-
مظلوم کے نام پر سیاست کیوں؟
- سیاسی
- گھر
مظلوم کے نام پر سیاست کیوں؟
1106
m.u.h
27/08/2019
1
0
’دائرۂ ادب ڈیسک‘
نائیجیریا میں قائد تحریک اسلامی آیت اللہ شیخ ابراہیم زکزکی عالمی سطح پر ہورہے احتجاجات اور نائیجیریا حکومت پر بنائے جارہے مسلسل دبائو کے بعد ۱۳ /اگست ۲۰۱۹ کو ہندوستان علاج کے لئے پہونچے ۔نائیجیریا حکومت نے انہیں عدالت کے حکم کے بعد میدانتا اسپتال دہلی میں علاج کے لئے ایڈمٹ کرایا تھا ۔ہندوستانی شیعوں کے لئے یہ افتخار اور اعزاز کی بات تھی کہ ایک مرد مجاہد اور مظلوم عالم دین سرزمین ہندوستان پر علاج کی غرض سے آئے ۔مگر افسوس کہ ایک مظلوم کے نام پر سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے ایسی قابل مذمت روش اختیار کی گئی جس کے بعد اللہ نے ہم سے یہ توفیق سلب کرلی کہ ہم آیت اللہ زکزکی کی میزبانی کا شرف حاصل کرپاتے ۔
قابل مذمت ہے کہ شیخ زکزکی کے ہندوستان آنے کی خبر عام ہوتے ہی ہر کوئی یہ ثابت کرنے پر تلا ہوا تھا کہ جیسے شیخ ان کے بلاوے پرہی ہندوستان آرہے ہیں ۔کئی تنظیمیں یہ ظاہر کررہی تھیں کہ جیسے نائیجیریا حکومت پر انہوں نے دبائو ڈال کر شیخ زکزکی کو ہندوستان بھیجنے پر مجبور کیا تھا ۔کیا مظلوم کے نام پر ایسی سیاست کرنا اور شہرت پانے کی ناکام کوشش کرنا صحیح تھا ؟۔ بالکل نہیں ۔شیخ زکزکی کے لئے پوری دنیا میں مسلسل احتجاجات ہورہے تھے ۔ہمیں میڈیا کے ذریعہ ان مظاہرین کے بارے میں بھی معلوم ہوا جو ایک مہینے سے بھی زیادہ وقت سے مسلسل دھرنے پر بیٹھے تھے ۔شیخ کے لئے احتجاجات اور مظاہروں کے علاوہ پوری دنیا میں دعائیں کی جارہی تھیں ۔ان کے چاہنے والے اپنے ملک میں موجود نائیجیریا کے سفارت خانے ،اقوام متحدہ کے دفتر اور اپنی حکومت کو مسلسل خط لکھ کر انکی رہائی اور علاج کے مطالبے کررہے تھے ۔اللہ جانے کس کی دعا باب اجابت سے ٹکرائی ۔کس کا احتجاج رنگ لایا کہ شیخ کو عدالت نے علاج کے لئے ہندوسان آنے کی اجازت دیدی ۔مگر کچھ لوگ سوشل میڈیا پر یہ لکھ رہے تھے کہ شیخ صرف ان کے بلاوے پر ہندوستان آرہے ہیں ۔ایک پورا گروہ اس معاملے کی تشہیر میں لگ گیا تھا تاکہ اپنی مردہ تنظیموں میں جان پھونکی جائے یا ان کے نام پر چندہ اکٹھا کیا جائے ۔یہ روش قابل مذمت تھی مگر اس ٹولے کی مخالفت کون کرتا کیونکہ سوشل میڈیا پر ان کا ایک وسیع حلقہ ہے جو انکے سیاہ و سفید پر بھی انکی حمایت میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتاہے ۔
ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ شیخ زکزکی ہندوستان میں بھی نائیجیریہ حکومت کی حراست میں تھے ۔انہیں اس شرط پر علاج کے لئے ہندوستان آنے کی اجازت ملی تھی کہ ان کی ساری سکیورٹی کی ذمہ داری نائیجیریا حکومت کی ہوگی اور ہندوستان میں نائیجیریا سفارت خانہ ہی ان کے سارے معاملات کی دیکھ ریکھ کرے گا ۔حتیٰ کہ ان سے ملنے کے لئے بھی نائیجیریا سفارت کی اجازت لازمی ہوگی ۔میدانتا اسپتال میں ان کی سکیورٹی اس قدر بڑھادی گئی تھی کہ شیخ کو اسپتال بھی قید خانہ معلوم ہورہاتھا ۔ان کے ڈاکٹروں کو ان کے علاج میں شامل نہیں کیا گیا ۔کیونکہ اسرائیل ،امریکہ اور سعودی حکومت کی مدد سے نائیجریا حکومت نے اسپتال کے عملے پر اتنا دبائو ڈال دیا تھا کہ شیخ کے ساتھ انتہائی برا سلوک کیا جارہا تھا ۔اس پر ظلم یہ کہ نائیجیریہ حکومت نے شیخ کو ایک ’’دہشت گرد ‘‘ کے روپ میں ہندوستانی ڈاکٹروں اور حکومت کے سامنے پیش کیا تھا ۔اسپتال کا عملہ ان کے ساتھ ویسا ہی برتائو کررہا تھا جیسا ایک ’دہشت گرد ‘ کے ساتھ کیا جا تاہے کیونکہ میدانتا اسپتال میں امریکہ کی سرمایہ کاری ہے،لہذا ایک مرد مجاہد کے لئے ایسا ذلت آمیز علاج ناقابل برداشت تھا۔شیخ تو امام حسینؑ کے پیرو تھے جن کا پیغام ہے کہ ’ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے‘ ،تو پھر شیخ زکزکی اس ذلت آمیز علاج پر کیسے راضی ہوسکتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ شیخ نے میدانتا کے ڈاکٹروں کے کہنے پر دوبارہ ٹیسٹ کرانےسے منع کردیا اور کہا کہ ان کی سابقہ جانچوں کی بنیاد پر ہی ان کا علاج کیا جائے ۔ان کی شرطیں اسپتال کی انتظامیہ کو پسند نہیں تھیں ۔کیونکہ ان کا مقصد تو کچھ او ر تھا ۔وہ تو شیخ کے قتل کے درپے تھے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ شیخ کو نائیجیریہ واپس جانے کا فیصلہ لینا پڑا۔
قابل غور ہے کہ شیخ کے استقبال کے لئےمولانا کلب جواد نقوی سمیت علماء کا ایک وفد دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر موجود تھا مگر شیخ چونکہ نائیجیریہ حکومت کی حراست میں تھے اور ان کا مقامی لوگوں سے ملنا جلنا منع تھا ،لہذا انہیں وہاں موجود کسی بھی عالم دین سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ انہیں خفیہ طریقے سےدوسرے گیٹ سے نکال کر ایمبولینس کے ذریعہ اسپتال روانہ کردیا گیا۔مولانا کلب جواد نقوی کے بیان کے مطابق انہوں نے شیخ کے بہتر علاج اور ان سے علماء کی ملاقات کے لئے راج ناتھ سنگھ سے بات کی تھی ،مگر جس دن انہیں شیخ سے ملنے کی اجازت ملی تھی ،اس کے ایک دن پہلے ہی شیخ کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا ۔یہ سب کچھ اتنی جلدی میں ہوا کہ کسی کے پاس کچھ کرنے کا موقع نہیں تھا ۔جس وقت مختار عباس نقوی نے شیخ سے ملاقات کی تو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے شیخ کی حالت میں سدھارہورہا ہے ۔مولانا کلب جواد نقوی نے مختار عباس نقوی سے فون پر شیخ زکزکی کی صحت اور علاج کے بارے میں بات کی ۔انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ شیخ کا علاج ہورہاہے اور کل ان کا آپریشن متوقع ہے مگر وہ اگلا دن نہیں آیا ۔
جس وقت شیخ ہندوستان چھوڑ کر جارہے تھے اس وقت یہ محسوس ہورہاتھا کہ جیسے اللہ نے ہم سے ایک نعمت چھین لی ہے ۔ایسی نعمت جس کا دوبارہ ملنا ممکن نہیں ہے ۔ہم پروردگار عالم سے آل محمد ؑ کے حق کے طفیل میں دعا گو ہیں کہ شیخ زکزکی جلد از جلد صحتیاب ہوں اور ان کےساتھ ان کے تمام چاہنے والے جو قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں ،انہیں رہائی نصیب ہو ۔
واضح رہے کہ مولانا کلب جواد نقوی کی ایماء پر مجلس علماء ہند نے مؤمنین لکھنؤ کی جانب سے دوہزار سے زائد خطوط بذریعہ ڈاک دہلی میں واقع نائیجیریا سفارت خانے کو روانے کئے تھے ۔خطوط کے لئے آصفی مسجد میں کیمپ لگایاگیا تھا جس میں سیکڑوں مومنین نے اپنی طرف سے نائیجریہ سفارتخانہ ،واقع دہلی کو خط لکھ کر شیخ زکزکی کی رہائی اور علاج کے لئے ہندوستان بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا ۔لیکن کئی وجوہات کی بناپر اس کی تشہیر سوشل میڈیا پر نہیں کی گئی کیونکہ ضروری نہیں ہے کہ ہر کام کا ڈھنڈروا سوشل میڈیا پر پیٹا جائے ۔اسی طرح دنیا بھر کی مختلف تنظیمیں شیخ زکزکی کی رہائی اور بہتر علاج کے لئے کوشاں تھیں ،جن کی کوششوں کے بارے میں شاید ابھی ہم اچھی طرح واقف بھی نہیں ہیں ۔ہم ان لوگوں کی مشقتوںاور زحمتوں کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے جو ایک مہینےسے بھی زائد دھرنے پر بیٹھے رہے اور شیخ کی رہائی اور بہتر علاج کا مطالبہ کرتے رہے ۔ساتھ ہی وہ تنظیمیں جو شیخ کے علاج کے لئے اور ان کی رہائی کے لئے اب بھی مسلسل کوششیں کررہی ہیں ،ان کے بارےمیں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔پروردگار عالم ان تمام تنظیموں کی توفیقات میں اضافہ کرے اور انہیں اس راہ میں کام کرنے کی مزید قوت عنایت کرے ۔آمین۔