح دی جائے،نیز اس ضمن میں بیرون ممالک کے افراد کو اگر اہمیت دی جائے تو اردو میں ایک نئی روایت کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اس طریقے سے جہاں انٹرویو دینے والے افراد کی ہمت افزائی ہوگی وہیں اردو داں حلقے کو اس بات کا علم بھی ہو سکے گا کہ دنیا میں کیا کیا نیا ہو رہا ہے۔
(**) ٹکنالوجی سے جڑی ہوئی خبریں بھی اردو اخبارت میں نمایاں طور پر شائع نہیں ہوتیں۔ کس ہارڈ وئیر یا سافٹ ویر کے کیا فائدے ہیں؟ کونسے ایپ سے کیا فائدہ یا نقصان ہوگا؟ کون سی ڈیوائسز مارکٹ میں آنے والی ہیں؟ ایسی خبریں عموماً یا تو اُردواخبارات میں شائع نہیں ہوتیں یا پھر دیگر زبانوں میں شائع ہونے کے بعد ہی انہیں اردو اخبارات میں جگہ ملتی ہے۔ اس سے بہتر انداز میں ابلاغ بھی نہیں ہو پاتا حالانکہ براہ راست اردو میں ایسے لکھنے والے افراد موجود ہیں۔
*****
یہ چند گذارشات اور معروضات اردو اور مدیران سے محبت کی بنیاد پر پیش خدمت ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ اگر کچھ یا تمام باتیں اچھی لگیں تو ان پر عمل کی ممکنہ کوشش ہوگی۔