-
سر اٹھاتا نیشنلزم اور کمزور ہوتی جمہوریت
- سیاسی
- گھر
سر اٹھاتا نیشنلزم اور کمزور ہوتی جمہوریت
434
m.u.h
25/08/2022
0
0
تحریر:گنیش دیوی
ویسے تو 19ویں صدی سے پہلے ہی کچھ ممالک میں ’نیشنلزم‘ اور ’جمہوریت‘ کو مقامی طور پر متعارف کیا جانے لگا تھا، لیکن یوروپ میں ان الفاظ نے فرانس کے انقلاب کے بعد ہی ایک واضح اصولی سائز لینا شروع کیا۔ آغاز میں ’ملک‘ کا مطلب لوگوں سے تھا۔ اٹلی اور جرمنی میں نیشنلزم کے لیے ہوئی تحریکوں کے بعد ’نیشن‘ یعنی ملک کا دائرہ بڑھا اور اس میں خصوصاً لوگوں کے ماضی اور ان کے مستقبل سے متعلق حکایات کو شامل کیا گیا۔ ایک طویل مدت کار میں ماضی کو یادداشت میں بنے رہنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ وہ دھیرے دھیرے ’متھ‘ افسانوی شکل اختیار کرنے لگتا ہے اور ایک وقت کے بعد وہ غیر مدلل طور سے کند اور لوگوں کی سوچ کے حساب سے بدل جاتا ہے۔ ماضی کے برعکس مستقبل کا پھیلاؤ ابدیت تک ہوتا ہے۔ فطری طور سے اس کی شکل کا خاکہ کھینچنا تصور کے لیے چیلنجنگ ہوتا ہے اور اس طرح لوگوں کے دل و دماغ میں یہ ان کی اجتماعی قسمت کے لیے ایسا رول ماڈل بن جاتا ہے جو صرف خیالات میں رہ سکتا ہے، حقیقت میں نہیں۔
20ویں صدی کے دوران لوگوں نے ملکیت کو مضبوطی کے ساتھ اپنانے کی ضرورت محسوس کی۔ بیشتر نوزائیدہ ممالک نے اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے راستے کی شکل میں جمہوریت کو قبول کر لیا۔ جنھوں نے ملک کے ساتھ ساتھ جمہوریت ہونا منتخب کیا، انھیں یہ دونوں الفاظ تقریباً مترادف لگنے لگے۔ ان دو الفاظ کا ایک ہو جانا نہ صرف لفظی معنی کے لحاظ سے غلط تھا، بلکہ یہ سیاسی نظریے سے بھی درست نہیں تھا۔ جب ہندوستان میں آزادی کی تحریک چل رہی تھی تب ایک ’ملک‘ بننے کا نظریہ اہم ہو گیا کیونکہ انگریزی حکومت کے ختم ہونے کے بعد چھوٹی بڑی تمام ریاستوں کو یکجا کرنے کا سوال اٹھنے والا تھا۔ حالانکہ جب نو آبادیاتی حکومت کے اختتام کا وقت آیا، تب کئی دور اندیش لیڈروں کو نیشنلزم کے ممکنہ خطرات کا اندازہ ہو گیا تھا۔
قبل میں ملک ہندوستان کو ’بھارت ماتا کا مندر‘ کہنے والے اربندو نے اپنے انتقال سے کچھ ماہ قبل (1950 میں) لکھا کہ انسانیت کا مستقبل تبھی محفوظ ہوگا جب نوتشکیل متحدہ ملک کو ایک بین الاقوامی حکومت بنانے کی سمت میں بڑھایا جائے۔ رابندر ناتھ ٹیگو جن کی نظم ہمارا قومی گیت بنی، نے انسانیت پر جو اپنے نظریات پیش کیے، اس میں کسی طرح کی جغرافیائی قومی سرحد نہیں تھی۔ 1920 کی دہائی سے ہی مہاتما گاندھی اس بات کو لے کر بالکل واضح تھے کہ گجرات وِدیاپیٹھ آزادی کے لیے لڑنے والے نوجوانوں کو تیار کرے گا اور سابرمتی آشرم سچائی اور عدم تشدد کے تئیں وقف لوگوں کو تیار کرنے کی جگہ رہے گا۔
ہندوستان کو آزادی کے راستے پر آگے بڑھانے والے یہ عظیم نظریہ ساز جانتے تھے کہ اگر نیشنلزم کو زیادہ طول دیا گیا تو ایک حد کے بعد یہ آزدای کے نظریہ کے لیے نقصاندہ ہو سکتا ہے۔ انھوں نے دیکھا تھا کہ یوروپ میں کس طرح سخت نیشنلزم کے راستے پر چلنے والے اٹلی اور جرمنی میں آخر کار سخت فاشزم نے جگہ بنا لی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے ختم ہونے کے بعد لوگوں کو امید تھی کہ نیشنلزم اور نیشن کی تعمیر میں اہم کردار نبھانے والے آزادی کے جذبہ کے درمیان کا ٹکراؤ ختم ہو جائے گا۔ لیکن حال کے وقت میں دنیا نے نیشنلزم کے عروج اور جمہوریت کے زوال کو دیکھا ہے۔
کئی مضبوط جمہوری ممالک میں ایسی اکثریت پسند حکومتوں کا طلوع ہوا ہے جو جمہوریت کے اس بنیادی اصول پر عمل کرنے کے تئیں کمزور رہی ہیں کہ ذات، مذہب اور لسانی تنوع کے باوجود سبھی شہری برابر ہیں۔ بیسویں صدی میں دنیا کے بارے میں جو تصور کیا گیا تھا، اسے دیکھتے ہوئے سیاسی ماہرین جمہوریت کے مستقبل کو لے کر کافی فکرمند ہیں۔
روایتی طور سے ناخواندگی، بدعنوانی، بھائی بھتیجہ واد اور کٹرپسندی کو جمہوریت کے لیے خطرہ مانا جاتا رہا ہے، لیکن اب تو مصنوعی انٹلیجنس، عوام کو مشین سے کنٹرول کرنے، جاسوسی کے لیے اسپائی ویئر کا استعمال اور لوگوں کی پرائیویسی پر حملہ ایسے موضوعات ہیں جو جمہوریت کے لیے کہیں بڑے خطرے کے طور پر ہمارے سامنے ہیں۔ یہ نیا سماجی اور سیاسی نظام ہے جس کا ایک رازدارانہ ماضی کے ساتھ رشتہ ہونا طے ہے۔ نظامِ اقتدار کی شکل میں جمہوریت کی آمد کے ساتھ ہی سائنس اور جدیدیت کی بنیاد بن جاتی ہے دلیل۔ یہ یادِ ماضی اور جمہوریت کے کشمکش والے رشتوں کو مزید بڑھاتا ہے۔
ماضی میں کئی صدیوں تک ’یوٹوپیا‘ کو افسانوی مستقبل کی شکل میں دیکھا جاتا تھا۔ جمہوریت کے دور میں مستقبل صرف ایک فسانہ نہیں رہ جاتا۔ یہ طاقت کا ذریعہ بننا شروع ہو جاتا ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے پرانے جمہوری ادوار میں ہوتا تھا۔ جمہوریت، جدیدیت کی ذہنی ایکولوجی (ماحولیات) اور ماضی کے نظریات کے ساتھ کشمکش والے رشتوں کے سبب یہ آسانی سے سمجھ میں نہیں آتا کہ مصنوعی یادوں سے کیسے نمٹا جائے۔ موجودہ وقت میں ہندوستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک کی حکومتیں اپنے لوگوں کو نظم و ضبط، انتظام و انصرام اور قابو کرنے کے لیے مشینی یادوں کا استعمال کر رہی ہیں۔ اس نظریے سے ایک باقابو جمہوریت میں ایک شہری تب تک شہری نہیں ہے جب تک وہ ڈیجیٹل یونٹس کے ورچوئل ٹائم اور اسپیس میں آزاد ہو کر تیرتا اور گشت کرتا نہ ہو۔
اکیسویں صدی میں اپنی ’داخلی قوت‘ کو مضبوط کرنے اور بے معنی ہو چکی تاریخی پہیلیوں کی بات کر کے جمہوریت کو طاقتور نہیں بنایا جا سکتا۔ جو سیاست اپنی ویلڈیٹی کے لیے خیالی باوقار ماضی کو بنیاد بناتی ہے، وہ تاریخی تبدیلی کے ساتھ تال میل نہیں بیٹھا پاتی۔ اسی طرح سیاست، جو پوری طرح سے تکنیک سے چلتی ہے، اس میں مستقبل کے بارے میں ایک خاص نظریہ ہوتا ہے اور اس سے جمہوریت کا زوال ہی تیز ہوتا ہے۔ اکیسویں صدی میں جمہوریت حامی سیاست کو دیوتاؤں اور روبوٹوں کو آمنے سامنے لانا ہوگا۔ مستقبل کو ایک افسانہ کی شکل میں پھر سے قائم کرنے کے لیے ان کا ایک دوسرے سے سامنا کرانا ہوگا۔
2047 میں ہندوستان کہاں ہوگا اور کیسا ہوگا، یہ اس بات پر منحصر کرتا ہے کہ ہم انسانی-مشین کی یکسر الجھنوں کو کتنی مہارت سے سلجھاتے ہیں۔ نئی پیچیدگیوں کو دیکھتے ہوئے ہم حقوق، وقار اور پرائیویسی کو کس طرح نشان زد کرتے ہیں، تاکہ ہمیں ایک ایسا نیا آئین ن بنانا پڑے جو اس جملے کے ساتھ شروع ہو کہ ’ہم ڈیجیٹل شکل میں گنے جانے والے اور ہندوستان کے روبوٹ، اس طرح اسے (آئین کو) اپناتے ہیں، نافذ کرتے ہیں اور خود کو دیتے ہیں...۔‘ آئیے دعا کریں کہ یونانی قدیم افسانوں کا پنکھوں والا غصیل سمندری گھوڑا- پیگاسس، حقیقی دنیا میں حقیقی محنت اور قربانیوں سے جمع ہماری جمہوریت کو جھلسا نہ پائے۔
تکنیک سے کنٹرول ہونے والی طاقت کا یہ دور جس مستقبل کی منادی کر رہا ہے، اس میں آگے بڑھنے کا واحد طریقہ شہریوں کے معاملے میں ملک کے نظریہ کی خودسپردگی کرنا ہے۔ افسوس ہے کہ اس تاریخی نقطہ وقت پر ملک کا یہ نظریہ سیاسی طور سے ختم ہو گیا ہوگا۔ ایسی طاقتوں کے سامنے دوسرا متبادل یہ ہے کہ جوابی افسانہ کو قائم کرتے ہوئے قوم کے نظریہ کو ہی منتشر کرنے کی سمت میں آگے بڑھیں۔ دنیا بھر کے لوگوں کا مستقبل جس پر منحصر ہو سکتا ہے، وہ ہے ’قوم کی شکل میں لوگوں‘ اور ’لوگوں کی شکل میں قوم‘ کے نظریہ کو بحال کرنا۔ جو لوگ اکثر استعمال کی جانے والی غیر روایتی سیاسی جملے بازی سےبندھے نہیں رہنا چاہتے، انھیں انہی متضاد امکانات کے اندر جدوجہد کے نئے نشانات کھینچنے ہوں گے۔