-
ہندوستان میں ہماری موجودہ صورت حال اور جعفری طرز عمل
- سیاسی
- گھر
ہندوستان میں ہماری موجودہ صورت حال اور جعفری طرز عمل
1316
M.U.H
10/07/2018
1
0
سید نجیب الحسن زیدی
آج کی تاریخ جہاں رنج و غم اور مصیبت کی تاریخ ہے ، جہاںہم محسن مکتب اہلبیت اطہار علیھم السلام کا غم منا رہے ہیں جہاں امام صادق علیہ السلام کی شہادت کی تاریخ میں مغموم و محزون گریہ وزاری و مجالس و ماتم میں مصروف ہیں وہیں امام علیہ السلام کی سیرت کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کے بھی ضرورت ہے ، کہ آپ پر پڑنے والے مصائب پر رونے کےساتھ ساتھ اس مقصد کی طرف بھی توجہ کر سکیں جسکی خاطر امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک طولانی جدو جہد کی ۔امام صادق علیہ السلام کی ایک اہم فعالیت آپکی علمی سرگرمیاں تھیں جنکے بل پر آج شیعت کو اپنی فکری و علمی پختگی پر ناز ہے ۔
کیا آج جب ہم اپنے ملک ہندوستان میں اپنی قوم کے علمی سرمایہ کو دیکھتے ہیں تو کہہ سکتے ہیں یہ وہی قوم ہے جو اپنے آپ کوامام جعفر صادق علیہ السلام سے وابستہ سمجھتی ہے ۔ہماری صورت حال تو یہ ہے کہ ہمیں اپنی واقعی صورت حال کا پتہ بھی نہیں ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟
اگر سچر کمیٹی کے اعداد و شمار کو مانا جائے تو ہمیں حد درجہ فکر مندی و سنجیدگی کے ساتھ اپنی حالت کو تبدیل کرنے کے لئیے آگے بڑھنا ہوگا ہماری قیادت کو قوم کی نبض دیکھتے ہوئے صحیح وقت پر صحیح نسخہ دینا ہوگا ۔قومی مسائل کے حل کے لئے بڑے دل گردے کی ضرورت ہوتی ہے ہمیں اپنے ظرف وجودی کو بڑھانا ہوگا اور خاندانی و و ڈیوڑھیوں کی سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جعفری طرز عمل کو اپنانا ہوگا کہ جعفری سیاست ہی ہماری تقدیر کو بدل سکتی ہے ۔ ا آج بھی جو ہماری قومی صورت حال ہے ہمارے پیش نظر ہے یقینا یہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ کچھ درد مند افراد اٹھیں اور جعفری سیاست کو بروئے کار لاتے ہوءے منجدھار میں پھنسی قوم کی کشتی کو ساحل نجات تک لے کر آئیں ۔اب جعفری طرز عمل کے لئءے ضرروری ہے کہ ایک نظر قوم پر ڈالی جائے اور ان بڑی مشکلات کو دیکھا جائے جنکے سبب چھوٹی چھوٹی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں ۔
سب سے بڑی مشکل :
جب ہم ان بڑی مشکلات کو دیکھتے ہیں جنکے سبب چھوٹی چھوٹی لا تعداد مشکلات کی جوکیں قوم کا لہو چوس رہی ہیں تو ان میں ایک مشکل تعلیم نظر آتی ہے ۔اب تعلیم میں بھی ہمارے سامنے دو بڑی مشکلیں ہیں ایک نظام تعلیم کا فقدان دوسرے خود تعلیم کا فقدان یہ دو فقدان اتنے بڑے ہیں کہ قوم کو اپنے پیروں پر کھڑا ہی نہیں ہونے دیتے ایک طرف تو ہمارے یہاں تعلیمی رجحان نہیں ہے دوسری طرف اگر ہے بھی تو ہماری روح اس تعلیم سے کھوکھلی ہوتی جا رہی ہے اس لئے کہ ہم اپنے تعلیمی رجحان کی تشنگی کو جہاں پر مٹاتے ہیں اور جس چشمہ علم پر جا کر سیراب ہوتے ہیں اس کے اندر ہماری سیرابی کا کوئی سامان نہیں ہے اس لئیے کہ عموما ہم جس تعلیم کے پیچھے بھاگ رہے ہیں وہ مغربی نظام تعلیم ہے اور مغربی نظام تعلیم وہ نظام ہے
جسکو سمجھنے کے لئیے بڑا وقت درکار ہے یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں نصاب، مضامنین ، فکری بنیادیں اور جسکی پوری تھیم ایک خاص آئیڈیالوجی پر منحصر ہے جس آئیڈیا لوجی میں خدا کی جگہ محوریت انسان کو حاصل ہے مختصریہ ہے کہ اگر دین آکر لگام نہ دے تو یہ تعلیم انسان کو مارڈن وحشی جانور بنا دیتی ہے جس کے نمونے ہم روز مرہ اپنے اطراف و اکناف میں دیکھتے ہیںکہ کس طرح پڑھ لکھ جانے کے باوجود انسان بے رحم بھیڑیا بنا اپنے ہی ہم نوعوں کو مختلف میدانوں میں چیرنے پھاڑنے میں مشغول ہو ، وہ میڈیکل کا میدان ہو یا تعلیم ،وزراعت کا ہر میدان میں جو جتنا پڑھا لکھا ہے اتنا ہی بڑا جانور نظر آتا ہے مگر یہ کہ دین اسکی بہیمانہ مزاج پر لگام لگائے ۔
معاشرہ کی روز بروز گرتی صورت حال اور مغربی نظام تعلیم کی بنیاد پر کھوکھلے ہوتے ہوئے رشتوں کے پیش نظر ضروری ہے کہ ہم اپنے ایک مستقل نظام تعلیم کو لیکر سوچنا شروع کریں ملک کے موجودہ حالات اور موجودہ نظام تعلیم کو دیکھتے ہوئَےجو بات روزشن کی طرح عیاں ہے وہ یہ کہ ہمارا اپنا نظام تعلیم ہونا چاہیے اب اسکا مطلب یہ نہیں کہ جو مدارس میں رائج ہے وہی نظام تعلیم ہمارا ہے ہرگز نہیں کافی حد تک وہ نظام تعلیم مغربی نظام تعلیم کی تخریب کارئیوں سے یقینا مبرہ ہے لیکن جدید دنیا سے ھم آھنگ نہ ہونے کی بنیاد پر بیشتر جگہوں پر ناقص و ادھورا ہے جبکہ ہمیں ضرورت ہے ایسے نظام تعلیم کو پیش کرنے کی جو نہ صرف ہمیں بلکہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکتے اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ ہم سیاست جعفری کو اختیار کرتے ہوئے ایسی یونیورسٹیز کا قیام عمل میں لائیں جو عصری تقاضوں سے ھم آہنگ ہوتے ہوئے دینی بنیادوں پر قائم ہو ۔
لہذا جو بات رز روشن کی طرح عیاں ہے وہ یہ کہ ہمارا اپنا نظام تعلیم ہونا چاہیے اب اسکا مطلب یہ نہیں کہ جو مدارس میں رائج ہے وہی نظام تعلیم ہمارا ہے ہرگز نہیں کافی حد تک وہ نظام تعلیم مغربی نظام تعلیم کی تخریب کارئیوں سے یقینا مبرہ ہے لیکن جدید دنیا سے ھم آھنگ نہ ہونے کی بنیاد پر بیشتر جگہوں پر ناقص و ادھورا ہے جبکہ ہمیں ضرورت ہے ایسے نظام تعلیم کو پیش کرنے کی جو نہ صرف ہمیں بلکہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکتے اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ ہم سیاست جعفری کو اختیار کرتے ہوئے ایسی یونیورسٹیز کا قیام عمل میں لائیں جو عصری تقاضوں سے ھم آہنگ ہوتے ہوئے دینی بنیادوں پر قائم ہو ۔جب ہم امام جعفر صادق علیہ السلام کی مجاہدانہ زندگی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کس طرح آپ نے نہ صرف ایک عظیم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی بلکہ ہر طرح کی علمی پیاس کو چشمہ فیض اھلبیت اطہار علیھم السلام سے بجھا کر پوری انسانیت کی خدمت کی اوربقول ’’استاد پیشوائی‘‘ امام علیہ السلام کی زندگی میں پائے جانے والے نشیب و فراز کی موشگافی کرنے والوں کی نظر سے جو بات پوشیدہ رہ گئی وہ آپ کی یونیوسٹی کے قیام کا سیاسی مفہوم ہے کہ امام علیہ السلام نے اتنی بڑی یونیوسٹی قائم کر کے نہ صرف اپنے علم و فضل بلکہ اپنی دور اندیشی اور سیاست کا بھی لوہا منوا لیا ۔ مسند درس پر بیٹھ کر ہزارہا تشنگان علم و حکمت کے سامنے جو چیزیں بھی آپ بیان فرما رہے ہیں ظاہر ہے جہاں تک ان کا تعلق اعتقاد اور احکامات سے ہے تو بیان ہونے والی تمام چیزیں وہ ہیں کہ جومکتب اہلبیت علیھم السلام کے نقطہ نظر سے بیان کی جا رہی ہیں ۔اور یہی امام علیہ السلام کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ وہ معارف جو اب تک بعض سیاسی مجبوریوں یا زمانے کے حالات کی بنا پر بیان نہ ہو سکے تھے آپ انہیں مسند درس سے با آسانی بیان فرما رہے ہیں اور جہاں یہ معارف آپ کے ماننے والے ضبط و ثبت کے ذریعہ آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کر رہے ہیں وہیں دوسرے مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر حقیقت تشیع واضح ہو رہی ہے۔چنانچہ آپ نے مکتب تشیع کے معارف کو اس کی کامل ترین صورت میں بیان تو کیا ہی ساتھ ساتھ ان خرافات کا سد باب بھی کر دیا جو ممکنہ طور پر اس میں بعض کج فکر افراد کی بنا پر داخل ہو سکتی ہیں۔
اور اس زمانے کی خاص فضا کو دیکھتے ہوئے یہ بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اس یونیورسٹی کا قیام کس قدر ضروری تھا کہ جو دین پر ہونے والے اعتراضات کے سامنے نہ صرف یہ کہ ڈٹ کر ان کا مقابلہ کر سکے بلکہ اس میں علم حاصل کرنے والے آپ کے خاص شاگرد قریہ قریہ اور شہر شہر جا کر لوگوں پر واضح کریں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے؟ اور لوگوں کو یہ بتائیں کہ ان ہنگامی حالات میں ان کا عملی موقف کیا ہونا چاہئے؟اگر تحمل و بردباری و دقت نظر کے ساتھ آپ کی مجاہدانہ زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے کے خاص حالات کو دیکھتے ہوئے جن شیووں کا انتخاب کیا تھا وہ کس قدر مثمر ثمر واقع ہوئے۔مختلف و متعدد پیدا ہونے والے مسائل اور روز مرہ سامنے آنے والی مشکلات سے نمٹنے کے لئے امام علیہ السلام نے جس سیاست کو اپنایا تھا یقینا اس کے علاوہ ہر سیاست اس وقت کے خاص حالات کے مد نظر پہلے ہی سے قرین بہ شکست تھی ۔ یہ بات اس وقت مزید روشن ہو جاتی ہے جب ہم اس زمانے کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھتے ہیں کہ اس وقت ہر چیز سے زیادہ اسلامی ثقافت اور اسلامی طرز حیات کو پہچنوانے کی ضرورت تھی کیونکہ بنو امیہ کے حکومت سے رخت سفر باندھنے کے بعد جو نسبی آزادی مسلمانوں کو نصیب ہوئی تھی اسمیں مختلف نظریات اور آراء کا تبادل ہو رہا تھا دوسرے مذاہب کی مختلف دینی و فلسفی کتابیں بازار میں عام لوگوں کی دسترس میں تھیں یہ وہ دور تھا جہاں مکتب امامیہ کے کلامی مباحث میں صرف امامت کو لیکر گفتگو نہیں ہو رہی تھی بلکہ توحید سے لیکر امامت ،معاد ،قضا و قدر، خلقت کائنات و۔۔ جیسے تمام مسائل پر گفتگو ہو رہی تھی ہشام بن حکم کی جانب سے ثنویت سے مربوط مباحث اور ارسطو کے فلسفی دلائل و براہین کا داندان شکن جواب س بات کی دلیل ہے کہ اس دور میں کس قدر وسیع پیمانے پر نظری مباحث وجود میں آ رہے تھے ۔ امامؑ نے ایسے دور میں جہاں اسلامی اور نبوی حقیقی طرز زندگی کا تعارف کرایا وہیں شیعہ متکلمین کو بھی زیادہ سے زیادہ کلامی مباحث میں کام کرنے کی ترغیب دلائی چنانچہ آپکی سیرت میں ملتا ہے کہ آپ ہمیشہ اپنے ان شاگردوں کو جو علم کلام میں مہارت رکھتے تھے خاص طور پر ہشام بن حکم اور مومن طاق کو اس بات پر وادار کرتے رہتے تھے کہ وہ کلامی مباحث پر لگن سے کام کرتے رہیں حتی نہ صرف آپ نے کلام کے بنیادی اصول اور مناظرہ کے قواعد سے اپنے شاگردوں کو آگاہ کیا بلکہ مناظرہ کی کیفیت اور اسکے انداز ، اور طریقہ کار کو بھی انہیں تعلیم فرمایا
نظری اور کلامی مباحث کے ساتھ ساتھ اس دور میں بہ کثرت احادیث نقل ہو رہی تھیں کہ جن کی جانچ پڑتال اور چھان بین ایک مشکل امر بن چکا تھا، مختلف تہذیبیں سامنے آرہی تھیں جگہ جگہ مناظرے و مباحثے ہو رہے تھے چنانچہ’’ ڈاکٹر حاتم قادری‘‘ اس زمانے کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جن لوگوں نے اس وقت کے مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے اور بغداد و دیگر بڑے شہروں میں ہونے والے مختلف کلاس، فقہی اور فلسفی جلسوں سے آشنائی رکھتے ہیں وہ اموی اور عباسی حکومت کے ما بین فرہنگی و ثقافتی اختلافات سے چشم پوشی نہیں کر سکتے ۔۔۔ حکماء، اطباء، ادبا اور فقہا کی اپنے اپنے شعبوں میں زبردست کار کردگی اس دور کے فرہنگ و تمدن کی سطح کی ترجمان ہے بنی امیہ اور بنی عباس کی آپسی چپقلش کی بنا پر سیاسی فضا کافی بسیط ہو گئی تھی امام نے اپنی حکومت کے سلسلہ میں اس سے استفادہ کیوں نہیں کیا اس کی وجہ کیا تھی ؟ یہ ایک مستقل موضوع ہے جس سے صرف نظر کیا جاتا ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ ظاہری طور پر فضا پہلے کی طرح اب مسموم نہیں تھی اس میں پہلے جیسی گھٹن نہ تھی چنانچہ مختلف مکاتب فکر وجود میں آرہے تھے، علم کلام کی بحثیں گرم تھیں، فلسفی اور دیگر کتابیں عربی میں ترجمہ ہو رہی تھیں معقولات کی طرف لوگوں کا رجحان قابل دید تھا اگر چہ یہ کھلی فضا تا دیر قائم نہ رہ سکی اور منصور دوانقی نے اپنی جنایتوں اور شاطرانہ چالوں سے اسے پھر مکدر بنا دیا۔ لیکن بہر حال ایک مختصر عرصہ ہی کے لئے سہی لیکن ایک ایسی فضا ضرور قائم ہوئی کہ جہاں نظریوں کے تصادم کی جگہ تبادل اور مار کاٹ کی جگہ بحث و مباحثہ اور لڑجھگڑ کر اپنی بالادستی منوانے کی جگہ علمی میدان میں مقابل کو زیر کر کے لوہا منوانے جیسی چیزوں نے لے لی تھی۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے جن کا اجمالی خاکہ ہم نے پیش کیا سب سے بہترین عمل اپنے شاگردوں کی تربیت کے ساتھ ایک ایسی یونیورسٹی کا قیام تھا کہ جس کے ذریعہ شیعیت اور مکتب اہلبیت کی اساس اور بنیاد بھی مضبوط ہو ساتھ ہی دوسرے مکاتب فکر کے شبھات کا جواب بھی دیا جا سکے چنانچہ امام علیہ السلام نے اپنے اطراف و اکناف کے تمام جوانب کا بغور جائزہ لے کر یونیورسٹی کے قیام کے سلسلہ میں جو اقدام کیا یقینا ایسا کام ہے جس کے فوری اور طویل مدت دونوں ہی ثمرات اس اقدام کے اپنی نوعیت میں یکتا ہونے پر بارز دلیل ہیں۔
کتابت احادیث اور تالیف کتب
یونیورسٹی کی تاسیس کے علاوہ آپ کا دوسرا اہم کام احیاء احادیث تھا۔یہ وہ کام تھا جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے باطل کے اوپر ایک کاری ضرب کی حیثیت رکھتا ہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نشر احادیث کے لئے آپ نے جو جد و جہد کی وہ بے نظیر ہے اور صاحبان نظر پر اس کی اہمیت واضح ہے۔ آپ نے صرف مکتب تشیع کی فقہی میراث احادیث و روایات کو ہی از سر نو زندہ نہیں کیا بلکہ ان کے انتشار کو وقت کی ضرورت کے پیش نظر اپنا اولین وظیفہ سمجھتے ہوئے اسے بخوبی نبھایا اور احادیث و روایات کے سلسلہ میں ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ جس کے ذریعہ اگر کسی نے مستقل طور پر آپ سے احادیث نہ بھی سنی ہوں تو انہیں نقل کر سکے تاکہ حدیث کی اور بھی وسیع پیمانہ پر نشر و اشاعت ہو سکے۔چنانچہ آپ نے اپنے بعض شاگردوں کو اجازہ نقل روایت دیا۔ صاحبان نظر پر یہ پوشیدہ نہیں کہ نشراحادیث کا ایک بہترین وسیلہ اجازہ ہے جو کہ مسلمانوں کی علمی اور فرہنگی محافل میں ایک معتبر حیثیت کا حامل ہے۔ کتب احادیث میں اجازہ کی افادیت پر اور اس کے عمومی طور پر مرتب ہونے والے اثرات کے پیش نظر بہت سارے ایسے افراد کے اسامی نظر آئیں گے جنہوں نے صرف ایک اجازہ حاصل کرنے کے لئے بے شمار مشقتیں برداشت کیں۔ امام علیہ السلام نے اس وقت کے حالات کے پیش نظر اسلامی معارف کی ترویج کا کام اپنے قابل اعتماد شاگردوں کواجازہ نقل حدیث دے کر لیاکہیں اپنے شاگرد کو اجازہ عطا کرتے ہوئے فرمایا ’’ابان بن تغلب کے پاس جاؤ انہوں نے مجھ سے بہت ساری روایات سنی ہیں وہ تم سے جو بھی نقل کریں تم انہیں میرے نام سے لوگوں میں بیان کر سکتے ہو۔‘‘ تو کہیں فیض بن مختار سے کہا’’ جب بھی تمہیں ہماری احادیث کی ضرورت ہو تم زرارۃ بن اعین کی طرف رجوع کرو ‘ ‘ ظاہر ہے آپ اپنے شاگردوں کی طرح آزادی کے ساتھ ہر جگہ نہیں جا سکتے تھے اور سلاطین وقت کی نظریں آپ کی ہر حرکت پر تھیں تو اس سے بہتر راستہ اور کیا ہو سکتا تھا کہ اپنے شاگردوں پر اعتماد کرتے ہوئے انکی ایسی تربیت کی جائے کہ لوگ بغیر کسی تامل کے شاگردوں سے سنی ہوئی باتوں پر ویسے ہی عمل کریں جیسا کہ آپ سے سنی ہوںچنانچہ ابی عمیر سے روایت ہے کہ میں نے امام ؑکی خدمت میں عرض کیا ’’ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں کسی مسئلہ کا علم نہیں ہوتا اور ہماری آپ تک رسائی بھی نہیں ہوتی ایسے موقعوں پر ہماری ذمہ داری کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ایسے موقعوں پر ابو بصیر اسدی کی طرف رجوع کرو اسی طرح معروف راوی عبد اللہ بن ابی یعفور نے امام کی خدمت میں عرض کی : ہمارے لئے ہر وقت آپکی خدمت میں حاضر ہونا ممکن نہیں ہے جبکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ میرے پاس ایسے مسائل لے کر آتے جنکے جوابات مجھے معلوم نہیں ہوتے ایسے موارد میں میرے لئے کیا حکم ہے؟ امام نے جواب دیا : محمد بن مسلم کی طرف رجوع کر و انہوں نے میرے والد بزرگوار سے بھی احادیث سنی ہیں اور وہ میرے بابا کے نزدیک صاحب شرف تھے اس کے علاوہ کتابت حدیث کے لئے اپنے تمام شاگردوں اور شیعوں کو اس با ت کا پابند بنایاکہ جس قدر ہو سکے احادیث کو سن کر صرف ذہن میں نہ رکھیں بلکہ انہیں مکتوب بھی کرتے جائیں۔
اور باوجود اسکے کہ آپکی تمام احادیث آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آپ کے شاگرد کتابت کے ذریعہ محفوظ کر رہے تھے آپ نے اس عظیم کام کو صرف اپنے شاگردوں پر ہی نہ چھوڑا اور خود بھی کمر ہمت باندھ کر مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا۔
آپ کی اہم کتب پر ایک نظر :
الاھلیجۃ فی التوحید التوحید ؛ رسالۃ فی وجوہ معایش العباد ؛ الجعفریات ؛ رسالۃ فی الغنائم ؛ الرسالۃ اھوازیۃ کتاب الحج الفضائل ، کتاب الامامۃ وغیرہ کے علاوہ اور بھی دوسری کتب جو آپ سے منسوب ہیں۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ’’تدوین السنۃ الشریفۃ‘‘ ص؍۱۶۷۔شہید اولؒ آپ کی ان کتب کی تعداد جنہیں آپ نے پوچھے گئے سوالات کے جوابات کے طور پر تالیف کیا تھا ۴۰۰۰ تک بیان فرماتے ہیں۔ اگر آپ کی تالیف کردہ کتب اور وہ کتب جنہیں آپ کے شاگردوں نے تالیف کیا ہے ملایا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے ایک قلیل عرصہ میں کتنا بڑا کام انجام دیا ہے، ایسا کارنامہ کہ جس کی نظیر تاریخ بشریت میں نہیں ملتی۔ آپ نے احادیث اور درس و بحث کے ذریعہ ان تمام موضوعات پر قوم کے لئے مواد فراہم کر دیا جس کی اس کو ضرورت پڑ سکتی ہو ۔اس کام کے سیاسی پہلو کو اگر سمجھنا ہے تو اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ امام علیہ السلام تمام حالات کا باریکی سے جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھ رہے تھے کہ اگر یہ بنیادی کام نہ ہوا تو دوسرے مکاتب فکر کی طرح مکتب تشیع میں بھی وہ خرافات وارد ہو سکتی ہیں جو دوسرے مسالک کا جزو لا ینفک بن چکی ہیں۔ اور یہیں سے امام علیہ السلام کی سیاسی بصیرت، تدبیر عمل اور سوج بوجھ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر بقدر کافی قوم کے حوالے دین کے حقیقی معارف نہ کئے گئے ہوتے تو کس قدر خرافات، دین ہی کے نام پر دین میں داخل ہو گئیں ہوتیں؟۔ اس لئے کہ اگر کسی ایک مسئلہ میں دینی معارف موجود نہ ہوتے تو لوگ مجبوراً اپنے عقلی استنباط کو قرآنی حکم سمجھ کر قبول کرتے۔ چاہے وہ استنباط قرآنی نقطہ نظر سے کتنا ہی دور کیوں نہ ہوتا ور شاید یہی وجہ ہے کہ دوسرے مکاتب فکر اپنے یہاں نصوص کی قلت کا رونا روتے ہیں لیکن بحمد اللہ ہمارے یہاں اس قدر احادیث و روایات کا ذخیرہ ہے کہ ہمیں من گھڑت قواعد بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
بحرانی حالات میں آپ کی حکمت عملی:
آپ جہاں مختلف علوم میں ماہر افراد کی تربیت کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے موضوعات میں اس قدر مہارت حاصل کر لیں کہ مختلف اسلامی مسائل کے سلسلہ میں ہر ایک کو آپ کے پاس نہ آنا پڑے اور وہ اپنے مسئلہ کا حل آپ کے شاگردوں سے دریافت کر لے تاکہ مختلف عمومی مسائل کے استفتاء ات میں صرف ہونے والے وقت کو کسی تعمیری کام میں لگایا جائے وہیں آپ کو اپنا کافی وقت ان نت نئے پیدا ہونے والے مسائل میں لگانا پڑ رہا ہے جن کے بارے میں پہلے سے ظاہری طور پر کوئی احتمال نہیں تھا کہ وہ یونہی آپ کے اہداف میں خلل ڈال سکتے ہیں ۔متعدد نئے نئے فرقہ پیدا ہو رہے ہیں، آئے دن ایک نیا فرقہ اپنے وجود کے اعلان کے ساتھ اپنے رہبر اور راہنما کا پرچم لئے اپنے مسلک کی تبلیغ و ترویج کرتا نظر آرہا ہے، حد یہ ہے کہ زندیق و غالی افراد بھی مسجد الحرام میں بیٹھ کر آزادانہ اپنے نظریات کا نہ صرف کھلم کھلا اعلان کر رہے ہیں بلکہ سست اورنا پختہ دلائل سے اس کی حقانیت کو ثابت کرنے پر تلے ہیں۔ اور نہ صرف زنادق اور غلاۃ بلکہ جارودی، سلیمانی، صالحی،بتری، یعقوبی،خطابی، اراوندی، علائی، قاسمی، نصیمی،سرخابی اور اس طرح کہ نہ جانے کتنے فرقے اپنے اپنے ماننے والوں کے درمیان بزعم خود بساط ہدایت بچھائے سیدھے سادے لوگوں کو بہکانے کے لئے چوکنّے بیٹھے ہیں، ایسے میں حق کا راستہ دکھانا کتنا کٹھن اور سخت ہے ہر فرقہ سے زیادہ جو چیز اسلام کو ایسی صورت حال میں نقصان پہونچا سکتی ہے وہ غلو ہے، چنانچہ کتب تاریخی اس بات پر شاہد ہیں کہ ساتھ آپ نے غالیوں کے خلاف جو موقف اختیار کیا ہے وہ کہیں اور نظر نہیں آتا۔ آپ نے ان سب کو واضح لفظوں میں کافر قرار دیتے ہوئے اپنے شیعوں سے فرمایا کہ ان لوگوں کے ساتھ نشست و برخاست مت کرو، ان کے ساتھ ہم پیالہ و ہم نوالہ نہ بنو اور ان کو زمین پر خدا کی سب سے بدترین مخلوق قرار دیتے ہوئے صراحت کے ساتھ ان کے سرغنہ کو ملعون قرار دیا اور فرمایا کہ میں اس سے بیزار ہوں۔ ان سے اظہار بیزاری اور عدم مجالست کے حکم پر ہی آپ نے اکتفا نہ کیا بلکہ آنے والے زمانے کے حالات کو دیکھتے ہوئے ان کی روایات کو قبول نہ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا ’’ہماری صرف ان باتوں پر عمل کرو جو قرآن و سنت سے مطابقت رکھتی ہوں یا پھر ہماری سابقہ احادیث ان کی تائید کرتی ہوں، پس مغیرہ بن سعید نے وہ باتیں جو ہماری طرف منسوب کی ہیں جنہیں ہرگز ہم نے بیان نہیں کیا ہے‘‘یا پھر ایک جگہ فرماتے ہیں ’’ہمارے اصحاب کی کتب میں جہاں کہیں بھی غلو کے خد و خال نمایاں ہوں پس یہ وہی چیز ہے جسے مغیرہ بن سعید نے اضافہ کیا ہے۔‘‘
امام علیہ السلام نے صریح لفظوں میں غالیوں اور ان کے سر کردہ راہنما سے اظہار برات کر کے اپنے شیعوں کو ان سے بالکل ممتاز شکل میں پیش کر کے یہ بتا دیا ہے کہ ہمارے شیعہ ان باتوں سے مبرا ہیں جو ان کے بارے میں کی جاتی ہیں اور آپ نے اس اظہار برات و بے زاری کے اعلان کے لئے ہر وہ ممکنہ طریقہ اپنایا جس سے لوگوں پر واضح ہو جائے کہ غالیوں سے شیعوں کا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ امام علیہ السلام اس مسئلہ میں اس لئے بھی زیادہ حساس ہیں کہ اس وقت غالیوں کی پوری کوشش یہ تھی کہ غلو کے حربے سے شیعوں میں نفوذ پیدا کر سکیں اور اس طرح شیعیت کے حقیقی چہرے کو مسخ کرنے میں کامیاب ہو جائیں، کیونکہ ان کا طرز تفکر ایک طرف تو آپسی انتشار و خلفشار کا سبب بن رہا تھا دوسری طرف عمومی طور پر شیعوں کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ چنانچہ اس بدنامی کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ آج بھی اکثر علماء اوررجال اہل سنت شیعوں اور غالیوں کے درمیان کسی خاص قسم کے فرق کے قائل نہیں ہیں اور اس بدبینی کا بارز نمونہ تحریف قرآن کے سلسلہ میں وارد ہونے والی وہ روایات ہیں جو قرآن میں تحریف کا اثبات کرتی ہیں جن کا اصلی سرچشمہ غلات ہیں چنانچہ غالیوں کے ساتھ امام علیہ السلام کے شدید رد عمل نے یہ واضح کر دیا کہ شیعہ غالیوں سے بیزار ہیں حتی ان کے یہاں غالیوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کو بھی درست نہیں سمجھا جاتا ہے اور کہاں یہ کہ ان کا عقیدہ غلات سے متاثر ہو۔ امام علیہ السلام نے نہ صرف اپنے شیعوں کو عدم مجالست کا حکم دیا بلکہ ان کے سرکردہ کا نام لے کر فرمایا اس شخص کی بات کو قبول نہ کیا جائے، اپنے اس عمل سے امام علیہ السلام نے ممکنہ طور پر شیعیت کو پہونچنے والے زبردست دھچکے کا سد باب کر دیا اور دنیا پر واضح کر دیا کہ شیعہ ایک منطقی طرز تفکر رکھنے والا استدلالی مکتب ہے۔
ہم نے جو کچھ آپکی خدمت میں پیش کیا اس کی روشنی میں ہمارے اوپر چند ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں :
۱۔ سماج اور قوم کے کئیے اگر ہمیں کچھ کرنا ہے تو پہلے معاشرہ کی بڑی مشکلات کو حل کرنا ہوگا جس کے بعد چھوٹی مشکلیں خود حل ہو جائیں گی
۲۔ ہمارے معاشرہ کی ابتری کی ایک بڑی وجہ ہمارا تعلیم سے دور ہونا ہے ایسے میں ہمارے اوپر دو ذمہ داریاں ہیں ایک یہ کہ اپنے معیار تعلیم کو اونچا کریں دسری یہ کہ نظام تعلیم کو اسلامی بنانے کی کوشش کریں
۳۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی مجاہدانہ زندگی میں شیعیت کے آثار کو احیاء کیا ہم میں جو فرد جہاں بھی ہو اگر احیاء میراث شیعہ کے لئیے کچھ کر رہا ہے تو اس کا تعاون ہماری ذمہ داری ہے
۴۔ معاشرہ میں کتب خوانی او علمی و فکری مواد و لٹریچر کے مطالعہ کا ذوق پیدا کیا جائے تاکہ لوگوں کی فکری بنیادیں مضبوط و مستحکم ہو سکیں
۵۔ تعلیم و تربیت کے ساتھ ہمیں ہمارے لئے ضروری ہے کہ بڑے دل کے ساتھ انحصار ذات و قوم سے نکل کر کوشش کریں کہ پورے ملک و انسانیت کے لئے سوچیں ،جب ہم بڑے افق کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھیں گے تو یقینا خدا کی مدد بھی شامل حال ہوگی ہمارا اپنا تو بھلا ہوگا ہی دوسروں کو بھی امام صادق علیہ السلام کی طرح ہم فائدہ پہنچا سکیں گے جو ملک و قوم کے موجودہ نازک حالات کو دیکھتے ہوئے بہت ضروری ہے ۔
۶۔ غلو آمیز رویہ رکھنے والے افراد کے ساتھ حشرو نشر نہ رکھا جائے تاکہ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو یا اگر ان سے تعلق رکھا جائے تو محض اس لئیے کہ ان کی اصلاح کی جا سکے تاکہ معاشرہ میں یہ ناسور نہ پھیلے
۷۔حقیقی شیعت کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ لوگ شیعت کے منطقی و عقلی زاویوں کو عقلی معیاروں پر پرکھ کر اس کے قریب آئیں اور خرافات کو دیکھ کر شیعت سے دور نہ بھاگیں کہ جس سے شیعت کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔
انشاء اللہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی جانب سے اپنائی جانے والی سیاست اگر ہم بھی اپنا لیں تو وہ دن دور نہیں جب ہندوستان کے ماتھے پر ہم کامیابی و سعادت مندی کے جھومر کی صورت چمکیں گے اور خود بھی کامیاب ہوںگے دوسروں کو بھی کامیابی کی منزلوں سے ہمکنار کریں گے
----------------------------------------------------------------------------------
حواشی:
۔ سیرۂ پیشوایان،ص؍۳۶۶،
۔ مسلمانان در بستر تاریخ، یعقوب جعفری،ص؍۲۴۶
۔ ڈاکٹر حاتم قادری تحول مبانی مشروعیت خلافت از آغاز تا فروپاشی عباسیان، ص؍۲۰۱۔
۔ اختیار معرفۃ الرجال ،جلد ۱ ، ص۴۲۴
۔ تحول مبانی مشروعیت خلافت از آغاز تا فروپاشی عباسیان، ص؍۲۰۱۔ ڈاکٹر حاتم قادری
۔ ، مسلمانان در بستر تاریخ، یعقوب جعفری،ص؍۲۴۶،
۔ مسلمانان در بستر تاریخ یعقوب جعفری،ص؍۲۴۶
۔ تاریخ الخلفاء، سیوطی،ص؍۲۶۱، فرق ومذاہب اسلامی،ص؍۴۶
۔ ۷۰ نشر احادیث کے سلسلہ میں آپکی جدو جہد کے لئے ملاحظہ ہو۔۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،ج؍۱،ص؍۱۸، تاریخ التشریع الاسلامی،ص؍۲۶۳، دلیل القضاء الشرعی ج؍۳،ص؍۶۰ المناقب، ج؍۴، ۲۴۲،جابربن عبد اﷲ انصاری نے اجازہ نقل کے لئے بصرہ کا سفر کیا اور عبد اﷲ ابن ابنین سے اجازہ حاصل کیا۔ علوم الحدیث ومصطلحہ،ص؍۴۵
۔ حرانی، لؤلؤۃ البحرین،ص؍۳،الاجازات العلمیہ،ص؍۲۱
۔ ایضا و اختیار معرفۃ الرجال ،جلد ۱، ص ۳۴۷)
۔ ایضا ص ۴۰۰
۔ ایضا
۔ حفظوا بکتبکم فانکم سوف تحتاجون الیہا، الکافی،ج؍۸، الامام الصادق کما عرفہ الغرب،ص؍۶۲ ’،’ایتہا العصابۃ! علیکم بآثار رسول اﷲ وسنتہ وآثار الائمۃ الہداۃ من اہل بیت رسول اﷲ،وسائل الشیعہ،ج؍۱۸،ص؍۲۳، احفظوا بکتبکم فانکم سوف تحتاجون الیہا(الکافی،ج؍۸،)
۔ منکرات ربوبیت کی رد میں، الذریعہ ،ج؍۲،ص؍۴۸۴
۔ اثبات وحدانیت خدا،بحارالانوار،ج؍۳،ص؍۵۸
۔ تجارت صنعت و معیشت و اقتصاد۔۔۔تحف العقول ص؍۳۳۱
۔ فقہ کی ابواب بندی سے متعلق ۔ الزریعہ، ج؍۲،ص؍۱۰۱
۔ غنائم کے سلسلہ میں ۔ تحف العقول ص؍۳۳۹
۔ الذریعہ ج؍۲،ص؍۴۸۵، کشف الریبہ،ص؍۱۲۲
۔ رجال النجاشی ص؍۱۴ و تدوین السنۃ الشریفہ ص؍۱۶۷،لمدخل الفقہی العام ج؍۱،ص؍۷۴
۔ رجال النجاشی ص؍۱۴ و تدوین السنۃ الشریفہ ص؍۱۶۷،فہرست شیخ طوسی ص؍۱۷۵، فلاسفۃ الشیعہ ص؍۵۰۷
۔ رجال النجاشی ص؍۱۴ و تدوین السنۃ الشریفہ ص؍۱۶۷،سیر حدیث در اسلام ص؍۱۰۹
۔ ڈاکٹر منتظر القائم ، تاریخ امامت ، ص ۱۹۱،) ،سیر حدیث در اسلام ص؍۱۰۹
۔ فہرست شیخ طوسی ص؍۱۷۵، فلاسفۃ الشیعہ ص؍۵۰۷،المدخل الفقہی العام ج؍۱،ص؍۷۴،المدخل الفقہی العام ج؍۱،ص؍۷۴، احفظوا بکتبکم فانکم سوف تحتاجون الیہا، الکافی،ج؍۸، الامام ابوحنیفہ)مقدمہ ابن خلدون ص؍۴۳۴
۔ و ۹۰ ابو الجارود کے پیرو کہ جس نے امام علی علیہ السلام سے روایات بھی نقل کی ہیں، شیعہ در تاریخ ؍ ۴ ایضا،شیعہ در تاریخ ص؍۸۴، سیری درسیرہ ائمہ اطہار علیہم السلام ص؍۱۲۸، شہید مطہری،شیعہ در تاریخ ص؍۸۴،تاریخ شیعہ وفرقہ ہائے اسلام تا قرن چہارم ص؍۶۳،ملل والنحل شہرستانی
۔ شیعہ در تاریخ ص؍۸۴،تاریخ شیعہ وفرقہ ہائے اسلام تا قرن چہارم ص؍۶۳،ملل والنحل شہرستانی، ایضا،تاریخ شیعہ وفرقہ ہائے اسلام تا قرن چہارم ص؍۶۳۔ ملل والنحل شہرستانی ج؍۱،ص؍۹۰،تاریخ شیعہ وفرقہ ہائے اسلام تا قرن چہارم ص؍۶۳
ایضاّ،شیعہ در تاریخ ص؍۸۱،
۔ ، غالیان کاوشی در جر یا نہا و برآیند ہا،ص؍۱۰۴۔۱۰۲) و مستدرک الوسائل ج؍۱۲ص؍۳۱،خطط مقریزی ج؍۴ ص؍۱۷۴، امالی شیخ طوسی ج؍۲، ص؍۲۶۴ ، علل الشرائع ج؍۱ ص؍۲۲۷، واللہ لو اقررت بما یقول فیّ اھل الکوفہ لاخذتنی الارض وما انا الا عبد مملوک لا اقدر علی شئی ضر ولا نفع ‘‘ اختیار معرفۃ الرجال جلد ۲ ، ص ۵۹۰) خطط مقریزی ج؍۴ص؍۱۲۷، منہج المقال ص؍۷۲، تاریخ طبری ج؍۹ ص؍۱۷۳، علل الشرائع ج؍۱ص؍۲۷
۔ توبوا الیٰ اﷲ فانکم فساق کفار مشرکون} خطط مقریزی ج؍۴ص؍۱۲۷، منہج المقال ص؍۷۲، تاریخ طبری ج؍۹ ص؍۱۷۳، علل الشرائع ج؍۱ص؍۲۷
۔ مفضل لا تقاعدوھم ولا توأکلوہم ولا تشاربوہم و تصالحوھم، رجال کش حدیث؍۲۵ و مستدرک الوسائل ج؍۱۲ص؍۳۱،خطط مقریزی ج؍۴ ص؍۱۷۴، امالی شیخ طوسی ج؍۲، ص؍۲۶۴ ، علل الشرائع ج؍۱ ص؍۲۲۷، خطط مقریزی ج؍۴ص؍۱۲۷، منہج المقال ص؍۷۲، تاریخ طبری ج؍۹ ص؍۱۷۳، علل الشرائع ج؍۱ص؍۱۲۷،لا تقاعدوہم ولا توأکلوہم، غالیان کاوشی درجریانہا وبرآیندہا ص؍۱۶۶، ملل ونحل شہرستانی ج؍۱ص؍۸۶
۔ الغلاۃ شر خلق اﷲ یصغرون عظمۃ اﷲ ویدعون الربوبیۃ لعباد اﷲ‘‘ امالی شیخ طوسیؒ ج؍۲ص؍۲۶۴
ابو الخطاب محمد ابن ابی زینب ۔۔۔ ملعون واصحابہ ملعونون فلا تجالس اہل مقالہم ، ص؍۱۴۲، فانی منہم بری وآبائی منہم براء، الغیبۃ ص؍۱۷۷، الامام الصادق کما عرفہ العلماء الغرب،مالی شیخ طوسیؒ ج؍۲ص؍۲۶۴
۔ ولا تقبلوا علینا حدیثاً الا ما وافق القرآن والسنۃ او تجدون معہ شاہد من احادیثنا المقدمۃفان المغیرۃ بن سعید لعنۃ اﷲ دس فی کتب ابی احادیث لم یحدث بہا ابی فاتقوا اﷲ وتقبلوا علینا ما خالف قول ربنا تعالیٰ وسنۃ نبینا‘‘ مناقب الامام امیر المومنین علیہ السلام ،ج؍۲،ص؍۲۸۶،مالی شیخ طوسیؒ ج؍۲ص؍۲۶۴،مقریزی ج؍۴ ص؍۱۷۴، امالی شیخ طوسی ج؍۲، ص؍۲۶۴ ، علل الشرائع ج؍۱ ص؍۲۲۷، خطط مقریزی ج؍۴ص؍۱۲۷، منہج المقال ص؍۷۲، تا۱، علل الشرائع ج؍۱ص؍۱۲۷
فکلما کان فی کتب اصحاب ابی من الغلو فذاک مادسہ مغیرۃ بن سعید فی کتبہم‘‘ وہی مدرک ص؍۲۲۵۔
۔ رسول جعفریان، حیات فکری وسیای امامان علیہم السلام نقل از العقیدۃ الشریفۃ فی الاسلام ،ص؍۲۰۹
۔ تحریف القرآن بین الشیعۃ والسنۃ ص؍۶۶،العقیدۃ الشریفۃ فی الاسلام ،ص؍۲۰۹
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)