-
سویڈن کی کھلی اسلام دشمنی
- سیاسی
- گھر
سویڈن کی کھلی اسلام دشمنی
332
m.u.h
01/07/2023
0
0
تحریر: فاطمہ محمدی
ایک بار پھر دنیا کے ڈیڑھ ارب انسانوں کی نظر میں مقدس آسمانی کتاب کو نذر آتش کیا گیا۔ وہ بھی اکیسویں صدی میں اور اتفاق سے ایسے ملک میں جو خود کو دنیا میں امن، انسانی حقوق اور ڈیموکریسی کے اہم ترین مراکز میں سے ایک گردانتا ہے۔ سویڈن میں قرآن کریم کو ٹھیک عید سعید قربان کے دن نذر آتش کئے جانا ایک گہری دشمنی اور نفرت کی علامت ہے جو انتہائی اشتعال آمیز اقدام بھی ہے۔ اس واقعہ کا تمسخر آمیز پہلو یہ ہے کہ متعدد بار قرآن کریم کی بے حرمتی سویڈن کی پولیس کے سامنے انجام پائی ہے گویا پولیس قرآن کریم کو نذر آتش کرنے والے شخص کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے وہاں موجود تھی تاکہ کوئی اسے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچا سکے۔ اس بار قرآن کریم کی بے حرمتی کرنے والا ملعون شخص عراق اور سویڈن کی دہری شہریت کا حامل ہے۔
اس 37 سالہ ملعون کا نام سیلوان مامیکا ہے۔ اس نے اسٹاک ہوم شہر کے مرکز میں جامع مسجد کے سامنے میڈیور چوک میں یہ خباثت انجام دی جبکہ وہاں 200 کے قریب افراد بھی موجود تھے۔ وہاں موجود افراد میں بڑی تعداد اس مذموم اقدام کے خلاف اعتراض بھی کر رہی تھی۔ سویڈن کی پولیس نے ابتدا میں اس شخص کو مسجد کے سامنے اپنے بقول احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دی لیکن بعد میں عدالت نے اس کے حق میں فیصلہ سنایا اور قرآن کریم کی بے حرمتی جیسی گھٹیا حرکت کو آزادی اظہار اور ڈیموکریسی کی ضامن قرار دیا۔ مزید برآں، عدالت نے پولیس کو اس ملعون کی حفاظت کیلئے جائے وقوعہ پر موجود رہنے کا حکم بھی دیا۔ البتہ سویڈن کی پولیس نے بھی دوغلا رویہ اختیار کر رکھا تھا۔ یہ سب کچھ ایسے ملک میں ہوا ہے جس کی 1 کروڑ آبادی میں سے 6 لاکھ شہری مسلمان ہیں۔
سویڈن پولیس نے ایک طرف خبردار کیا کہ مذکورہ بالا اقدام ملک کی خارجہ سیاست کیلئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ وضاحت بھی پیش کی کہ قرآن کریم کو نذر آتش کرنا اتنا بڑا اقدام نہیں کہ اس کی خاطر احتجاج کی اجازت نہ دی جائے۔ سویڈن کے وزیراعظم الف کریسٹوشن نے گول مول بیان دیتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم کو نذر آتش کرنے کے ذریعے احتجاج کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار پولیس کے پاس ہے۔ یوں اس نے خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے اس افسوسناک واقعہ کی مذمت کرنے سے جان بھی چھڑا لی اور ایسا انداز اپنایا کہ اس کی حمایت بھی ظاہر نہ ہو۔ اسی وجہ سے اس نے اس سانحہ کو "قانونی" بھی قرار دیا اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ ضروری نہیں ہر قانونی اقدام مناسب بھی ہو۔
امریکہ کی وزارت خارجہ نے سویڈن میں قرآن کریم کی بے حرمتی کو اذیت ناک اور توہین آمیز قرار دیا ہے لیکن اس کے ممکنہ اثرات اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ سویڈن یورپی یونین کا رکن ملک ہے جو اتفاق سے اس یونین میں عالمی امن، ڈیموکریسی اور انسانی حقوق کا سب سے بڑا حامی ہونے کا دعویدار ہے۔ اس بار بھی یورپی یونین حکام کی جانب سے کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا۔ موجودہ شواہد سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ مغربی حکمرانوں میں نہ صرف مسلمانوں کے مذہبی مقدسات کی بے حرمتی کا کوئی مخالف نہیں بلکہ کچھ حد تک اس کی حمایت ضرور پائی جاتی ہے۔ یورپی اور امریکی ذرائع ابلاغ کی جانب سے بھی اس گھناونے عمل پر ردعمل کا انداز قابل غور ہے۔
ایک تو مغربی ذرائع ابلاغ کی اکثریت نے اس افسوسناک واقعہ کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے اسے بے اہمیت ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ دوسرا جن محدود ذرائع ابلاغ نے اس واقعہ کی خبر پیش کی انہوں نے انتہائی معنی خیز انداز میں قرآن کریم کی بے حرمتی کرنے والے شخص کو عراقی ظاہر کیا۔ اسی طرح ان ذرائع ابلاغ نے بعض افراد کی جانب سے اس ملعون کی جانب پتھر پھینکے جانے کو ایک غلط اور شدت پسندانہ فعل قرار دیا۔ ترکی کے بعض ذرائع ابلاغ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس توہین آمیز اقدام کے بدلے نیٹو میں سویڈن کی رکنیت کی مخالفت کرے۔ یہ مطالبہ ایسے اخبار میں پیش کیا گیا ہے جو بائیں بازو کا تصور کیا جاتا ہے اور عبداللہ گل، احمد داود اوگلو اور علی بابا جان سے قریب سمجھا جاتا ہے۔
امریکی اور یورپی یونین کے حکمرانوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونے پر پراسرار انداز میں چپ سادھ رکھی ہے۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی دنیا میں آج تک عیسائیوں یا یہودیوں کی مقدس کتاب کو نذر آتش نہیں کیا گیا اور ان کی بے حرمتی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ گویا دین سے متعلق مغرب کے انسانی حقوق کے معیارات دوغلے ہیں۔ ان دوغلے معیارات کے تحت اگر اسلامی مقدسات کی توہین کا مسئلہ ہو تو اسے آزادی اظہار اور انسانی حقوق کی آڑ میں جائز قرار دیا جاتا ہے لیکن جب دوسرے مذاہب جیسے عیسائیت اور یہودیت کے مقدسات کی بات ہوتی ہے تو دینی اقدار کے احترام کو لازم قرار دیا جاتا ہے اور ان مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف اشتعال آمیز اقدامات سے پرہیز کرنے کی بات ہوتی ہے۔